کسی بھی سطح پہ کسی بھی قوم کے ادارے بے مہارے نہیں ہو سکتے۔ اس کا مطلب کہ سارے اداروں کو ملک کے اعلیٰ ترین قانون یعنی آئین اور ماتحت قوانین (Sub-ordinate legislation) کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی ادارہ میرا ملک میری مرضی کی پالیسی اختیار کر تا ہے تو ملک آئین کی نظر میں بے اعتبارہ ہو جاتا ہے۔ بحیثیت قوم وہ ادوار دیکھ رکھے ہیں۔ جس میں ادارے بے مہارے ہو کر بے اعتبارے ہوئے۔
اسکندر مرزا سے لے کر یحییٰ خان تک قوم نے بے مہارے حکمران دیکھے۔ ایسے حکمران جن کے دور میں ادارے بے مہارے ہوئے۔ پھر ضیاء الحق صاحب تا پرویز مشرف۔بے مہارے پَن پہلے مذہب کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی۔ پھر راتو ںرات ایسا شفٹ آیا کہ وہی ادارے"Enlightened Moderation"کا پٹہ گلے میں لٹکا کر بے اعتبارے ہوگئے۔
دنیا کا کوئی ایسا ملک جو ریاست کی حیثیت سے کامیاب سمجھا جاتا ہو وہاں قانون کی حکمرانی‘ کامیابی کی پہلی اینٹ کے طور پر لگتی ہے۔ اپنے ہاں دیکھ لیجئے‘ جسٹس منیر سے لے کر ظفر علی شاہ تک اور پھر Suo- moto نوٹس کے نتیجے میں ہاتھ پائوں بند کر کے نظریۂ ضرورت کے کلہاڑے سے اکثریت کا شجرِ سایہ دار گرایا گیا۔ جس کی جگہ پھر زہریلی بوٹیاں کمزور معیشت اور تقسیم شدہ قوم کو آبِ زہر سمجھ کر پلا دیا گیا۔
اسی لیے بین الاقوامی ناقد ہمارے نظامِ انصاف کو کرپشن کے ٹاپ 3 کا طعنہ دیتے ہیں۔ ہماری عاجزی اور بے بسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم کوئی نامعقول سا بہانہ لگا کر بھی الزام سے انکاری نہیں ہوسکتے۔ اب تو حال یہ ہو گیا ہے کہ اوپر ایوانوں میں آئین کا داخلہ بند ہے۔ نیچے عام پاکستانی قانون و انصاف اور اسے نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا وِلن سمجھنا شروع ہو گئے ہیں۔ آئیے! 2023ء کے باقی 11 مہینوں کے سب سے بڑے چیلنجز کا جائزہ لیں۔
پہلا مسئلہ معاشی چیلنج... جس دنیا سے کسی کا کوئی تعلق ہوتا ہے یا جسے کسی فیلڈ میں مہارت حاصل ہو وہ اُسی کو کُل عالَم سمجھ بیٹھتا ہے۔ سادہ سی مثال ہمارے سامنے‘ طبقاتی تقسیم اور تقسیمِ دولت کی ہے۔
کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا مسئلہ US ڈالر ہے‘ UKکا پائونڈ سٹرلِنگ‘ یورپی اتحاد کا Euro، عربوں کا ریال یا درہم ہے۔ جس کی قیمت سے کھیل کر 100 ارب رکھنے والے نے پاکستان کی ونڈر لینڈ میں پاکستانی روپیہ کے بلَڈ باتھ میں صرف ایک رات کے اندر اندر 23 کروڑ روپے کمائے۔
دوسری جانب خدا کی بستی کے رہنے والے بندوں کے پاس اُسی وقت ایک ہزار کا نوٹ تھا یا100کا نوٹ۔100کے نوٹ میں سے 23 روپے راتوں رات خود بخود کم ہوگئے اور غریبِ وطن کے پاس 77 روپے باقی بچے۔
بہت سارے لوگوں کو رو پے کی بے توقیری کے نتیجے کا پتا ہی نہیں ہے۔ کل سے ماورائے آئین حکومت‘ ماورائے قانون کارندوں نے پورا ''ٹِل‘‘ لگایا مگر لاہور کی سڑکیں تو کیا‘ایک ایئرپورٹ کی سڑک کی ایک طرف کا ایک کونا بھی مریم نواز کے لیے نہیں بھر سکے۔ حالانکہ مریم نواز کی چوتھی مرتبہ لانچنگ پنجاب سرکار کا سب سے بڑا ٹاسک اور شو تھا۔یہ لانچنگ15 منٹ میں لانچنگ پیڈ سے غائب ہوگئی۔
اتوار صبح سویرے مجھے عمران خان سے ملنے زمان پارک لاہور آنا پڑا۔ PC میں چند دوستوں سے کافی شاپ میں گپ شپ ہوئی۔ فریش ہوکر واپسی کا سفر لیا‘پتا چلا کہ میری پٹرول گاڑی کا پٹرول 35 روپے فی لٹرمہنگا ہو گیا جبکہ ڈیزل ڈالے کا ڈیزل بھی260 سے آگے ہے۔
دو نمبر موٹروے(M-2)پر فیول سٹیشن پر رُکے تو بتایا گیا کہ آپ کو 2 ہزار سے زیادہ کا فیول نہیں مِل سکتا۔ رات کے اندھیرے میں سڑک کے دونوں جانب ٹمٹماتی بتیوں والی بستیاں نظر آئی جن کا مسئلہ پٹرول نہیں‘پیاز ہے۔ جسے وہ سستی روٹی پر رکھ کر پیٹ کے دوزخ کی آگ کو ٹھنڈا کر تے تھے۔
آج پیاز K-2پر اور آٹے کا ریٹ ہمالیہ پرہے۔ ہمارے پڑوس میں بھارت کی معیشت 500بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ بنگلہ دیش 50بلین ڈالر لگ بھگ جا چکا ہے۔ ہمیں اگلے 11مہینوں میں 42سے 45 بلین ڈالر درکار ہیں۔ اتنے ڈالر نہ ہمیں ورلڈ بینک دے سکتا ہے‘ نہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور نہ ہی انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ۔
ہم معاشی کساد بازاری سے آگے کی منزلیں طے کر چکے ہیں۔ اس لیے عرب ممالک ہمیں ایک پائی قرض دینے کے لیے تیار نہیں۔صرف سٹیٹ بینک میں رکھنے کے لیے دو‘اڑھائی ارب ڈالردیتے ہیں جنہیں وہ ''At Call‘‘ جس وقت اُن کی مرضی ہو‘ واپس مانگتے ہیں۔جو‘ اُن کا حق ہے۔ بتا یئے! کیا یہ 2023کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں؟
دوسر ا مسئلہ رول آف لاء... بین الاقوامی طور پر رول آف لاء کے بارے میں یہ طے کرنا ہے کہ کسی ملک میں ہے کہ نہیں؟ دو پیمانے موجود ہیں۔ پہلا یہ کہ قانون کے سامنے سارے برابر ہیں۔ U.Kکا وزیراعظم ٹریفک کا قانون توڑے تو اُس کا چالان‘ اُس کی بدنامی ہوگی‘ میڈیا اور سوشل میڈیا اُس کا حشر نشر پھیر کر رکھ دے گا۔
U.Kمیں ہی ایک وزیراعظم نے''Ten Downing Street‘‘ میں چند دوستوں کو Covid کے دوران مشروب پارٹی پر بلایا۔ یہ پارٹی بورس جانسن کو اتنی مہنگی پڑی کہ اُسے وزاتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑ گئے۔ اُس کے بعد آنے والی انگلش لیڈی وزیراعظم چند ہفتوں میں معاشی حالات پر دی گئی پالیسی کی ناکامی کے بعد مستعفی ہو کر گھر چلی گئی۔
یہ مثالیں دینے کا مطلب یہ ہے کہ قانون کی نظر میں وزیر اعظم کو کوئی استثنا نہیں۔ وہ قابلِ احتساب اور قابلِ گرفت بھی ہے۔ پاکستان میں دو عشروں کی تفتیش اور تحقیق کے بعد منی لانڈرنگ کے جتنے بڑے ملزم‘ قومی خزانہ لوٹنے والے ہِٹ مین اور شہرِ قائد کے گینگسٹر سب بری ہوتے چلے گئے۔
پنجاب کا ایک انڈہ چرانے والا‘ پڑوسی کی مرغی بغل میں دبا کراُٹھانے والا دونوں جیل میں ہیں۔ بین الاقوامی اصولِ قانون کہتا ہے انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔جس سوسائٹی میں لوگوں کو نا انصافیاں دیکھ کر غش کے دورے پڑنے لگیں‘ اُس کے رہنے والوں سے کون کہہ سکتا ہے کہ ملک میں انصاف کا بول بالا ہے اور رول آف لاء کا راج ہے۔
کورٹ کچہری جائیں یا تھانہ کو توالی‘انصاف نہ تو سستا ملتا ہے نہ ہی فوری ملتا ہے۔
کہیں توہینِ ریاست‘ کہیں توہینِ عدالت‘ کہیں توہینِ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور آئین میں آرٹیکل 14 احترامِ آدمیت کا نوحہ پڑھ رہا ہے مگر انصاف کی دیوی اندھی بھی ہے اور بہری بھی۔