یہ پاکستان کی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہے‘ سال 2021ء اور قومی اسمبلی کا اپوزیشن لیڈر برانڈڈ سوٹ بوٹ میں اسمبلی کے دورے پر آیا ہوا ہے۔ خطاب بے ربط اور بے ہنگم‘ مخاطب وزیراعظم۔ ''اس حکومت نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔ پاکستان کی خود مختاری فروخت کر دی ہے۔ ہم سب کو بیچ دیا ہے اور سودا کیا ہے صرف 4ارب ڈالر میں‘ اس بھیک کے لیے ملک کے مفادات کا سودا کر دیا ہے۔ یہ پاکستانیوں کے ساتھ غداری ہے۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم محض 4ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیک دیں۔ ہم غیرمند لوگ ہیں۔ ہم اس حکومت کو اپنا ملک آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروِی نہیں رکھنے دیں گے‘‘۔
شہباز شریف کی اس آن ریکارڈ تقریر میں حکومتی اراکین نے شور شرابا شروع کر دیا۔ اردو کے پارلیمانی رپورٹروں کا پسندیدہ جملہ ہے ''اور ایوان مچھلی منڈی بن گیا‘‘۔ اس دوران ایک اور (ن) لیگی اپوزیشن رہنما نے تقریر شروع کر دی‘ ساتھ ساتھ شور شرابا بھی ہوتا رہا۔ وہ فرماتے چلے گئے ''ہماری حکومت آنے دو‘ 180ارب کی رقم ہم کچھ دنوں میں پیدا کرکے دکھائیں گے۔ ہمیں بھیک مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے ہاتھوں ملک کو بیچنے والی غدار حکومت کو ہم نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
پھر حالات نے پلٹا کھایا۔ نصف شب کو ملک کی سب سے بڑی عدالت نے شہباز شریف کو اپنے سامنے طلب کر لیا۔ اس وقت میں بطور وکیل وزیراعظم اور شہباز شریف ایک ہی عدالتی روسٹرم پر کھڑے تھے۔ میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ سے تکرار کے ساتھ گزارش کر رہا تھاکہ آپ کو وزیراعظم کو بھی عدالت میں طلب کرنا چاہیے۔ قدرتی انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وزیراعظم کو بھی عدالت سامنے بلائے تا کہ اپوزیشن لیڈر کے مقابلے میں وہ اپنا مؤقف سپریم کورٹ کے سامنے پیش کر سکیں۔ میری اس دلیل پر کوئی توجہ نہ دی گئی بلکہ الٹا شہباز شریف کو کہا گیا آپ تو پارلیمنٹ میں اقلیتی پارٹی ہیں‘ حکومت کیسے چلائیں گے؟ اس ایک جملے نے وہ سارا کچھ کہہ ڈالا جس کے بارے میں وکیل پہلے سے اندازے لگا رہے تھے۔ اپوزیشن لیڈر نے ان الفاظ میں جواب دیا: حضورِ والا! آپ مجھ پر 100فیصد اعتبار کریں۔ مجھے صرف چھ مہینے مل جائیں‘ سب کچھ ٹھیک کر کے دکھا دوں گا۔ اور پھر واقعی حکومت تبدیل ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں شہباز شریف کو چھ مہینے کے بجائے ایک سال تین مہینے کا اقتدار مل گیا۔جبکہ پارلیمنٹ کی سب سی بڑی جماعت کی چلتی ہوئی حکومت کو دھکا مار کر گرا دیا گیا۔ نئے وزیراعظم نے عدالت میں بولے گئے ڈائیلاگ اسمبلی میں بھی دہرا دیے۔ چھ ماہ میں سب کچھ بدل دینے کے دعوے والی تقریر کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کا خیال تھا کہ جیسے انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو مل جل کر گرایا ہے‘ ویسے ہی وہ حکومت بھی چلا لیں گے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔
پاکستان کی مقتدر اشرافیہ کا کوئی ایسا کردار نہیں بچا جس نے ''امپورٹڈ حکومت‘‘ کو چلانے کے لیے آئی ایم ایف سمیت برادر اسلامی ملکوں‘ چین سے امریکہ تک اور انگلستان سے سعودی عرب تک‘ کویت سے متحدہ عرب امارات تک قرض اور امداد مانگنے کے لیے پاپڑ نہ بیلے ہوں۔ پی ڈی ایم کی قیادت نے جس قدر قومی خزانہ بیرونِ ملک دوروں پر خرچ کیا‘ اس سے ہر صوبے میں پانچ‘ چھ کالج یا ایک دو یونیورسٹیاں بنائی جا سکتی تھیں۔ ایک غیر نمائندہ اقلیتی حکومت کو نہ امداد ملی‘ نہ علاقائی‘ اسلامی اور بین الااقوامی برادری میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی یا پذیرائی مل سکی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ شہباز شریف کو ''کپڑے بیچ کر‘‘ 25کروڑ لوگوں کے لیے آٹا سستا کرنے کا بیان دینا پڑا۔ پی ڈی ایم کے وزراء کی وضع قطع‘ لباس اور برانڈز دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے وہ دنیا کو اپنی ماڈلنگ‘ فن کاری اور فیشن ریمپ پر واک سے متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس دوران آئی ایم ایف کا چلتا ہوا پروگرام کھوہ کھاتے چلا گیا اور کسی نے کسی جگہ بھی اس کلاکاری کو لفٹ نہ کرائی۔
1977ء سے 1990ء کے عرصے والا پاکستان ایک بار پھر کبھی پرانا پاکستان اور کبھی ہمارا پاکستان کے نام سے گزرے وقت کے تابوت سے نکال کر پبلک کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہوئی۔ جاوید احمد غامدی صاحب نے اس ماورائے آئین بندوبست پر سب سے مؤثر تبصرہ کیا اور ہمیں پاکستان کی قومی تاریخ یاد دلائی۔ غامدی صاحب نے کہا کہ پاکستان سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہوا۔ پاکستان کے لوگوں نے کافی عرصے کے بعد اپنے لیے ایک آئین بنایا جس کے نتیجے میں ریاست کے کئی محکمے وجود میں آئے۔ ان میں سے کوئی آئین سے بالاتر کوئی بھی نظام مسلط کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پاکستان ایک آئینی ملک ہے اور دستور میں طے کر دیا گیا ہے کہ جس کسی کو پاکستان کے عوام ووٹ کے ذریعے منتخب کریں‘ وہی ملک کا نظامِ حکومت چلا سکتا ہے۔
غامدی صاحب سے میری کوئی ملاقات نہیں مگر وہ صاحب الرائے سکالر ہیں۔ ان کی رائے میں سیاست نہیں ڈھونڈی جا سکتی۔ ہاں البتہ ریاست کا بھلا ضرور دیکھا جا سکتا ہے۔ آج پاکستان کومعاشی‘ علاقائی اور بین الااقوامی طور پر جس گڑھے کے کنارے پہنچا دیا گیا‘ اس پر ملک کے اندر اور باہر ہر درد مند شخص اور ادارہ جو پاکستان کا بھلا چاہتا ہے‘ وہ جاوید غامدی صاحب کی طرح ہی سوچ رہا ہے بلکہ بول بھی رہا ہے۔
پھر پردہ اٹھتا ہے‘ شہباز شریف جو آئی ایم ایف پروگرام کو غداری اور پاکستان کی لوٹ سیل کہتے رہے‘ انہوں نے آئی ایم ایف کے سامنے ناک سے لکیریں نکالنے کا اعتراف کیا۔ اس کے باوجود 30جون کو آئی ایم ایف نے پچھلے پروگرام پہ شہباز شریف والا دھیلا اور نواز شریف والا قصیرہ تک دینے سے انکار کر دیا۔
آئی ایم ایف‘ یورپین یونین‘ اقوام متحدہ‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت ہر معتبر ادارہ‘ چیئرمین پی ٹی آئی کو پاکستان کی سیاست و ریاست کا سب سے بڑا سٹیک ہولڈر سمجھتا ہے۔ اسی لیے آئی ایم ایف زمان پارک کے دروازے پر آیا۔ آئی ایم ایف کے لیے یہ غیرمعمولی بات ہے کہ وہ اپوزیشن کے زیرِعتاب لیڈر سے اپنے 90دن کے پروگرام کے لیے حمایت مانگے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف کو بروقت جنرل الیکشن کی شرط پر سپورٹ دینے کا وعدہ کیا۔ آج پاکستان کے پاس آگے بڑھنے کے دوراستے ہیں۔
پہلا راستہ: مملکت کے منیجرز پھر سے سستی چالاکی کریں۔ چیئرمین تحریک انصاف کو پابندِ سلاسل یا مائنس ون کا شکار بنانے کی کوشش کریں۔ ان دونوں صورتوں میں آئی ایم ایف اور چیئرمین پی ٹی آئی کے درمیان انڈر سٹینڈنگ متاثر ہوگی اور پہلی قسط کے بعد دوسری کے لیے کوئی گارنٹی باقی نہیں رہے گی۔
دوسرا راستہ: ریاستی ادارے‘ سرکاری ملازم اور سیاستکار آئین اور قانون کے نیچے آئیں۔ قومی ترانے پر عمل کریں۔ حفیظ جالندھری کی روح کو مزید نہ تڑپائیں کیونکہ قومی ترانے میں ہمارا ہر دن قائداعظم اور آئین سے یہ وعدہ ہوتا ہے:
پاک سرزمین کا نظام
قوتِ اخوتِ عوام
ہمارا متفقہ مقدس آئین عوام کے علاوہ کسی اور کو حلقہ ماننے کی نفی کرتا ہے۔ آئی ایم ایف کے زمان پارک کے دروازے تک پہنچنے کی وجہ بھی یہی ہے۔