آج سے دس گیارہ مہینے پہلے اسلام آباد پر تین یلغاریں ہوئیں۔ دو مرتبہ پورے پاکستان کے 70سالہ تجربہ کار سنیاسی باوے‘ معاف کیجئے گا‘ سیاسی باوے ''رینٹ اے کرائوڈ‘‘ کے ساتھ حملہ آور ہوئے۔ جن کی دیکھا دیکھی ایک ذاتی ترقی پسند قافلہ‘ جو کہ مہران سے پوٹھوہار کی طرف لگژری گاڑیوں والے آسودہ حال‘ آزمودہ کار سیاستکاروں کا تھا‘ مزے مزے سے اسلام آباد پہنچا۔ بڑی گاڑیوں میں بڑے بڑے ٹرنک اور بریف کیس اسلام آباد پہنچائے گئے۔ ان بڑے بڑے بکسوں میں کیا تھا؟ یہ تب پتا لگا جب ضمیر فروشی کی منڈیاں سجا کر اراکینِ پارلیمنٹ کو خریدا گیا۔ اس خریداری کی وجہ سے پاکستان کے آئین کی کانپیں ٹانگ گئیں۔ گھس بیٹھئے جس ایجنڈے پر یک جان تھے‘ اس کا برانڈ نیم مہنگائی مکاؤ مارچ رکھا گیا۔تب شہرِ اقتدار کے کاریگروں نے قوم کو یقین دلایا کہ مہنگائی کی وجہ عمران خان ہے اور مہنگائی ختم کر نے کے تین خاندانی فارمولے اور 13صدری نسخے تجربہ کار ٹیم کے پاس موجود ہیں۔ ان نسخوں کی ساری طاقت جمع کر کے اسے پاکستان کے مَسل مضبوط کرنے‘ مہنگائی میں آیوڈین کی کمی پوری کرنے کے کام پر لگا دیا گیا۔ اُن دنوں کے اخبار نکال کر دیکھ لیں‘ مہنگائی مارچ کرنے والے ان جادوگروں کے دانشوروں نے جو خوبیاں یلغاریوں میں بیان کیں‘ وہ جلال الدین محمد اکبر سن لیتا تو شہنشاہِ ہندوستان کا وزیر خزانہ ''ٹوڈر مَل‘‘ کے بجائے اسحاق ڈار ہوتے۔
پچھلے دس ماہ کا پریس یا پھر ٹاک شوز ریویوکر لیں۔ یومِ پاکستان‘ ماں‘ بچے کا عالمی دن‘ فادرز ڈے‘ انسانی حقوق‘ موضوع کوئی بھی تھا‘ ہر گفتگو اور تحریر کا آغاز مہنگائی پھیلانے کے جرم میں عمران خان کو سٹریٹ جسٹس کے ذریعے فوراً نکالنے سے ہوا۔ پھر ان کے مجازی مالک کو مہنگائی پہ ترس آیا اور ''عدل بِالیل‘‘ حرکت میں آگیا۔ اسی برکت سے کبھی ایک دن میں پاکستانی روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں ذلت آمیز طریقے سے 24روپے گرتی ہے‘ کبھی پٹرولیم کی قیمتوں میں تیسیوں چالیسیوں روپے فی لیٹر اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس قافلے کے ٹوڈر مَل کو داد دیں۔ اس نے ڈالر کی وہ بے عزتی کی‘ جتنی ذلت اس سے پہلے ڈالر کی پاکستان میں کبھی نہ نصیب ہوئی۔ ڈالر‘ پٹرول اور پیاز پاکستانی روپے کی مارکیٹ میں محمود و ایاز کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔ مہنگائی کے علاج کے لیے نادر و خاندانی نسخہ نواز شریف نے لندن سے بھجوایا۔ نواز صاحب کو اپنی بیمار بیٹی پہ بھی ترس نہ آیا۔ جس کی سرجری دنیا کے صرف دو ملکوں میں ہو سکتی ہے۔ وہ بھی ایسی جس کے بارے میں تنظیم سازی کے اجلاس میں کہنا پڑا‘ ورکرز آہستہ بولو۔ تم آواز اونچی کرتے ہو تو میڈم کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس قدر بیماری کی حالت میں نواز شریف کی بیٹی نے بیٹی ہونے کا حق ادا کیا۔ وہ مہنگائی کے خاتمے کے لیے عمران خان کے خلاف سرجری کی پروا کیے بغیر اتنا بولیں کہ سویا ہوا الیکشن کمیشن بھی جاگ اٹھا۔ اس محنت کا پہلا غیرحتمی نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ صوبہ پنجاب میں صدرِ پاکستان عارف علوی کے اختیار کو سپریم کورٹ نے تسلیم کر لیا۔ اس محنت کا دوسرا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ 30اپریل کی تاریخ آگئی۔ جس روز کو مہنگائی کے مارے ووٹر پنجاب میں یومِ انتقام کے طور پر منائیں گے۔
پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں دنیا کے امیر ترین لوگ بستے ہیں مگر عوام بد قسمت ترین لوگ ہیں۔ جن کا سفر مڈل کلاس سے شروع ہو کر لوئر مڈل کلاس میں آیا‘ غربت کی لکیر تک پہنچا‘ پھر امپورٹڈ نے انہیں غربت کی لکیر سے بھی نیچے گرا دیا۔ بھارت‘ بنگلہ دیش کو تو جانے دیجئے‘ افغانستان بھی کرنسی کے استحکام سمیت ہم سے آگے نکل گیا۔ اچھے اچھے حکمرانوں کے دور میں بھی مہنگائی ہوئی لیکن وہ حکمران تھے‘ نوٹنکی کے مزاحیہ فنکار نہیں۔ اس لیے جو تفریح پاکستان کی سب سے زیادہ مہنگائی لانے والی اس حکومت نے عالمی ماہرینِ اقتصادیات کو دی‘ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔
30اپریل کے روز عمران خان کا مقابلہ PDMکی 14جماعتوں کے ساتھ ہوگا‘ یہ میرا خیال نہیں‘ میرے خیال میں ظاہری 13میں تین کا اضافہ ہوگا۔ جن میں سے دو مذہبی جماعتیں ایک پرانی‘ ایک نئی الیکشن لڑنے کا پکا پروگرام رکھتی ہیں۔ تیسری قوت وہ ہے‘ جس کو ماضی میں تین عام انتخابات کے دوران تین ناموں سے لانچ کیا گیا۔ تینوں دفعہ آزاد امیدواروں کے اس گروپ کو بڑے دلچسپ الیکشن سمبل ملے۔ تینوں گروپوں کے قلم کار‘ ہدایت کار‘ پیش کار اور نمائش کار کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔ اتنا کہنا کافی ہے میں اس کا نام نہ لوں‘ پھر بھی لوگ پہچانیں۔آئیے ذرا ان پے نظر ڈالیں؛
پہلا: گھڑا گروپ۔ یہ گروپ دو الیکشنوں میں لانچ ہوا۔ کئی سیٹوں پرگھڑے کامیاب کروائے گئے۔ پھر انہیں حکومت میں شامل کروا کر پریشر گروپ بنایا گیا جو بوقتِ ضرورت استعمال ہوتا رہا۔ مگر یہ گھڑے کچے ثابت ہوئے۔ وقت کی تیز لہر سے ٹکراتے ہی ایسے غرق ہوئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔
دوسرا: جیپ گروپ۔ گھڑے کے بعد جیپ گروپ لانچ ہوا جس کی خوب مشہوری کروائی گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جو ہمیشہ مین ڈور کے بجائے ''ڈِگی‘‘ کے ذریعے ایوانِ اقتدار میں داخل ہوئے۔ وہ کامیابی کی گارنٹی کے ساتھ آزاد امیدوار بنے۔ ان کی تعداد پریشر بیلنس رکھنے کے لیے 30سے زیادہ تھی۔
تیسرا: بالٹی گروپ۔ پچھلے دو الیکشن کہیں کالے تیل اور کہیں کالے دھن کے زور پر بالٹی گروپ کو لایا گیا۔ لفافہ لفافی کی طرز پر گھی‘ شکر اور ریزگاری سے بھری ہوئی بالٹیاں کامیاب ہوئیں جو ڈِگی روٹ سے ہوتی ہوئی سیدھی حکومتی ایوانوں میں جا پہنچیں۔ اب ان جڑی بوٹیوں کی ایکسپائری ڈیٹ آگئی ہے۔ ہم نے اس صفحے پر الیکشن کے حوالے سے جو آئینی پوزیشن واضح کی‘ سپریم کورٹ کا فیصلہ اسی آئینی نقطے پر آیا۔ اس فیصلے کے بعد PDMکے ہاتھ پائوں پھولے ہوئے ہیں۔
حکومتی انتخابی مہم میں صوتی آلودگی کی تکلیف کے علاوہ ووٹروں کو متوجہ کرنے کے لیے نہ کوئی ریلیف دے سکی‘ نہ کوئی بیانیہ۔ وقت کی الٹی گنتی جاری ہے۔ عمران خان نے نیلسن منڈیلا کے Truth and Reconciliation Commission کی طرز پر غلطیاں تسلیم کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے ملک میں انتخابات کا راستہ تجویز کر دیا۔ عوام کا موڈ سب کے سامنے ہے۔ جس گھر میں روٹی آٹے سے پکّتی ہے‘ بلب بجلی سے جلتا ہے‘ موٹر سائیکل پٹرول سے چلتا ہے‘ گھی کریانے والے سے آتا ہے‘ ان سب کے لیے 30اپریل 2023ء سٹیٹس کو کے مہروں سے انتقام لینے کا دن ہے جو کھاتے زیادہ ہیں اور لگاتے برائے نام۔
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محوِ کلام تھے مجھے کھا گئے
جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خند سلام تھے مجھے کھا گئے
عداوت کا ذکر آیا ہے اور ابھی ابھی یہ خبر آئی ہے کہ' امپورٹڈ سرکار‘ نے عمران خان کی ہر قسم کی تقریروں اور میڈیا ٹاک کی نشریات پر پابندی لگا دی ہے ۔ امید ہے فیئر اینڈ فری انتخابات کا ذمہ دار الیکشن کمیشن اس کا بھی نوٹس نہیں لے گا۔