"SBA" (space) message & send to 7575

دوپاکستان‘ دوتھانے‘دوتوشہ خانے

کوئی اور دیکھے نہ دیکھے۔ ورلڈ بینک‘ امریکہ‘ آئی ایم ایف‘ اسرائیل‘ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک تو دیکھ رہا ہے کہ ہم کہاں پہنچ چکے ہیں۔سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی خطرے کاگھڑیال بجا دیا ہے۔ بدھ کے دن سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اعدادو شمار کا جو Bulletinجاری کیا ہے وہ پریشان کن سے بھی آخری سٹیج کا ہے۔ جس سپر ڈالر مین کو PM Planeمیں باہر بھیجا گیا تھا اس کا جادو چلنے سے پہلے گیلا پٹاخہ ثابت ہوا۔ سٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کے قرضے Sky Rocketکر گئے ہیں۔ جو اس وقت 62.5ٹریلین تک جا پہنچے ہیں۔ صرف حکومتی قرضے 12ٹریلین کی بلند ترین سطح کو چُھوچکے ہیں۔ لیکن PDMاور اُس کی پروپیگنڈا مشینری اور سرپرستوں کا مسئلہ معیشت نہیں سیاست ہے۔ وہ بھی سنگل پوائنٹ ایجنڈاپالیٹکس۔
اسی لیے تمام ادارے‘سارے حکومتی وسائل‘ ٹوٹل مائوتھ پیس بریگیڈ سب کے سب' عمران مکائو مہم‘ پر لگے ہوئے ہیں۔ قوم کو بتایا گیا تھا کہ' عمران ہٹائو مہم‘ جوں ہی کامیاب ہوگی ڈالر 100روپے سے نیچے آ جائے گا۔ مہنگائی صفر ہو جائے گی اور ساری دنیا پائونڈسڑلنگ‘ ریال‘ یوآن‘ ڈالر‘درہم وغیرہ لے کر پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنا نے دوڑ پڑے گی۔
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آج پاکستان کہاں کھڑا ہے تو کسی سے بھی مت پوچھیے۔ بس آپ سٹیٹ بینک کی رپورٹ خود پڑھ لیں۔ عمران خان کی زندگی اب بھی خطرے میں ہے۔ اُس کے چنیدہ ساتھی امام ضامن باندھ کر گھر سے نکلتے ہیں۔
سیلاب کے متاثرین کو سرکار ایسے بھول گئی ہے جیسے جلے ہوئے گائوں کو جوگی بھول جاتا ہے۔ اگلے روز ایک پارلیمانی کمیٹی نے سیلاب متاثرین کا ڈیٹا اور اُن کو ملنے والی امداد کی طلب کی۔ سرکار کا جواب تھا‘متاثرین کے لیے سب اچھا ہے مگر ڈیٹا اور مال کہاں خرچ ہوا اُس کی تفصیل ہم نہیں دے سکتے۔ اسی دوران ڈیلی میل کے David Roseوالے مقدمے میں شہباز شریف کو لندن کے جج نے جرمانہ کر دیا۔ اُسے بتایا گیاشہباز شریف وزیر اعظم بن گئے ہیں لہٰذا اب اُ ن کا عدالت میں پیش ہونا ممکن نہیں رہا۔ لندن ہائی کورٹ آف جسٹس کے Justice Methew Nicklin نے وہ کہا جو سننے کے لیے ہمارے کان ترس گئے ہیں۔
گورے جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ Great Britainکی عدالت میں وزیر اعظم اور عام آدمی کے درمیان کوئی فرق نہیں‘ قانون کے سامنے سب یکساں جواب دہ ہیں۔ شورش کشمیری بھی انصاف کے لیے ترستے اور ظلم کے خلاف پسِ دیوارِ زنداں تڑپتے رہے۔ زنجیرِ عدل کے شہر میں آغا عبدالکریم شورش کو کہنا پڑا تھا:
ترس گئے ہیں نوا ہائے خوشنما کے لیے
پکار وادیٔ خاموش سے خدا کے لیے
ان دنوں جس ذریعے کو قومی مسائل کا حل قرار دیا جا رہا ہے اُس سوچ کے دو عدد تازہ نمونے یوں رپورٹ ہوئے ہیں۔مغرب میں پناہ گزین ایک پاکستانی نے اس موجودہ قومی بحران کا حل انتخابات کے بجائے ان الفاظ میں تجویز کیا‘ چند ہزار بندے مار کر امن قائم کیا جاسکتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ موصوف Pensionerبتائے جاتے ہیں۔
اگلے دن وفاقی دارالحکومت کے نیشنل پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس برپا کروائی گئی۔ جس میں 1977ء والے مارشل لاء کے بانی مبانی نے بحران سے نکلنے کا پہلے سے بھی زیادہ نایاب و نادر نسخہ بتایا۔ فرماتے ہیں: تب 900بندے مرے تھے‘ اب ایک بندہ مرا ہے لوگوں کی سانس کیوں پھول گئی ہے؟ مارو۔۔۔یہ صاحب بھی ایک Pensionerہی ہیں۔ اس عجیب الخلقت سوچ کی تفصیل آپ پریس کانفرنس Media Clipsمیں دیکھ لیں۔
کیا دنیا میں آپ کسی ایسی آئینی ریاست کو جانتے ہیں؟ جہاں کوئی اپنے ہی شہریوں کو مار ڈالو کا مشورہ On Recordدے سکے؟ ایسا تو Dictatorshipمیں بھی ممکن نہیں‘ مگر اس وقت سارے قومی وسائل کا تمام فوکس آئین اور قانون نہیں بلکہ میری سوچ میری مرضی ہے۔
ہم اس اعتبار سے بھی دنیا کی جدید ترین ریاست ہیں جہاں پر Political Justiceکی اصطلاح نے جنم لیا۔ اعلیٰ عدلیہ کے بہت سے فیصلے Political Justiceکا حوالہ دیتے ہیں۔ ان دنوں بھی صرف ایک PoliticalلیڈرپرSingle Political Party Specificمقدمات‘ آئینی پٹیشنز اور FIR'sکے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔
جس طرح پاکستان کے دارالحکومت کو PDMکے سیاسی ڈھابے نے دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ آدھا شہر Red Zoneہے باقی آدھا اسلام آبادNo Go Zoneہے۔ عشروں پہلے سے وسائل کی تقسیم میں دو پاکستان ہواکرتے تھے۔ ایک وہ پاکستان جو وسائل پیدا کرتا تھا اور دوسرا پاکستان وہ جو سب کے وسائل پر پیداگیری کرتا تھا۔بے رحم کرپشن کرتا تھا اور آزادانہ منی لانڈرنگ کرتا تھا۔ اب نئی تقسیم سامنے آئی ہے۔ ایک پاکستان وہ ہے جس میں تقریر‘ ٹی وی ٹاکس‘ بلاگ‘ احتجاج‘ مظاہرے اور ٹوئٹ پر‘ پرچے ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسرا پاکستان وہ ہے جس میں اغواء‘ قتل‘ کیمروں کے سامنے درجنوں لوگوں پر سیدھی فائرنگ شہریوں کو قتل کرنے کی ترغیب‘ دھمکی اور مشورے سمیت کسی چیز کا پرچہ نہیں ہوسکتا۔ نتیجتاً ہمارے تھانے بھی امیر ہوگئے۔ جہاں غریبِ شہر کے لیے احترام کی قلت اور قانونی ریلیف کے بجائے ذلت کا ون ونڈو آپریشن ہوتا ہے جبکہ امیرِشہر کھیتوں کھلیانوں کے بعد اب تھانوں کے بھی اصل مالک ہیں۔اور تو اور ڈاکو بھی دو قسم کے ہو گئے ہیں۔ کچّے والے چھوٹو گینگ کہلاتے ہیں اور پکیّ والے موٹو مافیا۔
عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے توشہ خانہ ایک تھا۔ اب توشہ خانے بھی دو ہوگئے ہیں ایک وہ جس میں سے صرف 2100تحفے لے کر شوکت عزیز تحفوں سے بھرے جہاز میں بیٹھ کر لندن چلا گیا۔ توشہ خانے کی گاڑی نواز شریف کی صاحبزادی سے برآمد ہو۔ وہ بھی سال ہاسال بعد نہ تو خبر ہے نہ قانون کی خلاف ورزی۔ توشہ خانے کے فوجداری ریفرنس 21سال چلیں‘ فیصلہ نہ ہو۔ دوسرا توشہ خانہ وہ ہے جہاں سے عمران خان نے سرکاری طور پر Fixed Priceسے زیادہ پیسے ادا کر کے تحفے لیے۔ یہ ہے دوسرے توشہ خانے کا ناقابلِ معافی جرم۔
KPسے سرحدی گاندھی تھری نے ٹوئٹ کیا‘ گھڑی پر خانہ خدا کی تصویر تھی اُسے کیسے بیچا گیا۔ مجھے اپنی جائے نماز کا خیال آگیا۔ جب ادارے‘ سارے سیاست کار اور اُ ن کےPaid Contentوالے اہلکار یہاں تک پہنچ جائیں تو سمجھ لو ثابت ہو گیا عمران بطور وزیر اعظم نہ کرپٹ تھا‘ نہ کمیشن لیا‘ نہ منی لانڈرنگ کی۔
پتھر تھا مگر برف کے گالوں کی طرح تھا
اک شخص اندھیروں میں اُجالوں کی طرح تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں