بجٹ ‘ آمدنی اور خرچے میں توازن پیدا کرنے کے ہنر کو کہتے ہیں۔ہماری سینکڑوں ‘ہزاروں بدقسمتیوں میں سے ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارا بجٹ لفظوں کے ہیر پھیر سے تیار ہوتا ہے‘ جس میں نہ آمدن کے نئے ذرائع ڈھونڈے جاتے ہیں اور نہ ہی غیر ضروری اور بھاری بھرکم اخراجات کو کنٹرول کرنے کا کوئی نسخہ نکالا جاتا ہے۔نئے سال کا بجٹ بھی ویسا ہی ہے جیسا بجٹ گزرے ہوئے سال میں آیا تھا؛ چنانچہ پچھلے سال والا باسی کڑھی جیسا نعرا پھر دہرایا گیا۔ بجٹ کا عنوان ہے وزیر اعظم کا ویژن بجٹ۔یہاں ذرا رُک جاتے ہیں۔PDMکے وزیراعظم کا ویژن ہے کیا ؟ اسے سمجھنے کے لیے تین اشارے (Denominators) کافی ہوں گے۔
ویژن والا پہلا اشارہ:شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کے بعد پہلا ٹاسک ڈالر کو پاکستانی 100روپے پر واپس لانے کا ملا تھا جس کے لیے اقتدار میں آنے والوں اور اقتدار میں لانے والوں نے خوب ماحول گرمایا۔ امریکی ڈالر کی قیمت پر وزیر اعظم کے کنٹرول کا ویژن آج 13ماہ بعد بچے بچے کے سامنے ہے۔ آج کی تاریخ میں ڈالر کا انٹر بینک ریٹ 286.90روپے جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر305روپے پر بھی مل ہی نہیں رہا۔ہماری صنعتوں کی LC'sبند ہو چکی ہیں اور صنعتی کاروبار سر کے بَل نیچے آیا ہے۔ایسے میں ہے کوئی مائی کالال جو قوم کو یہ بتا سکے کہ پاکستانی روپے کواس درجہ ذلت تک گرانے کے پیچھے شہباز شریف کا کون سا معاشی ویژن کام آیا؟ سوائے اس بات کے کہ جن لوگوں کے اپنے ڈالراکائونٹ فارن بینکوں میں سات سمندر پار پڑے ہیں اُن کا ایک ڈالر218روپے کا جمپ مارگیا۔
ویژن کا دوسرا اشارہ: حکومت میں آتے ہی شہباز شریف نے ''خودداری‘‘کا سبق ان لفظوں میں پڑھایا تھا:Beggars can't be choosers۔ان کے الفاظ میں پاکستانی ایک بھکاری قوم ہے جس کے پاس خوداختیاری یا خوداری کے ساتھ فیصلہ کرنے کی کوئی چوائس موجود نہیں۔ ساتھ ہی شہباز ویژن کی نئی اکنامک ڈاکٹرائن پیش کر دی۔ شہباز شریف نے کہاکہ میں اپنے کپڑے بیچ کر آپ کو سستا آٹا اور کھانے پینے کی چیزیں دوں گا۔ کیا آج آٹا سستا ہے؟ کیا 13مہینے سے پہلے والے ریٹ پر کھانے پینے کی کوئی چیز آج مل سکتی ہے؟ پچھلے بجٹ کے ذریعے حکومت نے ملک کو ترقی کروائی‘عام آدمی کو ریلیف ملا‘کوئی ایک ادارہ ایسا جس کی پرفارمنس قاسم کے ابّا کے دور ِحکومت سے بہتر ہوئی ہو؟ اگر نہیں تو پھر ایک سوال یقینا بنتا ہے اور وہ یہ کہ آخر اپنے ہی شہریوں پر مسلسل کریک ڈائون اور کسٹوڈیل ٹارچر کے علاوہ پاکستان کو اور کس شعبے میں ترقی ملی؟
ویژن کا تیسرا اشارہ:یہ سمجھنے کے لیے پچھلے 14مہینے نکال کر دیکھ لیں۔ کارکردگی کے اعتبار سے شہباز سپیڈ کا دنیا کی رینکنگ میں 132واں نمبر آیا ہے۔ہمارے بعد اس رینکنگ میں اُن ملکوں کے نام شامل ہیں اکثر پاکستانی جن کا نام ہی نہیں جانتے مثال کے طور پرBenin۔ سال 2023-24ء کے بجٹ کا سب سے بڑا ''پوسٹر‘‘سرکاری ملازمین کی تنخوائوں میں 35فیصد اضافہ ہے۔ اس حوالے سے بھی دوسوال قابلِ توجہ ہیں‘ ایک یہ کہ تنخواہوں میں یہ اضافہ پورا کرنے کے لیے مال کہاں سے آئے گا؟دوسرا یہ کہ ملکی آبادی کی تعداد کے اعتبار سے سرکاری ملازمین ملک بھر میں ہیں کُل کتنے ؟ سویلین ‘ بیوروکریسی‘ تینوں مسلح افواج‘ ملک بھر کی ساری عدلیہ سب شامل کر کے دوملین کے قریب لوگ بنتے ہیں جبکہ باقی23کروڑ لوگ نجی ملازمت ‘ نجی کاروبار ‘ پرائیویٹ فری لانسنگ‘ پرائیویٹ پروفیشن ‘ ایگریکلچرل شعبہ‘ کھیت مزدور ‘ منڈی مزدور اور دیہاڑی دار ہیں‘ جن کو نہ تنخواہ ملتی ہے ‘ نہ انشورنس ‘ نہ گریجوئٹی ‘ نہ پینشن‘ نہ گولڈن ہینڈ شیک‘ نہ مفت تعلیم اور نہ مفت علاج کی سہولت ہے۔
پچھلے سال کے بجٹ کی برکت سے پاکستان کی قومی معیشت‘ عام آدمی کے گھریلو بجٹ‘بیمار صنعتوں کی مزید بیماری ‘ بے حیثیت پاکستانی روپے کی مزید بے قدری‘ صحت ‘ تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے لیے لوگ رُل گئے اور پورے سال مہنگائی کے عذاب میں ہر روز اضافہ ہوتا چلا گیا۔عام پاکستانی کے ذہن میں سوال یہ ہے کہ اس سال کا بجٹ اُن کے ساتھ کیسا سلوک کرے گا؟ کیا وہ پاکستانیوں کی تقدیر بدلے گا یا انتہائی بگڑے ہوئے حالات کا مزید حلیہ بگاڑ دے گا؟ اس کا جواب جاننے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے تازہ اعدادو شمار میں سے صرف ایک لائن دیکھنا کافی رہے گا تاکہ ظاہر ہو سکے کہ آج ہم اور ہماری مالیات کہاں کھڑے ہیں۔اس کا اندازہ یوں لگائیں کے PDM حکومت کے دور میں ملک کی ٹوٹل ٹیکس آمدنی 19ارب روپے روزانہ ہے۔اس آمدنی کے مقابلے میں حکومت روزانہ 41ارب روپے کا قرضہ لے رہی ہے۔ دوسرا لینڈ مارک یہ ہے کہ بجٹ کا75فیصد پیسہ حکومتِ پاکستان پر خرچ ہوتا ہے‘ پاکستان کے عوام پر نہیں۔
اب ذرا چلئے سال 2023-24ء کے سالانہ بجٹ کی دستاویزکھنگال کردیکھتے ہیں کہ آپ کے لیے وہا ں پہ کیا رکھا ہے۔ ٹوٹل بجٹ تخمینہ14ہزار 460ارب روپے ہے۔ جس میں سے بجٹ خسارہ سات ہزار 563ارب روپے یعنی آدھے سے زیادہ خسارہ۔ یہ خسارہ پورا کرنے کے لیے مزید قرضہ لینا ہوگا۔ٹوٹل بجٹ میں سے سات ہزار 303ارب روپے قرضہ کی قسطوں پر ادا ہوں گے یعنی ٹوٹل کا 80فیصد قرض پر سود کی مد میں چلا جائے گا۔ باقی میں سے 1804ارب روپے دفاع پر خرچ ہوں گے‘ 24کروڑ لوگوں کے ترقیاتی کاموں پر 950ارب‘ پینشن کی مد میں 761ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
باقی گورکھ دھندہ چھوڑ کر سرکاری معیشت دان اور درباری تبصرہ کارAdam Smithکا معاشی کیلکولیٹر ہاتھ میں پکڑیں اور قوم کو بتائیں کہ اس ساری رقم کا بندوبست کہاں سے ہوگا؟اس بجٹ کی دائیں پسلی کا پوسٹ مارٹم ہم نے کر دیا ۔ اب چلیے بائیں پسلی کے پوسٹ مارٹم کی طرف۔ نئے سال میں جتنے بھی بجٹ اعلانات ‘ اُس کے بچے اور انڈے قوم کو دکھائے گئے ہیں‘اُن سب کو پورا کرنے کے لیے ہمارا سب سے بڑا سورس ''خالی خزانہ‘‘ہے جبکہ شہباز ویژن کے مطابق دوسرا بڑا سورس آم یعنی مینگو کا جوس‘ کیری کا اچار اور چلبل چٹنی ہے۔یہ اُس خالی خزانے کا خیالی بجٹ ہے جس کے شیخ چلی کے پاس الیکشن کروانے کے لیے صرف 28ارب روپے کی رقم تک موجود نہیں۔یہ بات اسی وزاتِ خزانہ نے ملک کی تین بڑی عدالتوں کو تین دفعہ لکھ کر دے رکھی ہے۔ چلتے چلتے کومل جوئیہ کی بھی سُن لیتے ہیں۔
منسوب چراغوں سے‘طرف دار ہوا کے
تم لوگ منافق ہو‘ منافق بھی بلا کے