ہمارے ساتھ پچھلی صدی کے40کے عشرے میں آزاد ہونے والے ملک اور اُن کے عوام آج کہاں کھڑے ہیں اور ہم کد ھر اور ہماری حیثیت کیا؟ اس پر بات کرنا کہیں بغاوت ہے‘ کہیں غداری‘ کہیں توہینِ ریاست‘کہیں دہشت گردی۔ جسے ثبوت چاہیے ہوں وہ پچھلے 10ماہ کے دوران انتخابات کا مطالبہ کرنے والے سیاسی کارکنوں کے خلاف درج ہونے والی سینکڑوں ایف آئی آرمیں یہ تینوں الزامات اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔
عمران خان کے خلاف 19الزامات کے تحت اتنے مقدمے درج ہوچکے ہیں جنہیں اَب گنتی کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اگر پھر بھی تسلی نہ ہو تو آپ ایک بار اس موضوع پر خود آواز اُٹھا نے کا ایڈونچر کر کے دیکھ لیں۔ ڈالے آواز اُٹھانے والے کو لینے نہ آئیں تو سمجھ لیں کہ آپ ان دنوں پاکستان میں نہیں‘ امریکہ بہادر میں رہائش پذیر ہیں۔ جہاں ڈالے نہیں آتے‘ بڑے GMCآتے ہیں۔
ان دنوں کچھ لوگ دردمندی سے باقی ضرورت مندی کے تحت پاکستان میں سیاست دانوں کو کہہ رہے ہیں کہ وہ مل بیٹھیں اور مسائل کا حل نکالیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ نظامِ ریاست خرابی کے جس درجے تک گر چکا ہے اُسے گرانے کا ذمہ دار صرف طبقہ ٔسیاست ہے؟ اس سوال کا درست جواب ڈھونڈنے کے لیے تھوڑا سا فلیش بیک میں جانا پڑے گا۔
لیکن ہمارے مسائل کی بنیاد ایک واقعاتی لطیفے پر اُٹھائی گئی ہے جسے گائوں کے ایک زمیندارنے جولاہے سے پودا لگوایا اور کہا کہ اسے پانی ڈالتے رہنا‘ دیکھنا کوئی بکری منہ نہ مارے۔ 2‘3ہفتے بعد زمیندار نے سوچا کیوں نہ پودے کی نشوو نما کو دیکھ لیا جائے۔ زمیندار پودا دیکھ کر پریشان ہوگیا اور جولاہے سے سوال کیا: تم نے پانی نہیں ڈالا اسے ؟ جولاہا بولا :نہیں سر! ہر روز صبح و شام پانی ڈالتا ہوں۔ ساتھ ہی گلشن کے تحفظ کی قسم کھانے کے انداز میں فخریہ کہنے لگا‘ صرف پانی نہیں ڈالتا بلکہ صبح و شام پانی ڈالنے سے پہلے ہر روز پودا مٹی سے نکال کر اُس کی جڑیں بھی چیک کرتا ہوں کہ بوٹے کی جڑیں آج کتنی بڑھی ہیں۔پھر جولاہا زمیندار سے کہنے لگا :یہ پودا آپ نے غلط تو نہیں لگوا دیا۔
پاکستان میں وہ کاریگر ہاتھ سوشل میڈیا کے دور میں اب لوگوں نے خود ڈھونڈ نکالے ہیں جو ہمارے نظامِ حکومت کو ہر روز صبح و شام پانی دیتے ہیں اور یہ بھی ہر وقت چیک کرتے رہتے ہیں کہ اس جمہوریت کی جڑیں کس گہرائی تک پہنچی ہیں۔
کہنے والی بات یہ ہے کہ عمران خان نے اُس انوکھے لاڈلے کی طرح اس نظام سے نہ NROکا چاند مانگا ہے اور نہ ہی ہر مشکل وقت میں Escape Routeجو کرپشن کے ملزموں کو بھی سُرور محل تک چھوڑ کر آتا ہے اور کبھی مے فیئر محلے کی محلاتی خواب گاہوں تک پہنچا کر۔آ پ اسے اُردو زبان کی اتفاق فاؤنڈری کہہ لیں کہ پہلے محل میں سُرور ہے اور دوسرے میں مے۔ بادہ خواروں کا کہنا ہے کہ سُروراور مے ایک ہی چیز کے دو نام ہیں‘ بہر حال۔
عمران خان نے پاکستان کی معیشت‘ معاشرت‘سیاست‘ سفارت‘ حکومت اور ریاست کو تجربہ کار ٹیم کے ہاتھوں ہونے والی زبردست ''مرمّت‘‘ سے بچانے کے لیے کچھ ہفتے پہلے شاخِ زیتون لہرائی جس پہ ضرورت مندوں کی چاندی ہوگئی۔ کوئی چیخنے کو دوڑ پڑے‘ کچھ قلم گھسیٹنے بیٹھ گئے کہ دیکھیے عمران خان نے ایک اور یوٹرن لے لیا‘ اب وہ اپنے قاتلوں سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔
جمہوریت کو فرائنگ پین سے استری کرنے والوں نے تو کمال کی بات کہہ ڈالی کہ عمران خان ڈر گیا‘ عمران خان چُھپ گیا‘ عمران خان بھاگ گیا اور ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ کوئی گیدڑ کی کھال پہن کر نواز شریف کی طرح نہیں بن سکتا ہے (بلا تبصرہ)۔ چونکہ فرائنگ پین کچھ زیادہ ہی گرم تھا‘اس لیے یہ بھی کہہ ڈالا کہ عمران خان تم نواز شریف سے کہو وہ ادھار میں تمہیں تھوڑی سی بہادری اور دلیری بھی دے دے۔ (قارئین و حاضرین و ناضرین ہنسنا 100فیصد منع ہے‘ بالکل ویسے ہی جیسے نائی کی دکان میں سیاسی گفتگو منع ہے کا بورڈ لگایا جاتا ہے )۔
24گھنٹوں میں دوواقعات ایسے ہوئے جن کے ذریعے ساری دنیا کے کان کھڑے ہو گئے۔ اسلام آباد کی خبر یہ ہے کہ سات سمندر پار سے NROدلوانے والوں کے بھی۔ جی ہاں! آپ نے درست پڑھا‘ میں نےNROدینے والے نہیں‘ NROدلوانے والے ہی لکھا ہے۔
ان میں سے پہلا واقعہ... عمران خان کو اکیلا کر کے لاہور کے کسی انٹر چینج پر شکار کرنے کی کوشش کا تھا۔ M-2کی ہر انٹرچینج پر اُن کے قافلے کو روک کر اُن کی گاڑی کو قافلے سے نکالنے کی کوشش کی گئی۔ اسی لیے لاہور ٹھوکر نیاز بیگ انٹر چینج سے M-1انٹر چینج اسلام آباد تک پہنچنے میں عمران خان کوپانچ گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا۔ دونوں طرف سینکڑوں بڑے بڑے کنٹینرز کھڑے کر کے شاہراہ سری نگر اسلام آبادسے ایک سکیورٹی ٹنل بنایا گیا‘ جس پر ہزروں اہلکار تعینات تھے۔ میں نے قانون نافذ کر نے والے اداروں کی اتنی رنگ برنگی وردیاں کبھی نہیں دیکھی۔ مبالغہ نہ کیا جائے تو کم از کم 8‘9قسم کی وردیاں۔ جن میں چارمختلف رنگوں اور سٹائل کے ٹریک سوٹ بھی شامل تھے۔ لیڈیز پولیس اہلکاروں کے لباس بھی 5‘6رنگ کے تھے۔
سری نگر چوک سے G-11اور Mauve ایریا براستہ کنٹینرز ٹنل‘ عمران خان کو پھر گھیر کر جوڈیشل کمپلیکس پہنچایا گیاجہاں وہ تقریباً دو گھنٹے سے زیادہ دروازے کے عین سامنے کھڑے رہے۔ اس دوران بلا اشتعال پہلے شیلنگ اور پھر فائرنگ شروع کر دی گئی۔زور اس بات پر لگایا گیا کہ کسی طرح سے عمران خان کو گاڑی سے باہر نکالا جائے۔ اور پھر اُسے ٹارگٹ کیا جائے۔
جوڈیشل کمپلیکس کے اندر کتنی فورسز ڈپلائڈ تھیں‘ میں نے صبح سویرے شبلی فراز کو ساتھ لے کر جوڈیشل کمپلیکس کی چھت اور ممٹیوں پر چڑھ کر دیکھ لیا تھا۔ شبلی فراز نے جس کی تصویریں اور وڈیوز بھی بنائی۔ اندر کم از کم دوہزار سے زائد اہلکار کھڑے تھے۔ سفید کپڑوں والے اور سوٹڈ بوٹڈ تازہ زلف تراشی کروا کر آنے والے اہلکار اس کے علاوہ تھے‘ جو دور سے پہچانے جاتے ہیں۔
جب میں ٹرائل کورٹ کے جج صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو کمرہ بھرا ہواتھا۔ جج صاحب کو بتایا گیا کہ میں پہنچ گیا ہوں۔ میرے ساتھ میرے ایسو سی ایٹس حرا خورشید خواجہ اور بیرسٹر عثمان سواتی بھی تھے۔ جج صاحب آئے اور اتنی بڑے تعداد میں مایوس اجنبی چہروں کے مشکوک انداز کو دیکھ کر کہنے لگے: آ پ سارے باہر چلے جائیں۔ مجھے وکیل صاحب سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنا تعارف کر انا چاہا تو جج صاحب نے سخت لہجے میں اپنے عدالتی اہلکاروں سے کہا : کورٹ خالی کی جائے سوائے وکلا کے۔ (جاری)