گزرے ہوئے سال ایک ایسا ہی دن تھا۔ یہی مہینہ‘ یہی ملک اور یہی والا دستور۔اور تواور سپریم کور ٹ کا بینچ بھی یہی تھا۔اور اس بینچ کے روبرو اختیارِ سماعت بھی یہی یعنی Suo Moto۔ پچھلے سال والے Suo Motoکے فریقین بھی یہی تھے۔ جو ایک بار پھر ایک دوسرے کے مدِمقابل عدالت میں کھڑے ہیں۔ آج جس آئینی پٹیشن کی سماعت ہو رہی ہے پچھلے سال کا مقدمہ بھی آئین کے اسی آرٹیکل 184(3)کے تحت سنا جا رہا تھا۔ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ اُس وقت PDMوالے اپوزیشن میں تھے اور پاکستان تحریک انصاف حکومتی بینچوں پر بیٹھی تھی۔ ہاں یاد آیا ایک اور فرق بھی ہے پچھلے سال والاSuo Motoرات کے اندھیرے میں‘ نصف شب کولیا گیا تھا جبکہ یہ والا Suo Motoکا اختیار ازخود استعمال نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد کے فیصلے کو بنیاد بنایا گیا‘جس میں حکم دیا گیا کہ الیکشن کمیشن 90روز کے اندر اندر الیکشن کی تاریخ دے اور صوبائی اسمبلی کے جنرل الیکشن کروائے۔
ذرا واہگہ بارڈر سے آگے چلتے ہیں جہاں سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایک فاضل جج‘ جو اَب ریٹائر ہو چکے ہیں اور آئینی دانشور ہیں‘ نے پاکستان میں 90 روزہ آئینی مدت کے اندر الیکشن کی مخالفت کرنے والوں کو مخاطب کر کے یہ پیغام بھیجا ہے ''پاکستان میں سپریم کورٹ کے اندر آئین کا تماشا لگا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وکلا اُس پر دلائل دے رہے ہیں جو سادہ نکتہ ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ آخر اتنا آسان ترین فیصلہ کیو ں نہیں کر رہا؟ اگر میں سپریم کورٹ کا جج ہوتا تو صرف پانچ منٹ میں اس کا فیصلہ کر دیتا۔ پاکستان کے آئین کے مطابق الیکشن 90روز میں ہی ہونے ہیں‘‘۔
ذرا اور پیچھے چلتے ہیں‘ تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے یہی موسم ہے۔ سال 1971ء کے مارچ کے مہینے کی سات تاریخ۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے پہلے عام انتخابات لڑ کر پاکستان کے اکثریتی صوبے ایسٹ پاکستان کا شہر ڈھاکہ ہے جہاں پلٹن میدان میں آئینی طور پر متحدہ پاکستان کے متوقع وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کی تقریر جاری ہے۔یہ صرف تقریر نہیں بلکہ پاکستان میں انتخابی دھاندلی اور الیکشن پر شب خون مارنے کا پورا کیٹلاگ ہے۔ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے دیئے ہوئے پاکستان میں انتخابی دھاندلیوں کا کیٹلاگ۔ جس کے کئی باب بیان ہو رہے ہیں۔
پہلا باب:1952ء میں ہم نے اپنا خون دیا۔ 1954ء میں ہمیں مینڈیٹ ملا لیکن ہمیں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ 1956ء میں ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر ہمارے لوگوں کو غلام بنا لیا۔ 1966ء میں عوام کی چھ نکات تحریک‘ بہت سے نوجوان مردوں اور عورتوں کی زندگیاں حکومت کی گولیوں سے ختم ہوئیں۔
دوسرا باب:ایوب خان کی حکومت ختم ہوگئی تو یحییٰ خان نے وعدہ کیا کہ آئینی حکومت بحال کی جائے گی۔ عوامی جمہوریت بحال کی جائے گی اور طاقت عوام کو منتقل ہوگی۔ ہم نے تسلیم کیا۔یہ وہی ہتھیار ہیں جو ہمارے پیسوں سے خریدے گئے ہیں تاکہ ہمیں بیرونی دشمنوں سے بچایا جا سکے لیکن آج میرے اپنے ہی لوگوں پر گولیاں چلائی جا رہی ہیں۔
تیسرا باب:ماضی میں بھی‘ جب کبھی پاکستان کے اکثریتی حصے نے اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھائی اور اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اُنہوں نے ہمارے خلاف سازش کی اور ہم پر چڑھ دوڑے۔ میں نے اُن سے پہلے بھی پوچھا تھا‘ تم اپنے ہی بھائیوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ کیسے بنا سکتے ہو؟ اب جو جنگ ہے وہ نجات کے لیے ہے۔
چوتھا باب:بھائیو! اب انہوں نے 25مارچ کو اسمبلی کا سیشن بلایا ہے جبکہ گلیوں میں بہایا گیا میرے بھائیوں کا خون ابھی سوکھا نہیں ہے۔ میں اُن کو پہلے ہی بتا چکا ہوں‘ مجیب الرحمن اپنے بھائیوں کے خون کے دھبوں پہ چلتا ہوا قومی اسمبلی میں نہیں آئے گا۔ تم نے اسمبلی بلائی ہے‘ لیکن تمہیں پہلے میری یہ مانگیں پوری کرنا ہوں گی؛ مارشل لاء ختم کرو‘ فوجی اپنی بیرکوں میں واپس چلے جائیں۔ میرے لوگوں کے خون کا ازالہ کیا جائے اور طاقت عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کی جائے۔ صرف اسی صورت میں ہم سوچیں گے کہ قومی اسمبلی میں حصہ لینا ہے یا نہیں۔ جب تک یہ مطالبات پورے نہیں ہوتے‘ اسمبلی میں حصہ لینے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
آج‘سپریم کورٹ آف پاکستان 1997ء کے بعد دوسری بار شریف بریگیڈ کے نشانے پر ہے۔ کئی اعتبار سے یہ پچھلے سکرپٹ کا Replay ہے۔ جس کے بار ے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے کے لیے آج کا دن اہم ترین ہے۔ ہفتے کی رات حکمران اتحاد PDMنے سپریم کورٹ آف پاکستان کے اندر چلنے والے مقدمے کے بائیکاٹ کا عندیہ ظاہر کیا۔ میرا دھیان لاء آفس کی لائبریری میں پڑی ایک کتاب کی طرف چلا گیا جس میں اسی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے میں نے وفاقی وزارتِ قانون سے استعفیٰ دیا تھا۔ کتاب ہے PLD 1979, SC صفحہ 84 ۔ اس کتاب میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک بڑے بینچ کا فیصلہ رپورٹ شدہ ہے‘ جس میں ملک کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مولوی مشتاق پرتعصب‘ ذاتی دشمنی اور انتقام کے الزامات لگا کر مقدمے کے اہم ترین گواہوں پر جرح کرنے سے بائیکاٹ کر دیا تھا۔ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے سپریم کورٹ عدالتِ اپیل کی حیثیت سے یا اُنہیں گواہ بلا کر اُن پہ جرح کا موقع دے یا پھر سے Trial Denovo کا حکم صادر کیا جائے۔ جس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ صادر کیا کہ پاکستانی قانون اور سپریم کورٹ کے لیے ''مقدمے کا بائیکاٹ‘‘ اجنبی لفظ اور تصور ہے۔ اس لیے قانون اور عدالت کسی کو بائیکاٹ کی اجازت دیتی ہے اور نہ ہی فیصلہ صادر کرتے وقت بائیکاٹ کرنے والے کا انتظار کرتی ہے۔
آج ایک بار پھر لوگ الیکشن کا حق مانگ رہے ہیں۔ جن پر جواب میں گولیاں اور لاٹھیاں برسائی جا رہی ہیں۔ پہلے بلوچستان میں لوگ گمشدہ افراد کی بات کرتے تھے۔ اب کی بار سارا ملک گمشدہ افراد کی منڈی ہے۔ زندگی اور آزادی کی قیمت نواز شریف کی تازہ وڈیو والے الفاظ میں 65روپے کلو والے پٹرول اور 10روپے کلو والی سبزیوں کے برابر نہیں۔ اسی لیے لوگ ''ہم چھین کے لیں گے آزادی‘‘ کے بلند آہنگ نعرے مار رہے ہیں۔عوام آئین اور انصاف کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ احمد حسن ساگر میانوالیہ کے الفاظ میں:
پگھلا نہ سکا تُو مجھے کبھی آتشِ دل سے
جلتا بھی رہا پھر بھی میں پتھر سا رہا ہوں