ملک کے طول و عرض میں برپا ہیجان‘ تباہ کن طوفان سے بھی آگے نکل رہا ہے۔ بدلے کے بیانیے سے شروع کر کے انتقام کے نعرے سے کراس کر چکے ہیں۔کل پنجاب حکومت نے اعلان کیا کہ آج کی تاریخ تک تین ہزار 800شرپسند گرفتار کر لیے جن میں لڑکے ہی نہیں نوجوان لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہہ ڈالا‘ کسی شر پسند کو معاف نہیں کریں گے‘سب کو گرفتار کریں گے۔
اب تو بات یہاں سے بھی آگے گزر گئی۔اللہ کے فضل و کرم سے سارے امن پسند سڑکوں پر نکالے جا چکے۔ قوم امن پسندوں کے کوائف نہ پوچھے بس اس خوشخبری پر دل و جان سے یقین کرلے کہ جلسے‘ جلوس‘ مظاہرے کرنے والے شر پسندوں کی مرمت لوہے کے ہاتھ سے کی جائے گی۔آئیے ذرا اپنے ارد گرد دیکھیں کوئی رہ تو نہیں گیا ایسا شر پسند جس کی گرفتاری مطلوب ہو۔ شر پسندوں کی فہرست میں صنفِ آہن کی شمولیت کے بعد اس بات کا پورا امکان ہے کہ وہ جو پہلے صنف نازک تھی‘ آئرن ویمن بننے کے بعد خاوند سے ہی انتقام لینا شروع کر دے۔
فرض کر لیں کسی گھر سے خاوند کے ہاتھوں ستائی ہوئی عورت فون کرے اور پولیس سے کہے کہ میرا خاوند شر پسندی میں شامل ہے‘ میں محب ِ وطن صنف ِ آہن کی حیثیت سے بقائمی ہوش و حواس آپ کو اطلاع دے رہی ہوں کہ اس شر پسند کو فوراًگرفتار کر لیا جائے۔ پھر خاتون آہستہ سے کہے کہ وہ اس وقت اپنے کمرے میں آلۂ شر پسندی المعروف سمارٹ فون پر انتہائی اشتعال انگریز وڈیو زدیکھ رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ خاتون اپنے شوہر کی رہائی کے بعد چین سے الیکٹرونک بانسری بجا سکتی ہے اور ثواب دارین کے علاوہ شر پسندی کی مخبری پر مبلغ دو لاکھ سکہ رائج الوقت پاکستانی روپے کا انعام بھی پائے گی۔
ہاں البتہ ایک اعتراف عین حب الوطنی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے احتیاطاًروک لیا تھا۔ یہ تھا صحافی عمران ریاض خان کی گرفتاری اور اُس کے مقام ِ حراست وغیرہ کے بارے میں۔
جتنی دیرمیں فاضل عدالتیں یہ پتہ لگانے میں کامیاب ہوتی ہیں کہ عمران ریاض خان آئی جی پنجاب کے کہنے کے مطابق پولیس کی حراست میں نہیں ہے تو پھر کہاں ہے‘اس وقفے کے دوران ہم امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی کا نیشنل آرمی میوزیم کے افتتاح کے موقع پر ایک خطاب سُن لیتے ہیں۔
ظاہر ہے وکالت نامہ پاکستان میں لکھا جاتا ہے اور یہیں چھپتا ہے۔ ہم شر پسندی کی لوکل جدید تعریف سے انحراف کیسے کر سکتے ہیں۔ جنرل مارک ملی کی اس تقریر کا پس منظر امریکی فوج کو ملکی سیاست سے دُور رکھنے کے عہد پر مبنی تھا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب امریکی صدرنے پینٹاگون میں اپنے کئی وفاداروں کو میرٹ کے بغیر اعلیٰ عہدوں پر بٹھا دیا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے یہاں تا بعداروں کی دو ٹولیوں کو پنجاب اور KPکے عہدوںپر بٹھارکھا ہے۔ امریکی سلیکشن کے بعدصدر کے بارے میں یہ خدشات ظاہر ہونا شروع ہو گئے کہ صدر نے کن وجوہات کی بنا پر یہ لوگ حساس ترین عہدوں پر بٹھائے ہیں۔
دوسری جانب یہ بھی اہم بات ہے کہ امریکہ کے صدارتی الیکشن کو نہ اپوزیشن نے قبول کیا اور نہ ہی اعلیٰ عہدوں کے لیے سلیکٹ کئے گئے لوگ عوامی توقعات کے مطابق ڈلیورینس دے سکے۔
خطاب کا پہلا نقطہ‘ میں نے حلف کس لیے لیا؟ پچھلے 200 سو سال سے زیادہ عرصے تک USAکے فوج کا موٹو‘ 14جون‘سال 1775ء سے شروع کر آج تک یوں رہا ہے‘ یہ ہم دفاع کریں گے اور ''یہ‘‘ سے ہماری مر اد آئین اور امریکی عوام کی آزادی کی حفاظت ہے۔ہم کسی بادشاہ یا ملکہ‘کسی ظالم یا ڈکٹیٹر سے وفاداری کا حلف نہیں اُٹھاتے۔ ہم فوجی کسی فردِ واحد سے متعلق بھی حلف نہیں لیتے۔ یاد رکھئے! نہیں ہم کسی ملک‘ کسی قبیلے‘ کسی نسل یا کسی مذہب کا حلف بھی نہیں لیتے۔ ہم صرف اور صرف آئین کا حلف اٹھاتے ہیں۔ جس کے ذریعے ہماری صرف اور صرف ڈیوٹی امریکہ کے آئین اور امریکی عوام کی آزادی کی حفاظت کرنا شامل ہے۔
دوسرا نقطہ‘ آئین ہوتا کیا ہے؟ ہم اس نیشنل آرمی میوزیم میں آسکتے ہیں‘ ہم تبرکات کو دیکھ سکتے ہیں اور اُن کے متعلق کہانیاں سُن سکتے ہیں۔اپنی آنکھوں اور کانوں سے بھی اور اُن انفرادی فوجیوں کی آواز کے ذریعے بھی جنہوں نے آزادی کی راہ میں بہت کچھ برداشت کیا۔بلاشبہ اُن سارے لوگوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے آئین کے لیے اپنی طرف سے بے لوث عقیدت کا مظاہرہ کیا‘ جس کے ذریعے ہمیں یہ وردی ملی۔ اس وردی میں ہم سب کے لیے اخلاقیات کا سب سے روشن ستارہ یہ آئینی دستاویز ہے جو عوام کے لیے ہماری خدمت کو مقصد فراہم کرتی ہے۔
یہی آئین وہ بنیادی دستاویز ہے جو اس میوزیم کو بھی مقصد فراہم کرتی ہے۔ ہم یہ مقصد‘ یہ والی وردی پہن کر اپنی اگلی نسل کو منتقل کرنے کے لیے موت کو بھی گلے لگانے پر تیار رہتے ہیں۔ اس لیے کہ اسی آئین میں وہ خیالات‘ احکامات اور اقدار (Values) جمع کر دیے گئے ہیں جس تجربے کو ہم آج فخر سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کہہ رہے ہیں۔
تیسرا نقطہ‘ ہم کیوں منفرد ہیں؟ جنرل مارک ملی کے خطاب کے دوران امریکہ وائٹ ہائوس‘ پنٹاگون سمیت اہم ترین امریکی سامعین شامل تھے اور میڈیا بھی۔ جنرل مارک نے امریکی فوجیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آپ دیکھتے ہیں ہم دنیا بھر کی افواج کے درمیان منفرد ہیں۔ پھر بولے‘ ہم عسکریت پسندوں کے درمیان بھی منفرد ہیں۔ ہم اس لیے منفرد فوج ہیں کیونکہ ہم آئین کا حلف اُٹھاتے ہیں اور یہاں پر موجود ہر وہ فوجی جو اس میوزیم میں مسلح افواج کی نمائندگی کرتا ہے اور سارے نیول سیل‘ ایئرمین‘ میرین‘ کوسٹ گارڈز‘ ہم میں سے ہر شخص خواہ اُسے کوئی بھی ذاتی قیمت ادا کرنی پڑے‘ اس سے قطع نظر اور بالا تر ہو کر امریکی آئین کی دستاویز کی حفاظت اور دفاع کرے گا۔ ایک شعر پیشِ خدمت ہے۔؎
وہ تو جاں لے کہ بھی ویسا ہی سُبک نام رہا
عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے
سوال یہ ہے اس ملک میں قیدی ڈاکٹر قدیر بھی ہیرو ہے اور اُسے قید کرنے والامشرف بھی؟ پھر شر پسند کون ؟