قلمی دوستی کا دور گزرا تو فلمی دوستی نے اس کی جگہ لے لی۔ سیاست میں تو کچھ ضرورت سے بھی زیادہ اس کا عمل دخل ہو گیا ہے۔ یادش بخیر لندن میں بیٹھا ہواغم+ خوارشخص کراچی کے لوگوں سے TV پر فاصلاتی خطاب میں کبھی روتا‘ کبھی ہنستا‘ کبھی ٹھٹھے مارتا‘ کبھی ٹھاٹھیں۔ نعرہ ایک ہی تھا: ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اس نعرے نے کراچی کو مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنا دیا۔ جس کے نتیجے میں بوری بزنس بے قابو ہو گیا۔ کراچی نے انگڑائی لی‘مافیا کا ہوشربا طلسم توڑا اور ساتھ بتا دیا کہ اس ''ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ والے نعرے میں شہرِ پاکستان کو غم کے سوا کچھ نہیں دیا۔
اس شہر کے اکثر غم خوار سات سمندرپار جا بسے ہیں۔ جہاں بھتے اور چندے کے پیسوں سے انہیں اُجلی سڑکیں‘ واک ویز‘ پارک‘ اچھے ہسپتال‘ پب‘ کلب‘ کھابے‘ مساج رومز اور پار رومز سب دستیاب ہیں۔ کراچی کل روشنیوں کا شہر تھا‘ آج کچرا کنڈی‘ سٹریٹ کرائمز‘ ڈاکوئوں‘ اٹھائی گیروں‘ اغوا کاروں‘ ابلتے گٹروں‘ گندے پانی میں لتھڑی ہوئی بوسیدہ سڑکوں اور گاربیج سے بھرے ہوئے برساتی نالوں‘ ندیوں کا گھر بنا دیا گیا ہے۔ 75 سالوں میں سے تین سال عمران خان کے نکالیں تو شہر کی نمائندگی سٹیٹس کو والی صرف تین طاقتوں کے ہاتھوں میں گھومتی رہی۔
پہلے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے اس کے وارث بنے جو وارثِ پاکستان کی زندگی میں ان کے ہمنوا تک نہ تھے۔ دوسرے نمبر پر لسانی آگ پرتیل ڈالنے والے جن میں ہمیشہ اچھا سپاہی اور برا سپاہی کا ناٹک رچانے والے دونوں ٹولے برسرِ اختیار ہی رہے۔ تیسرے مرسُوں مرسُوں والے اَن گائیڈڈ میزائل۔
ا ن سب کو اوپر نیچے رکھ کر پچھلے ماہ کے ضمنی الیکشن میں شہرٍ پاکستان کے باشعور لوگوں نے شکست کی کٹی پہاڑی سے لڑھکا دیا۔
اس سے پہلے پنجاب میں سدا بہار حکمرانوں کو 20 ''لوٹا‘‘ نشستوں پر حیرتناک اور عبرت انگیز شکست ہوئی۔ ا گرچہ ان کی دلجوئی کے لیے پوری کوشش کی گئی کہ یہ شکستِ دو تہائی پی ٹی آئی کا نعرہ نہ بننے پائے۔ اس کے باوجود ضمنی الیکشن میں ووٹر ٹرن آئوٹ اس قدر بھاری اور تاریخی تھا کہ یہ تاریخی شکست جُھرلو اور ٹھپے سے بھی Marginalizeنہ ہو سکا۔
اگلا محاذ 100 فیصد ''جمہوری‘‘ طاقتوں نے قومی اسمبلی کی نو نشستوں پر دوسری بار استعفے منظور کر کے ازخود کھولا۔ جس کے لیے پلان یہ تھا کہ اس محاذ کی نو سیٹیں پی ڈی ایم کے حوالے کر دی جائیں تاکہ حکومت کو صرف دوسیٹوں کا طعنہ دینے والوں کا منہ بند کیا جا سکے۔ عین جمہوری طاقتوں کا خیال تھا کہ ان سیٹوں پر کچھ لوگوں کی Arm Twistingکام آ جائے گی۔ ووٹر ‘ٹرن آئوٹ ہاٹ لائن کے تابع رکھنے کا بندوبست بھی ہوالیکن 16 درباری کھلاڑیوں کے مقابلے میں ایک کپتان نے نو کی نو سیٹوں پر خود الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر کے یہ بلّف بھی کال کر لیا۔وفاقی ٹیمیں میدان میں اتاری گئیں۔ سندھ اور پنجاب میں عمران خان کی طوفانی انتخابی مہم کا سونامی سب کا حوصلہ بہا لے گیا۔
ایک اہم سوال آپ کے ذہن میں یہ آیا ہو گا کہ آخر ان سیٹوں پر الیکشن ملتوی کیوں ہوئے؟ اس کا جواب ایک خالص (ن) لیگی اینکر نما سپوکس پرسن صاحب نے دیا۔ کہتے ہیں: مجھے (ن) لیگ کے اور حکومت کے ایک مرکزی لیڈر نے خود بتایا کہ ہم نوکی نو سیٹوں پر الیکشن ہار جائیں گے۔ 16 سر پھر آپس میں جڑ گئے۔ طے ہوا کہ وزارتِ داخلہ الیکشن کمیشن کو فرمائشی خط لکھے۔ یہی کہ سیلابی صورتحال کے پیشِ نظر الیکشن ملتوی کر دیے جائیں۔
یہ الیکشن سے دو دن پہلے کا فیصلہ تھا جس پر نیم شب کو عملدرآمد بھی ہو گیا‘ حالانکہ اس مرحلے پر اگر انتخاب کے فیصلے کو Reconsider یا ری شیڈول کرنا ہوتو فیصلہ بند کمرے میں نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے امیدواروں کو نوٹس دینا ضروری تھا۔ پھر وزارتِ داخلہ کے خط کو کمیشن کے سامنے کھلی سماعت میں رکھا جاتا تاکہ انتخابی امیدوار یا ان کے وکیل اس خط کی حقیقت پر اپنا مؤقف پیش کرتے۔
جاوید ہاشمی کے مقدمے سمیت لاتعداد کیسز میں سپریم کورٹ نے اس حوالے سے رہنما اصول وضع کر رکھے ہیں جنہیں سننا بھی پسند نہ کیا گیا۔ پاکستان کی ڈیموکریٹک موومنٹ کہلانے والی 16 پارٹیوں نے یک طرفہ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ پھر آن گرائونڈ شکست کھانے کے بعد آخری دو بالوں پر وکٹیں اٹھائیں اور میدان سے بھاگ نکلے۔ وکٹ اٹھائی گیروں کی واردات عین متوقع تھی جس کی پیش گوئی غیر جانبدار تجزیہ کار اور قلم کار پہلے سے کر چکے تھے۔
جن کا ریکارڈ بار بار اہلِ وطن کو چھوڑ کر وطن سے بھاگنا ہو‘ جو ٹھنڈے Blower لگائے بغیر گرمی میں جلسہ تک نہ کر سکیں اُن کے گھریلو ہمدرد‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں کے جتنے مرضی نعرے لگا لیں بھگوڑوں سے بھگوڑے پن کی عادت کوئی نہیں چھین سکتا۔
اگلے روز'' امپورٹڈ‘‘ حکومت کے 'شوبوائے‘ نے اعلان کیا: سرکار نے 20 ارب روپے متاثرین میں تقسیم کر دیے ہیں۔ موصوف اتنا نہیں بتا سکتے کہ متاثرین سے اُن کی مراد کیا تھی؟ انٹیریئر سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کے متاثرین کا غیظ و غضب‘ بے بسی اور بے چارگی کا چارٹر آف ڈیموکریسی ہے۔ جو پکار پکار کر کہہ رہا ہے‘ امداد ہمارے پاس ہے اور غم تمہارے ساتھ ہیں۔
یہ جو درجنوں امدادی طیارے آئے ہیں‘ ان میں آیا کیا ہے؟ یہ تفصیل بھی کوئی نہیں بتاتا۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے فلسطین کی قابض اسرائیلی حکومت کے بعد‘ اسلام آباد کے ساڑھے سات کلومیٹر کے علاقے پر محیط '' امپورٹڈ‘‘ حکومت نے کمال پرفارمنس دی ہے۔ کیپٹل ٹیریٹری پولیس نے ٹویٹر پر یہ اعلان کیا کہ ہم نے وہ حملہ آور ڈرونز خرید لیے ہیں جو نئی طرز کے آنسو گیس کے گولے احتجاج کرنے والوں پر فضا سے برسائیں گے۔ ان جیسے ڈرونز ہم سب نے پہلے صرف اسرائیلی حکومت کی طرف سے مسجداقصیٰ پر برستے ہوئے دیکھے تھے۔ اب خوشخبری یہ ہے کہ پہاڑوں‘ جنازوں اور شادیوں کے ساتھ ساتھ شہروں اور بازاروں میں احتجاج کے لیے باہر آنے والوں پر بھی ڈرون حملے ہوں گے۔