انگلش جرنلسٹ پریس کانفرنس کو مختصر کرکے پریسر کہتے ہیں۔اپنے ہاں اطلاعات کے ذرائع کا سونامی نکلنے کے بعد پریس کانفرنس اب میڈیا ٹاک کہلانے لگی ہے۔جدیدیت کی اس لہر میں ایک نئی اصطلاح بھی سامنے آئی ہے۔پرانی پریس کانفرنس‘ درمیانی پریسر اور جدید میڈیا ٹاک ان تینوں کے لیے نہ کوئی وقت طے تھا نہ جگہ مخصوص اور نہ ہی یکساں سکرپٹ جسے باربار ہر بولنے والا لفظ بلفظ دہرانے کا پابند ہو۔
2023ء کا سال پاکستانیوں کے لیے اسی جدیدیت کے دو تحفے لے کر طلوع ہوا‘ جن میں سے ایک کا نام ہے پریشر کانفرنس جس میں سکرپٹ پڑھنے والے بدلتے ہیں مگر سکرپٹ نہیں بدلتا۔ اس پریشر کانفرنس سیریز کے ہر نئے اداکار کا حلیہ پرانے شاعر کے قدیم شعر جیسا ہے۔اُڑی اُڑی سی رنگت‘ کھلے کھلے سے گیسو۔ مانگ تانگ کر نکالے گئے مگر مچھ کے چند آنسوں۔ کانپتی آواز میں اپنے کیے پر اظہارِ ندامت۔ لرزتے ہونٹوں سے دوعدد پلے سے طے شدہ مذمتی جملے۔ تیکھے سوالوں کے پھیکے جواب۔ پریشر کانفرنس کا پریشر نکالنے کے لیے ہنسی کے انداز میں بتیسی کیZipکھولنے کی ناکام اداکاری۔ میں تھک چکا ہوں‘ اب سیاست کبھی نہیں کروں گا‘ دور دیس سے قوم کے لیے سرمایہ کاری چھین کر لائوں گا‘ پاکستان کی خدمت کر کے دکھاؤں گا۔ گفتگو کا ایسا تابع فرمان لہجہ جیسے یقین دلانے کی کوشش کر رہا ہو کہ آخر کار اللہ تعالیٰ نے24کروڑ پاکستانیوں کی دعا سُن لی اور وہ وطن کا عظیم محب پیدا ہو گیاجس کے انتظار اور ہجر و فراق میں حُب الوطنی کی دیوی کب سے بال کھولے کھڑی تھی۔
اب یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے کہ فلم سرکاری ہو یا نجی شعبے کی اُس میں ایک عدد ظالم سماج کا کریکٹر ہر فارمولاپکچر کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ حالیہ پریشر کانفرنس سیریز فلموں میں ظالم سماج 'قاسم کے ابّا‘ ہیں۔ پہلے پہلے قاسم کے ابّا کی تقریروں سے کوئی نہیں ڈرتا تھا مگر اب اُس کی تصویروں سے بھی کوئی نہیں ڈرتا ورتا۔ یہ وہی قاسم کے ابّا ہیں جن کی تصویر ٹیلی کاسٹ کرنے‘ نام لینے اور کسی طرح کی خبر چلانے پر پابندی ہے۔ میں عربی النسل ہوں‘ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے اُس بیٹے کی اولاد جسے عربستان کے لوگ قمر ِبنی ہاشم کے نام سے پکارتے تھے‘ اس لیے میری تاریخ مکّہ سے شروع ہوتی ہے‘ اور یہ کیسے ہو سکتاہے کہ کوئی مکّہ کا نام لے اور شعبِ ابی طالب بھول جائے۔ انسانی تاریخ میں سوشل بائیکاٹ اور ہر طرح کی سنسر شپ کے خلاف شعبِ ابی طالب والے جبر کے تین سال مزاحمت کی فتح کی سب سے بڑی علامت ہیں۔
پریشر کانفرنس اور کرسی کا رشتہ بھی عجیب ہے۔ پریشر کانفرنس والی کرسی وہ عظیم اور مہان کرسی ہے جس کی نشست گاہ پر تاریخ کے لازوال محبِ وطن تشریف رکھنے کے لیے بھیجے گئے۔ آئیے پریشر کانفرنس اور کرسی نامہ کے چند تاریخی مناظرکو ری پلے کرنے کی سعادت حاصل کریں۔
پریشر کرسی کا لطفِ اوّل: لاہور کے کسی داروغہ نے قائد اعظم کا ایک گھر ڈھونڈ نکالا۔ کچھ مجرمانہ چہرے شناخت کرنے کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس مہم پر قوم کے اربوں روپے لٹانے کے بعددو بڑے اعلان ہوئے‘ پہلا یہ کہ قائد اعظم کے ان گستاخوں اور قوم کے ان مجرموں کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا‘ انہیں عبرتناک سزائیں ملیں گی اور بہت جلد۔ دوسرا اعلان بڑی بھاری بھرکم جے آئی ٹی بنانے کا ہوا جس کے ساتھ ہی پولیس کی عظیم قربانیوں کے بعد گرفتار ہونے والے شر پسندوں کو ملٹری ٹرائل کورٹ کے حوالے کرنے کا حکم بھی صادر ہوگیا۔ اب دیکھئے معجزہ پریشر کانفرنس کرسی کا‘ انتہائی مطلوب گرفتار شر پسند نہ کسی عدالت میں گئے نہ ان کو وکالت کی ضرورت پیش آئی۔ نہ ان شر پسندوں نے کسی ضمات پر رہائی مانگی۔ بس یوں سمجھ لیجئے چمتکار ہو گیا۔ یہ کوئی عام سا چھوٹا چمتکار نہیں بلکہ سب سے مہان چمتکار ہوا۔نواز شریف کو تو 50روپے کے اشٹام پر ضمانت ملی تھی مگر پریشرکرسی والوں کو پانچ دھیلے بھی خرچ نہیں کرنے پڑے۔ بس جیل والوں کا اُن پہ ایسا دل آیا جیسے کوئی جیلر نہ ہو بلکہ رانجھا ہو۔بغیر کسی پریشر کے جیل حکام نے روبکارِ رہائی حب الوطنی کے ان اوتاروں کے ہاتھ میں لا تھمائی۔ پھر میرے سسرالی علاقے چونترہ‘ سواں‘ چکری کے کسی خدا ترس ڈرائیور نے ان باضمیروں کو اڈیالہ روڈ سے اُٹھایا اور اپنا پٹرول خرچ کرتے ہوئے انہیں اسلام آباد کی پوش ترین لوکیشن میں پہنچا کر پوچھا ''کدھے وینڑاں نے؟‘‘۔ اوتاروں نے نہ آئو دیکھا نہ تائو دوڑ کر دور نظر آنے والی کرسی سے چمٹ گئے۔
پریشر کرسی کا لطفِ آخر: کرسی سیاسیاستِ پاکستان کے نصاب کا ایک پرانا مضمون ہے‘ جس کا پرچہ حل کرنا ہمیشہ سے اختیاری(Optional) نہیں بلکہ لازمی (Compulsory) چلتا آیا۔ ایک زمانے میں شہید بی بی اور اُن کے مقتول بھائی میر مرتضیٰ بھٹو میں کرسی نامے پہ مکالمۂ عام ہوا۔ راولپنڈی موتی بازار کے باہر اقبال روڈ پر میر مرتضیٰ بھٹو نے ایک جلسے میں پھبتی کسی کہ بے نظیر صاحبہ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح سے آیت الکرسی نہیں بلکہ کرسی‘ کرسی کا ورد کرتی ہیں۔ تین دن پہلے پریشر کانفرنس والی کرسی سے اُٹھ کر سیاست کی توبہ توڑتے ہوئے تازہ جاگے ہوئے ضمیر اڈیالہ جا پہنچے۔ پریشر کانفرنس میں ان کے بہائے ہوئے ٹسوے خشک بھی نہ ہوئے کہ اُنہوں نے پھر سے سیاست میں منہ ماری شروع کر دی۔
اس وقت زیرِ تعمیر کنگز پارٹی کا تین نکاتی ایجنڈا بڑا واضح ہے۔ پہلا خان کو مائنس کرنا تھا‘جو نا کام اور بے مرام ٹھہرا۔ دوسرا پاکستان تحریک ِانصاف کا ووٹ بینک جس کے ڈپازٹ اکائونٹ میں ماہانہ نہیں روزانہ نہیں بلکہ ہمہ وقت اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی لیے تیسرے آپشن کی مہورت‘ اجتماعی پریشرکانفرنس کے ذریعے کروائی گئی۔ نعرہ یہ لگا کہ اس ملک کو نواز شریف اور آصف زرداری کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سادہ مطلب یہ کہ تحریک ِ انصاف کے ووٹر کو ہائی جیک کر کے ریزگاری کی طرح کسی انویسٹر یا کسی سیٹھ کی پچھلی جیب میں ڈال لیا جائے۔ قاسم کے ابّا کا ووٹ نہ چھینا جا سکتا ہے نہ بھتے میں اُس کی وصولی ہوگی۔ بیچاری اجتماعی پریشر کانفرنس پہلے دن ہی اجتماعی تدفین کے سپرد ہو گئی۔رحمان فارس کا کہنا ہے:
اُدھر طے ہے کہ مرگِ ناگہانی لازمی ٹھہری
ادھر ضد ہے‘ نہیں‘ بیمار اچھا ہونے والا ہے
ریاست کی نہیں‘ یہ آپ کی اپنی ہی میّت ہے
ابھی کچھ دیر تو بیٹھیں جنازہ ہونے والا ہے
جسے تم نے ہمیشہ رینگتے دیکھا میاں فارسؔ!
وہ اب اُونچی فضائوں کا پرندہ ہونے والا ہے