پاکستان میں توشہ خانہ کے حوالے سے پہلی سٹوری برادرم رؤف کلاسرا نے بریک کی تھی۔ تب میں کیبنٹ ڈویژن کا انچارج وزیر بھی تھا۔ اس لیے توشہ خانہ میں کیا کیا کچھ ہوتا رہا‘ اس کی کچھ تفصیل براہِ راست میرے علم میں بھی ہے۔ اس وقت ملک کی دو آئینی عدالتیں جن میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ شامل ہیں‘ ایک کے بعد ایک آرڈر پاس کر رہی ہیں کہ توشہ خانہ ریکارڈ پیش کرو۔
یہ ریکارڈ پیش کرنے کے بجائے شہباز حکومت پوری سپیڈ کے ساتھ ریکارڈ ٹچ کرنے سے بھاگ رہی ہے۔ دو وفاقی یونٹس کی سب سے بڑی عدالتوں کے معزز جج صاحبان‘ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ نے علیحدہ علیحدہ احکامات میں پچھلے 75سال کا ریکارڈ مانگا ہے۔ بتایا جائے کہ 75سال میں کس حکمران نے توشہ خانہ سے کون کون سے تحفے لیے؟ ان کی کیا قیمت ادا کی؟ اور اب توشہ خانہ میں کون سے تحفے برائے فروخت پڑے ہیں؟
دوسری جانب یہی حکومت گھڑی گھڑی ایک ایسی گھڑی کی گردان کر رہی ہے جس کے لیے طے شدہ فیس سے زیادہ رقم ادا کی گئی۔ یہ گھڑی برائے فروخت ہی تھی۔ اب توشہ خانہ کہانی میں ایک نیا Twist آ گیا ہے۔ ایسا Twist جس نے اس افسانے کی بنیاد اڑا دی کہ توشہ خانہ سے کوئی شے سرکاری طور پر خریدنا اخلاقی یا قانونی جرم ہے۔ جمعرات کے روز لاہور ہائی کورٹ کے فاضل بنچ کے روبرو توشہ خانہ کیس کی سماعت ہوئی‘ اس موقع پر توشہ‘ توشہ‘ توشہ ورد کرنے والی حکومت اپنے مؤقف سے بھاگ گئی۔ اس مقدمے میں توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والی ساری شخصیات کی مکمل تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے جو موقف اختیار کیا گیا ہے اُس کہ اہم نکات یوں ہیں:
پہلا نکتہ: اپنے تحریری جواب میں وفاقی حکومت نے جو کیبنٹ ڈویژن کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا‘ لکھا ہے کہ توشہ خانہ کے تحائف منظرِ عام پر آنے سے میڈیا ہائپ بن جاتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی حکومت میڈیا ہائپ کی حامی نہیں ہے تو عمران خان کے حوالے سے توشہ خانہ پر پچھلے 8ماہ سے میڈیا ٹرائل کون کر رہا ہے؟ کیا اس سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ یہ میڈیا ٹرائل پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ(PDM)نے کیا‘ حکومت میں شامل ایک ایک کارندے نے توشہ خانہ پر بات کی‘ سینکڑوں سے زیادہ ٹاک شوکیے گئے‘ اَن گنت پریس کانفرنسز کیں اور قوم کو یہ بتایا کہ توشہ خانہ لنڈا بازار کی طرح ہے کہ جس تک کوئی بھی رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اس کے بارے میں گفتگو کرنا خاص طور پر عمران خان کے خلاف‘ کارِ ثواب ہے ۔
دوسرا نکتہ: حکومت کے تحریری جواب میں یہ بھی شامل تھا کہ توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والی شخصیات کی تفصیل کھول دینے سے ملکی سلامتی اور بین الاقوامی تعلقات متاثر؍ خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ مسٹر جسٹس عاصم حفیظ صاحب نے بجا طور پر Remarks دیے کہ اس میں ملکی سلامتی اور بین الاقوامی تعلقات کہاں سے آ گئے۔ ساتھ ہی حکومت کے وکیل صاحب سے یہ بھی پوچھا کہ کیا صرف یہی وجہ ہے کہ توشہ خانہ کے تحائف کوخفیہ رکھا جا رہا ہے۔اگر کسی معاملے میں Official Secret Act کے تحت انہیں خفیہ رکھنا مقصود ہو اور حکومت اِسے Classified کے زمرے میں لے آئے تو پھر ایسے میں ماسوائے حکومت کے مجاز افسروں کے‘ اگر کوئی ریکارڈ حاصل کرتا ہے اور اسے میڈیا استعمال کرتا ہے تو اس کے خلاف FIRدر ج کر کے اور اسے گرفتار کرکے ریمانڈ‘ تفتیش وغیرہ سے گزر کر جیل جانا پڑتا ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال باجوہ صاحب اور ان کی فیملی کے حوالے سے ٹیکس کاغذات کو میڈیا تک پہنچانے کے ذمہ داروں کی گرفتاری سے ملتی ہے۔ حالانکہ یہ بھی ایک کھلا قانونی تضاد ہے کہ پارلیمنٹ کے سارے ارکان اور پبلک آفس ہولڈرز‘ ان کی جائیدادوں‘ ٹیکس اور بیوی بچوں کی تفصیلات پر مشتمل باقاعدہ ڈائریکٹریاں چھاپی جاتی ہیں۔ ان کے اثاثے اور ان کا ادا شدہ ٹیکس‘ آمدن کے ذرائع‘ ان پر ٹی وی ٹاک شوز‘ اخباری شہ سرخیوں اور اداریوں کی تفصیل آتی ہے لیکن اسی ملک میں سرکار کے وفاقی اکاؤنٹ نمبر 1سے تنخواہ لینے والے افسروں کے ٹیکس ریکارڈ‘ خواہ وہ کسی بھی طرح کی سروس میں ہوں‘ کی تفصیلات کو خفیہ رکھا جاتا ہے۔
یہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق میں شامل آرٹیکل نمبر 4‘ 8‘ 9 اور 25 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اگر حکومت کا یہ مؤقف ہے کہ توشہ خانہ کی تفصیلات سامنے لانے کی وجہ سے ملکی سلامتی اور بین الاقوامی تعلقات خراب ہونے یا متاثر ہونے کا خدشہ ہے‘ تو یہ معاملہ Official Secret Actکے زمرے میں آتاہے اور پھر یہ سوال بھی بنتا ہے کہ ابھی تک عمران خان کے توشہ خانہ کی تفصیلات‘ ایف بی آر‘ الیکشن کمیشن سمیت رپورٹروں‘ اینکروں اور میڈیا کارندوں تک پہنچانے والوں کے خلاف فوجداری مقدمے/ پرچے کیوں نہیں درج ہوئے؟
تیسرا نکتہ: کیبنٹ ڈویژن نے لاہور ہائی کورٹ کے روبرو یہ مؤقف بھی اختیار کیا ہے کہ سال 2015ء میں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں پرائم منسٹر آفس نے توشہ خانہ کی تفصیلات کو خفیہ رکھنے کے حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا۔ جس میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک ہونے سے بین الاقوامی دنیا سے پاکستان کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کا وہ کون سا ملک ہے جو کسی غیرملکی مہمان کو تحفہ دینے کے بعد اس کا تاحیات پیچھا کرتا ہو۔ تحفہ دے کر مہمان کو کہا جاتا ہو کہ آپ نے اسے خفیہ رکھنا ہے اور کسی کو نہیں بتانا۔ اس موقع پر اچانک نواز شریف کی بیٹی مریم نواز صاحبہ کی آڈیو لیکس یاد آگئی ہے جس میں وہ نواز شریف کے دورے کے دوران تاجکستان سے ملنے والے تحائف کے بارے میں ہدایات جاری کرکے کچھ لوگوں کے نام لے رہی ہیں جو بڑے نامور ہیں۔
آڈیو لیکس کے مطابق وہ کہہ رہی ہیں ٹوکرے جو وزیراعظم صاحب کو ملے تھے‘ فلاں فلاں کے گھر پہنچا دینا۔ ان ٹوکروں میں کیا تھا‘ یہ ظاہر ہونے سے ملکی سلامتی کو خطرہ نہیں ہے۔ ہاں البتہ وصول کرنے والوں کے پیٹ پر لات پڑ سکتی ہے اور ان ٹوکروں کی مالیت اگر زیادہ ہو تو کمر پر بھی۔
ایسے میں عمران خان اور ان کے اہلِ خانہ کو توشہ خانہ کے حوالے سے نشانہ بنانے والے قوم کے سامنے Full Disclosureکریں۔