وہ بڑا تگڑا جرنیل تھا۔ اپنے ملک کے علاوہ بھی دُور دراز کے دیسوں میں جاتا رہتا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل کی حیثیت سے اس کا کام ہی ایسا تھا۔ وہ اِنڈین اور برٹش (Mixed) III Army Corps کا کور کمانڈر بنا۔ جسے عرفِ عام میں Tigris Corps بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا نام لیفٹیننٹ جنرل Sir Stanley Maude تھا۔ جنرل Stanley نے اپریل1915ء سے‘ جب وہ زخمی ہوا‘ 1917ء تک برٹش فورسز کی Siege of Kut میں ناکامی کے اسباب اور عراقی قوم کی نازک رگ پر ہاتھ دھرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔
نجانے کیوں جنرل Stanley کی کہانی حیرت انگیز طور پر پرانی نہیں لگتی۔ خاص طور پر اِس واقعاتی کہانی کا وہ پہلو جو کسی قوم کی نفسیات سے تعلق رکھتا ہے۔ اب اس کہانی کی عمر 106سال سے زیادہ ہو چکی ہے‘ اس کے باوجود بھی یہ آج کی کہانی لگتی ہے۔ جس کی یاد ایک وزیراعظم اور ایک وزیر خزانہ کے پالیسی بیانات نے تازہ کر چھوڑی ہے جن میں سے صرف دو بیانوں کا تذکرہ یہاں کافی رہے گا۔ یوں جنرل Stanley کی سٹوری کا مورال یا نتیجہ آسانی سے سمجھ میں آ جائے گا۔ دوبیان یہ ہیں؛
پہلا بیان: ایک وزیراعظم نے ماوراء النہر جاکر پاکستان کی جو تعریف دنیا کے سامنے رکھی‘ وہ اُس کے اپنے الفاظ میں یہ ہے کہ مجھے پیسے دینے والا میرا مالک ہے۔ اس بیان کو مزید واضح کرنے کے لیے ایک دوسرا بیان آیا۔
دوسرا بیان: ایک دفعہ IMFپروگرام ختم ہوگیا تو پاکستان دوبارہ کبھی سر نہیں اُٹھا سکے گا۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے‘ یہ ایک وزیر خزانہ کے بیان کی رپورٹ شدہ شکل ہے۔
موصوف دو دفعہ پہلے بھی وزیر خزانہ کی حیثیت سے لُٹی پُٹی معیشت چھوڑ کر UAEاور UKمیں اپنے بزنس کو چار چاند لگانے کے مشن پر روانہ ہوئے۔ پچھلی دو دفعہ موصوف نے ملک کی تمام موٹرویز‘ تمام ہوائی اڈے اور بڑی بڑی عمارتیں قرض کے بدلے میں دوسرے ملکوں کے پاس گروی رکھنے کا کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ اس کے باوجود آج تیسری بار پھر اُس ملک کی وزارتِ خزانہ موصوف کے حوالے ہو چکی ہے۔ اس طرح کہ خزانہ مفروری کی تھیلی میں سے نکال کر منی لانڈرنگ والی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ مذکورہ وزیر خزانہ کا دو نکاتی ایجنڈا ہے‘ ایک قوم کی تقدیر سودی ڈالروں والے قرض سے سنورانے کا مشن۔ دوسرا قرض لینے کے لیے ملک کو پیسے دینے والے کو اس کا مالک بنانے کا کھلا اعلان۔
بات ہو رہی تھی General Stanleyکی۔ جس نے فیصلہ کیا کہ میں Mesopotamiaمیں بسنے والے لوگوں کی اصلی کمزوری ڈھونڈ کر چھوڑوں گا۔ جس کے ذریعے ہم عراق پر تاجِ برطانیہ کا پھر سے پھریرا لہرائیں گے۔ جنرل Stanleyنے ایک نیم پہاڑی دیہاتی علاقے کا انتخاب کیا جہاں وہ Expeditionکے نام پر جا پہنچا۔ یہ ایسا علاقہ تھا جس میں رہنے والے لوگوں کا گزر بسر بھیڑ بکریوں اور مال مویشی کو چرا کر پالنے سے ہوتا تھا۔ اس کی نظر ایک چرواہے پر پڑی جو بھیڑوں کا پورا ریوڑ چرا رہا تھا۔ General Stanley Maude اس چرواہے کے پاس پہنچا اور اپنے عرب مترجم سے کہا کہ اس سے پوچھو میں اسے ایک پائونڈ سٹرلِنگ دوں گا جس کے بدلے بہت معمولی سا کام اسے کرنا ہوگا۔ پائونڈ سٹرلنگ کا نام سن کر عراقی چرواہے کی باچھیں کھل گئیں۔
اُس نے اپنی انگلیوں پر حساب لگایا تو وہ خوشی سے اُچھل پڑا کیونکہ ایک برطانوی پائونڈ کی مالیت تو اُس کے آدھے ریوڑ کی قیمت سے بھی زیادہ نکلی۔ لالچ نے اس کو ڈھیر کر دیا۔ بے تابی سے مترجم سے پوچھا: مجھے کیا کرنا ہوگا؟ جنرل Stanleyکو بتایا گیا‘ اس نے ایک پائونڈ نکال کر چرواہے کے ہاتھ میں تھما دیا۔ کہا کہ اسے کہو ریوڑ کے ارد گرد حفاظت کے لیے دوڑنے والا کتا پکڑ کر لائے اور اُسے ذبح کر دے۔
جن علاقوں میں بھیڑ بکریاں چرائی جاتی ہیں وہاں کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ چرواہے کا کتا اُس سے کئی سو گنا زیادہ کام کرتا ہے۔ نہ صرف بھیڑ بکریوں کو محفوظ رکھتا ہے بلکہ انہیں اکٹھا کرنا بھی اُس کے ذمے ہوتا ہے یا کوئی بھیڑ بکری ریوڑ سے باہر نکلنا چاہے تو وہ اُس کو ڈرا کر واپس لے آتا ہے۔ چرواہے نے ایک پائونڈ اپنے کھیسے میں ڈالا اور بھیڑ بکریوں کے ارد گرد حفاظت کرنے والا کتا جنرل Stanleyکے قدموں میں ذبح کر دیا۔
جنرل Stanleyزیرِلب مسکرایا اور چرواہے سے کہا: اگر تم اس کتے کی کھال بھی اتار دو میں تمہیں ایک پائونڈ مزید دینے کو تیار ہوں۔ چرواہے نے خوشی خوشی کتے کی کھال ادھیڑ کر رکھ دی۔ جنرل Stanleyنے چرواہے کو کہا کہ میں تمہیں مزید ایک پائونڈ دے دوں گا اگر تم کتے کی بوٹیاں بھی بنا دو۔ چرواہے نے فوری طور پر یہ آفر بھی قبول کر لی۔ جنرل Stanley چرواہے کو تین پائونڈ دے کر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ چل نکلا۔
انویسٹرکو اپنا ماسٹر سمجھنے والا چرواہا جنرل Stanleyکے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ منمنا کر اُس نے جنرل سے کہا: اگر تم مجھے ایک پائونڈ اور دے دو تو میں تمہارے سامنے اس کتے کا گوشت کھانے کے لیے بھی تیار ہوں۔ جنرل Stanleyنے انکار میں سر ہلایا اور بولا میں صرف تمہاری نفسیات اور اوقات دیکھنا چاہ رہا تھا۔ تم نے محض تین پاؤنڈ کے لیے نہ صرف اپنے محافظ اور دوست کو ذبح کر دیا بلکہ اُس کی کھال اتاری‘ اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور اب چوتھے پائونڈ کے لیے تم اُس کا گوشت کھانے کے لیے بھی تیار ہوگئے۔
جنرل Stanleyبولا: مجھے Mesopotamiaمیں تمہارے جیسے لوگوں کی تلاش ہے۔ جنرل Stanleyاپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا اور اُنہیں بتایا کہ اب تمہیں ان لوگوں سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں رہی۔ اس ذہنیت کے لوگ ڈھونڈو‘ اُن کا جتھا بنائو اور انہیں طاقتور کر دو۔ اگر وہ اس قوم پر راج کرنا شروع کر دیں تو صرف تاجِ برطانیہ کے تحفظ نہیں بلکہ کتے کا گوشت بھی کھانے پر تیار ہو جائیں گے۔ اس لیے واپس چلتے ہیں‘ میں نے انہیں فتح کرنے کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔
ویسے یاد آیا ... ایسٹ انڈیا کمپنی بھی تو ہماری Investor ہی تھی۔