ہمارا شمار دنیا کے چند ایسے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں پہ چوکیدارے سے لے کر ریاست کے تحفظ تک قانون ہی قانون موجود ہیں۔ جن ممالک میں اس قدر تھوک کے بھائو پر قانون سازی کی جاتی ہو انہیں جیوریسٹ کی دنیا میں Over Legislative Societies کہتے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے اکثر ممالک ایسے ہیں جہاں پلاننگ کے نام پر ''پلاننگ کمیشن‘‘ جیسا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ اور تو اور ہم نے ایک ایسے معاشرے میں‘ جہاں تین کروڑ کے قریب بچے سکولوں سے باہر ہیں اور جو سکول موجود ہیں وہ تعلیم کے بین الااقوامی معیار سے باہر ہیں‘ ایک ہائر ایجوکیشن کمیشن بنا رکھا ہے۔ ساتھ ہی ایک ایک صوبے میں تعلیم کے نام پر دو‘ دو وزارتیں اور صوبائی ہائر ایجو کیشن کمیشن بھی بنا دیے ہیں۔ آپ ذرا تازہ بجٹ نکالیں اور اسے پڑھ کر دیکھیں کہ 25کروڑ عوام کے بچوں کی تعلیم پر فی سٹوڈنٹ یا فی سکول یا فی کالج یا فی یونیورسٹی ہم نے کتنے ٹیڈی پیسے کا بجٹ رکھا ہے؟
جو معاشرے انصاف‘ راج نیتی اور برابری کے معاشی مواقع سے محروم ہو جائیں‘ وہاں اس طرح کے محاورے جنم لیتے ہیں کہ اگر کچھ نہیں کرنا تو کمیٹی بنا دو۔ بالکل کچھ نہیں کرنا تو اپیکس کمیٹی بنا دو۔ اور اگرگونگلوؤں سے مٹی جھاڑنی ہے تو کمیشن بنا دو۔ تفتیش نہیں کرنی تو JITبنا دو۔ اگر تفتیش بالکل بھی نہیں کرنی تو جوڈیشل کمیشن بنا دو۔ ریلیف لینا ہے تو وکیل کو چھوڑو...۔
ہماری اماوس کی رات جیسی روشن تاریخ کس قدر ذرخیز ہے کہ جہاں نہروں کی بھل صفائی کیلئے ہم نے تین عشرے پہلے فوج بلا لی تھی۔ حالانکہ محکمۂ انہار‘ محکمۂ زراعت اور بلدیاتی ادارے‘ ضلعی ایڈمنسٹریشن اپنے اپنے علاقے میں بھل صفائی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ہم یہیں نہیں رکے IESCO‘ LESCO‘ FESCO‘ PEPCO‘ K.ELECTRIC‘ MEPCO‘ QESCOاور سب سے بڑھ کر WAPDAکی موجودگی میں میٹر ریڈنگ کے لیے بھی عوام کے خادمِ اعلیٰ اور خادمِ اعظم نے فوج طلب کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کر رکھا ہے۔ لبرل اور انلائیٹن موڈریشن کے بانی مرحوم صدر پرویز مشرف نے ریونیو ادارے‘ FBR اور کلیکٹرز کو پیچھے چھوڑ کر ایک نئی معاشی تھیوری پیش کی تھی۔ بالکل ویسے ہی جیسے شہباز شریف نے سستا آٹا دینے کے لیے اپنے کپڑے بیچنے کی تھیوری پیش کر رکھی ہے۔ اسی تھیوری کی برکت سے 20کلو آٹے کا تھیلا صرف 3ہزار روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ محسنِ شریف خاندان‘ صدر پرویز مشرف مرحوم نے ڈاکیومنٹیشن آف اکانومی کے لیے فوج کے افسران کو مارکیٹوں کا سروے کرنے کی ڈیوٹی سونپ دی تھی۔
اس وقت ایشیا کا کوئی اور ایسا ملک نہیں ہے جس کے سیاستدانوں‘ بیوروکریٹس اور دیگر ریٹائرڈ افسران اور ان کے اہلِ خانہ اتنی بڑی تعداد میں مغربی ملکوں میں مقیم ہوں۔ یہ تو سب پر ظاہر ہے کہ کسی بھی مغربی ملک میں رہنے کے لیے دو ہی ممکنہ طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ سات سمندر پار ناجائز اثاثے بنائے جائیں جو منی لانڈرنگ کے بغیر بنانا ممکن نہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہاں کوئی نوکری ڈھونڈی جائے۔ دبئی سے لندن تک‘ آسٹریلیا سے کینیڈا تک‘ امریکہ سے برازیل تک‘ آپ جس مرضی ملک کے بڑے شہر میں جائیں وہاں آپ کو پاکستان اور غریب عوام کے ہمددردوں‘ غم خواروں اور محبِ وطن بیٹوں کے اثاثے ملیں گے۔ آپ کسی ٹیکسی کیب میں بیٹھیں‘ کسی ریستوران میں جائیں یا کافی شاپ پر‘ ہر جگہ آپ کو یہ تفصیل مفت مل جاتی ہے۔
اب آئیے اس قومی منظر نامے میں نتیجہ دیکھیں کہ آج ہمارا وطن کس حال میں ہے۔ چلئے ہم سب اپنے گریباں میں جھانکتے ہیں، اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ پاکستان کا ہر ادارہ نقصان میں ہے‘ خزانہ خالی ہے‘ ملک غریب ہے‘ ہم سب اس کے ہمدرد ہیں‘ ہم سب اس کی طرف کسی کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیتے‘ ہم مادرِ وطن پر جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ذرا ٹھہریے گا! ابھی سوال ختم نہیں ہوئے۔ صرف تین سوالوں کے جواب ہم سب نے دینے ہیں۔ اگر ہم ایک قوم ہیں؟ اور ایک زندہ قوم ہیں تو پھر ان کے متعلقہ سوال سب پر‘ سب سے پوچھنا فرض ہے۔
قوم کے غم خواروں سے قوم کا پہلا سوال: پاکستان میں معیشت کی بحالی کے لیے ایک ہائی پاور کونسل بنی ہے‘ جو اچھی بات ہے مگر کیا اس میں شامل سیاسی کردار‘ وزیر‘ وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ‘ بیوروکریٹس وغیرہ اپنے اثاثے اور دولت اس کڑے وقت میں سات سمندر پار سے واپس لا کر پاکستان انویسٹ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے تو پھر ملک کے اند ر سے یا عالمی برادری سے ایسا کون سا بھولا انویسٹر ہے جو اپنی پونجی بے یقینی کے اس ماحول میں رسک پر لگانے کے لیے تیار ہو۔ ایک ایسا رسکِ مسلسل جس میں سے نکلنے کی سرکاری تاریخ پی ڈی ایم حکومت نے خود 2035ء مقرر کر رکھی ہے؟
قوم کے غم خواروں سے قوم کا دوسرا سوال: کیا ہم برادر مسلم ممالک سے بار بار خیرات مانگنے نہیں گئے؟ کیا ہم علاقائی اور عالمی برادری میں مدد لینے کے لیے دوڑیں نہیں لگا چکے؟ کیا ہم صرف ایک ارب دس کروڑ امریکی ڈالرز کا قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے لیٹ کر گڑگڑا نہیں رہے؟ اگر یہ سچ ہے تو پھر وہ کیا وجوہا ت ہیں جن کی بنا پر کوئی نہ ہمیں خیرات دیتا ہے‘ نہ امداد اور نہ قرضہ؟
قوم کے غم خواروں سے قوم کا تیسرا سوال: کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں۔ جسے سیاسیاتِ عالم میں Self Denial Mode کہتے ہیں۔ یہاں ایک ضمنی سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ بیرونی دنیا بنگلہ دیش‘ بھارت‘ تائیوان‘ تھائی لینڈ‘ چین‘ جاپان‘ قطر‘ کویت‘ عمان اور سعودی عرب کے مقابلے میں پاکستان میں انویسٹمنٹ کرے تو اسے پالیسی تسلسل کی یقین دہانی کون کرائے گا؟ کیونکہ پوری دنیا اچھی طرح سے جانتی ہے پی ڈی ایم کی موجودہ لڑکھڑاتی ہوئی حکومت کے پاس اب 55 دن کا اقتدار باقی رہ گیا ہے۔ معاشیاتِ عالم میں انویسٹمنٹ کی پہلی شرط اور پہلا قدم Risk Evaluation سے شروع ہوتا ہے۔
بہتر یہ ہوگا کہ اپنی معیشت بہتر بنانے کا فیصلہ کرنے کا اختیار عوام کو ملے۔ جس کا طریقہ اور دائرہ کار‘ دونوں آئین میں درج ہیں۔ جب حکو مت پانچ سال کے لیے آئے گی‘ جب الیکشن فری اور فیئر ہوگا تو اکانومی اٹھ بھی سکتی ہے اور دوڑ بھی۔ 2020-21ء میں ٹڈی دَل آیا‘ کووڈ 19آیا اور انویسٹر بھی بڑی تعداد میں آیا۔ کیپٹل ازم کی دنیا میں انویسٹر کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ Business Feelپر آتے ہیں۔
آئیے ایک کمیشن اور سہی‘ جو پاکستان کے لیڈروں کے غیر ملکی اثاثے 55دنوں میں واپس لا سکے۔