مُنہ لٹکے‘ چہرے جھٹکے ہوئے۔ گفتگو ایسی جیسے دریا کنارے بے آسرا تنکے اٹکے ہوئے۔ رویہ یہ کہ ہوا ہی کیا ہے؟ چھ ماہ میں 31 سیٹوں پر الیکشن کروائے تو پی ٹی آئی نے ان میں سے صرف 26 نشستیں ہی تو جیتی ہیں۔ POTUS اتالیق نے تو حد ہی کر دی۔ اس خبر پر ایسے تبصرہ کیا جیسے منہ میں اخروٹ ڈال کر غراروں کی کوشش کررہا ہو۔ اخروٹ بھی برازیلین نَٹ جو گول نہیں انڈے کی طرح بیضوی ہوتے ہیں۔ جناب یہ ہیں پرانے پاکستان کی چیختی‘ چنگھاڑتی جھلکیاں۔ جو ان دنوں سکوتِ مرگ کا سینہ چیر کر آسمانِ سیاست پر راج کر رہی ہیں۔
یادش بخیر! روزنامہ دنیا کے اسی صفحے پر 24جون 2022ء کو وکالت نامہ چھپا۔ عنوان تھا ''بدلے ہوئے سماج کا دیمک زدہ ڈھانچہ‘ تب بھی آج والے حالات کے Denominator‘ تعصب کی عینک کے بغیر دیکھا جاتا تو‘ پورے پاکستان میں دیکھے جا سکتے تھے۔ اُس وکالت نامے کی چند ابتدائی لائنوں کے الفاظ یہ تھے۔
''پاکستان جنریشن گیپ کا کیس سٹڈی ملک ہے۔ پہلی جنریشن وہ جو پچھلی نصف صدی گزرنے کے بعد پیدا ہوئی‘ 60سال سے اوپر اور 70کے پیٹے میں ہے۔ دوسری جنریشن 14سال سے 30سال کے درمیان والی۔ ان دونوں کو آپ 5‘ 7سال اوپر نیچے بھی کر سکتے ہیں۔ دونوں کی تخلیق کے بعد تعلیم‘ تربیت‘ پرورش‘ روزگار‘ معلومات اور معاملات چلانے کے طریقوں میں 180ڈگری والا یوٹرن کہیں نظر نہیں آرہا بلکہ یہ جنریشن گیپ 360ڈگری سے بھی بہت آگے کا بڑا Phenomenon ہے‘‘۔
جنریشن گیپ کے حوالے سے میری ایک گفتگو جماعت اسلامی پاکستان کے امیر جنابِ منور حسن مرحوم سے ہوئی۔ منور حسن صاحب مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک اور میرے مہربان تھے۔ اسلام آباد تشریف لاتے تو ملاقات رہتی۔ میرے بچوں کی شادیوں پر بھی وقت نکال کر کرم فرمائی کرتے۔ میری صاحبزادی ڈاکٹر خدیجہ کی رخصتی پہ تشریف لائے۔ میرے بیٹوں نے استقبال کیا‘ مجھے معلوم ہوا تو بھاگم بھاگ جا ملا۔ بڑا سنجیدہ چہرہ بنا کرکہنے لگے: یہ آپ نے کیا کر دیا؟ ساڑھے 8بجے شادی کا کھانا کھلوا دیا۔ میں سوچ کر آیا تھا 2‘ اڑھائی گھنٹے گپ شپ کے لیے آسانی سے مل جائیں گے۔ ان کے انداز کی برجستگی نے ارد گرد موجود بے شمار مہمانوں کو بہت متاثر اور متوجہ کیا۔ ایک مرتبہ مجھے ایک مقدمے کی وکالت کے لیے3دن کے لیے کراچی جانا تھا۔ اس ارادے سے کہ ایک شام جنابِ منور حسن صاحب سے نشست ہو‘ میں نے اُن کو ٹیلیفون کردیا۔ میرے ایک جملے پہ وہ بڑے زور دار تبصرے کرتے تھے اور میں اُسی سے انہیں ہمیشہ مخاطب کیا کرتا۔ اُس روز بھی میں نے ایسا کیا۔ ہیلو‘ السلام علیکم امیرِ محترم۔ دوسری طرف سے خاصا اونچا ہنستے ہوئے کہنے لگے: نئے میڈیا کے جدید Mediums نے صرف امیروں کو محترم بنا دیا ہے۔ ہم ایسے غریب کہاں اور کہاں امیرِ محترم۔ میں نے منور حسن صاحب کے اس جملے کو بہت سنجیدگی سے لیا۔
آج پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہم دونوں کی ٹیلی فون پر گفتگو کو سننے والوں نے اس جملے کوہم سے بھی زیادہ سنجیدگی سے لیا تھا۔ آج منور حسن صاحب کے الفاظ میں کون امیر ہے جو محترم نہیں بن بیٹھا۔ وہ جنہوں نے ایک دوسرے کو تیس سال چور‘ ڈاکو‘ سکیورٹی رسک‘ پاکستان مخالف اور کیا کیا نہیں کہا۔ وہ صرف امیر نہیں بلکہ اپنے ہمراہی مجرموں میں محترم بھی بن گئے ہیں۔
آج کا پاکستان واضح طور پر دو انتہائوں میں بٹ چکا ہے۔ پہلے کبھی یہ ملک‘ مُلاّ اور مسٹر میں تقسیم تھا۔ آج ایک طرف چند امیر ایلیٹ کی چھوٹی سی ٹولی ہے‘ جن کے ہاتھ میں بار بار اقتدار کی باگ پکڑائی جاتی ہے۔ یہ ٹولی اپنے کرتوت نہیں بدلتی‘ اپنے قانون بدل دیتی ہے۔ دوسری جانب (ملک کی کل آبادی کا ستر فیصد کے قریب) نوجوان بپھرا کھڑا ہے۔ ایلیٹ ٹولی 1949ء سے 1990ء تک کی طرزِ سیاست کے رومانس کی اسیر ہے۔ ایسا بے مثال رومانس جس میں رومیو ''ڈالر‘‘ ہے اور جولیٹ Pound Sterling۔ اس ایلیٹ ٹولی کا دو نکاتی ایجنڈا یوں ہے کہ کاروبار کے لیے پاکستان بہترین چراگاہ اور کالے دھن کو پارک کرنے کے لیے پارک لین بہترین پناہ گاہ ہے۔ اس ایلیٹ ٹولی کے چیلے چانٹے‘ ان کی ننگی سیاست پر اپنی ضرورتوں کی چادریں اوڑھتے رہتے ہیں۔ اسی خدمت کے عوض نوکریاں‘ سفارتیں‘ عہدے‘ وزارتیں چوری کے مال کی طرح بانٹی جاتی ہیں۔ مگر نئی نسل پرانی مجرمانہ سوچ کو دھتکار کر اپنے نئے پاکستان کے شفاف تصور سے نیچے کسی چیزپر راضی ہونے کے لیے تیار نہیں۔ تقسیمِ ہند سے ذرا پیچھے نظر ڈالیں تو محمد علی جناحؒ بھی ایسے ضدی بیرسٹر نظر آتے ہیں۔ لارڈز آف انگلستان‘ تاجِ برطانیہ‘ کانگریسی مولوی اُس وقت کا پی ڈی ایم دکھائی دیتا ہے۔ ایک ملٹی پارٹی گرینڈ الائنس جس کا ہدف بیرسٹر محمد علی جناحؒ کی ذاتِ نا تواں تھی‘ اکیلی جان۔ کچھ محمد علی جناحؒ پر کفر‘ شرک‘ الحاد‘ خروج اور متحدہ ہندوستان سے غداری کے فتوے لگاتے تھے‘ باقی سب مل کر ان فتوؤں کو پھیلاتے تھے۔ تاجِ برطانیہ نے پوری کوشش کی کہ قائداعظم کو ایک آزاد پاکستان کے بجائےDominion of Muslim Statesپر راضی کر لیا جائے مگر قائداعظم نے ہرطرح کے خوف اور لالچ کو دھتکارکر فرمایا ''بے شک اس کا سائز ڈاک ٹکٹ (Postage stamp) کے برابر ہو لیکن میں پاکستان لے کر رہوں گا‘‘۔
جس ایلیٹ ٹولی نے 7اپریل 2022ء کو یو ایس بہادر کا سائفر گلے لگایا۔ 8اپریل کو ان کا نعرہ تھا ویلکم ٹو پرانا پاکستان۔ جی ہاں پرانے پاکستان میں خوش آمدیدکے نعرے کی قیمت قوم نے کیا چکائی‘ اُس کی جھلکیاں دیکھنے میں حرج ہی کیا ہے۔
پہلی جھلکی: ملک کی تاریخ میں پہلی بار یو ایس پریذیڈنٹ جوبائیڈن نے ہمارے سٹرٹیجک اثاثوں پر ہرزہ سرائی کی۔ ویلکم ٹو پرانا پاکستان کے خارجی امورکا وزیر بولا: صدر صاحب نے غلط فہمی میں کچھ کہا ہوگا جس پہ وائٹ ہائوس کو دوبارہ بولنا پڑا۔ ہرزہ سرائی کو دہراتے ہوئے کہا‘ یہ کوئی نئی بات نہیں جو صدر بائیڈن نے کی ہے۔ ملک کی غیرت کے رکھوالے ایسے سیاست کار ہوں‘ جو ملک کو دی جانے والی گالی کو بھی انعام سمجھیں‘ چند درجن لوگ اپنے آپ کو آخری ذہین اور بائیس کروڑکو بے وقوف سمجھیں تو ایسے میں نئی نسل سے گھبرانا بنتا ہے۔
دوسری جھلکی: ڈالر مین نے ملک کے فاریکس ریزرو لٹا دیے پھر بھی ڈالر نے امپورٹڈ کو لفٹ نہ کرائی۔ ایلیٹ ٹولی کے علاوہ آج کوئی بھی ایک ایسا پاکستانی نہیں جس کی قوتِ خرید متاثر نہ ہوئی ہو۔ پے در پے ووٹرز کے ریفرنڈم نے ثابت کر دیا نئی نسل ناقابلِ شکست ہے جبکہ پرانی سیاست اُس دور کی جادو گری ہے جب ٹوپی سے فاختہ نکالی جاتی تھی۔ اب خلیل خاں بے خانماں ہیں۔ ان کے مددگار مجبور نہ سہی لاچار ضرور ہوگئے ہیں۔
چند ماہ بعد 2023ء کے لیے جو انتخابی فہرستیں شائع ہوں گی‘ اُن میں اڑھائی سے تین کروڑ کے درمیان نئے ووٹر رجسٹرڈ ہوکر سامنے آئیں گے۔ اس میں بھی کوئی شک ہے کہ یہ پاکستان کی نئی نسل ہے جس کے آدرش‘ توانائی اور سچائی‘ مصلحت‘ مصالحت‘ کرپشن اور نظریۂ ضرورت کی سیاست کو پا مال کرکے رکھ دیں گے۔