"SBA" (space) message & send to 7575

164کے پروہت اور پجاری … (2)

پردہ اٹھنے کے بعد مناظر کا ایک تسلسل سامنے آتا جا رہا ہے۔ بھٹو کیس میں میری ذاتی معاونت کرنے والے الیاس خان ایڈووکیٹ بھی تھے جنہیں میں پیار سے ''ملتانی کامریڈ‘‘ کہتا ہوں‘ انہوں نے پچھلا کالم پڑھ کر دیگر بہت سے دوستوں کی طرح رابطہ کیا۔ ساتھ ہی یاد دلایا یہ میرے پروفیشنل کیریئر کا سخت ترین کیس تھا‘ جس کو بیک برنر پر ڈالنے کے لیے میرا لائسنس تک معطل کر دیا گیا۔ یادوں کی اس برات میں سے کچھ جھلکیاں آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔
بھٹو کیس کی پہلی جھلکی: پوٹھوہار کے خطے سے تعلق رکھنے والے ایک جواں سال وکیل بیرسٹر ایم انور بھی تھے‘ جن کا معروف نام ایم انور بار ایٹ لاء ہے۔ انہیں اس مقدمے کے آغاز میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پراسیکیوٹر مقرر کیا گیا۔ ان کے ایک جونیئر ایسوسی ایٹ بیدار بخت ایڈووکیٹ اس کیس کی تیاری میں شامل رہے۔ بھٹو کیس فائل ہونے کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں بحیثیت ASC اپنا ایک تحریری اور دستخطی بیانِ حلفی پیش کیا۔ جو لوگ عدالتی دنیا نہیں جانتے ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بیان حلفی نہ بھی ہو تو پروفیشنل پریکٹس کرنے والے وکیل کو یہ اجازت ہوتی ہے کہ وہ اپنا Statement at Bar عدالت کے سامنے زبانی دے سکتا ہے۔ اسے بھی حلفیہ بیان ہی تصور کیا جاتا ہے۔ ایم انور بار ایٹ لاء کے معاون وکیل صاحب نے عدالت کو بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں جن لوگوں کو (مسعود محمود کے علاوہ) ضابطہ فوجداری کے تحت قتل کے اقبالِ جرم کا بیان دینے کے لیے آمادہ کیا گیا‘ وہ ملزم ان کے سامنے سپیشل پراسیکیوٹرز کے دفتر میں لائے گئے تھے۔ جہاں پہ جنرل ضیا الحق دوست مذہبی سیاست کرنے والی ایک شخصیت کو پہلے سے بٹھایا گیا تھا۔ ہمراہی ملزمان میاں محمد عباس‘ رانا افتخار احمد‘ ارشد اقبال اور غلام مصطفی تھے۔ ملزمان اور اس شخصیت کے درمیان قرآن شریف کا نسخہ رکھا گیا۔ ملزمان کہہ رہے تھے کہ ہم پر بے پناہ تشدد ہوا ہے۔ اس کے باوجود وہ 164کا بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کروانے پر تیار نہیں تھے۔ ضیا دوست مذہبی شخصیت سے انہوں نے بیان دینے کی شکل میں سزا نہ ملنے کی ضمانت مانگی۔ چنانچہ اس شخصیت نے ملزمان کو لکھ کر دیا کہ تمہیں بھٹو کیس میں بیان دینے کے بعد بری کرکے چھوڑ دیا جائے گا۔ المیۂ عالم میں سے ایک سیاہ بختی یہ ہوئی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو 164میں قاتل قرار دینے والے‘ جنہیں کتابِ مقدس پر نہ مارے جانے کی گارنٹی ملی تھی‘ وہ بھٹو سے پہلے تختۂ دار پر لٹکا دیے گئے۔
بات ہو رہی تھی 164کے پروہت اور پجاری وارداتوں کی۔ بھٹو سے بھی پہلے ایک 24سال کے خوبرو نوجوان کو تختہ دار تک پہنچانے کے لیے 2لوگوں کو 164کی جھوٹی گواہی دینے پر آمادہ کرکے انہیں Crown Witness بنایا گیا۔ یہ تھا فرنگی راج کے خلاف ہماری آزادی کی جنگ لڑنے والا کمسن ہیرو بھگت سنگھ‘ جو آزادی اور خود مختاری کے نعرے لگاتا ہوا پھانسی کے تختہ پہ جھول کر ہمیشہ ہمیشہ کر لیے اَمر ہو گیا لیکن ان دو جھوٹے گواہوں کو ذِلت کی بقیہ زندگی اور ذِلت کی موت نصیب ہوئی۔
پہلے وکالت نامے میں ہم نے ضابطہ فوجداری مجریہ 1898ء کی دفعہ (1-A)164 کا حوالہ دیکھا۔ آئیے سائفر زدگان کے اس طوفان میں 164کوڈی سائفر کرکے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈی سائفر پوائنٹ نمبر1: اس کے لیے دفعہ 164کا ٹائٹل پڑھنا کافی رہے گا جس میں لکھا ہوا ہے کہ مجسٹریٹ کو بیان اور اعترافِ جرم ریکارڈ کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ یہ اختیار بے لگام نہیں ہے کہ مجسٹریٹ آدھی رات کو کسی بند کمرے میں بیٹھ کر زیرِ حراست ملزم کو بلائے اور اس کا بیان لکھ کر اسے میڈیا کے لیے ریلیز بھی کرنے کی اجازت دے دے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 164کے بارے میں واضح ہدایت پر مبنی تفصیلی فیصلہ دے رکھا ہے جو PLJسال 2004ء سپریم کورٹ کے صفحہ نمبر 294پر موجود ہے۔
ڈی سائفر پوائنٹ نمبر2: اب آئیے ضابطہ فوجداری میں سے دیکھتے ہیں کہ جو ٹرائلز براہِ راست ہائی کورٹ کرتا ہے یا جو سیشن جج کرتے ہیں‘ ان کے دوران 164کے بیان کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ اس سلسلے میں ضابطہ فوجداری کا باب نمبر XXII-Aکی دفعہ 265-C کی ذیلی شق نمبر(1)کی ضمنی دفعہ(c)دیکھ لینا کافی رہے گا۔
265-C.(1).(c) Copies of following statement shall be supllied to the accused not later than seven days before the commencement of the trial, namely:- the statements of all witnesses recorded under Sections 161 and 164.
ہمارے ضابطہ فوجداری کے قانون کے تحت 164کا بیان قلم بند ہونے کے بعد سِیل ہو جاتا ہے۔ جسے پولیس چالان کے ساتھ لگا کر سیشن جج کو بھجوانے کی پابند ہے۔ پھر سیشن جج ٹرائل شروع ہونے پر اس کی کاپی صرف اور صرف ملزم کو دے سکتے ہیں اور ملزم اس کاپی کو اپنے دفاع میں جرح کے لیے استعمال کرتا ہے۔ عمران خان کے خلاف یہ کیسا بیان ہے جس کی نتھ کسی طاقتور نے سِیل بند ہونے سے پہلے ہی توڑ ڈالی۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہوگا کہ دفعہ 161اور 164کے تحت گواہوں کے بیان ریکارڈ کرنے کا طریقہ علیحدہ علیحدہ ہے۔ 164کا بیان لکھنے کی ''Pre-conditions‘‘ہیں۔
ڈی سائفر پوائنٹ نمبر3: 164ضابطہ فوجداری کا بیان لکھنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ اسے Dulyریکارڈ کیا جائے۔ یعنی متعلقہ ہائی کورٹ نے اپنے رولز آف پروسیجر میں مختلف جرائم کے اعترافی بیان لکھنے کے لیے جو ہدایات جاری کر رکھی ہیں۔ ان کا بیان لکھنے سے پہلے پورا اہتمام کیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ بیان مذمتی پریس کانفرنس میں تو استعمال ہو سکتا ہے مگر وہ ملزم کے خلاف ٹرائل کے دوران قابلِ ادخال شہادت (Admissible)نہیں ہوگا۔
164کے پروہت اور پجاری فرمائش کریں یا آہ و زاری‘ 164کا بیان لازمی طور پر ملزم کو عدالت میں طلب کرکے اس کی موجودگی میں لکھا جائے گا۔ اعظم خان والا 164کا بیان لکھتے وقت لوگوں کو یہ ہی پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور کس جگہ اس کا بیان لکھا گیا۔ اس لیے عمران خان کی موجودگی کا اس 164کے بیان لکھے جانے کے وقت کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 164کا بیان لکھنے کی تیسری Pre-condition یہ ہے کہ ملزم کو وعدہ معاف گواہ کے بیان لکھے جانے کی اطلاع نوٹس کے ذریعے دی جائے۔ ضابطہ فوجداری ہدایت دیتا ہے کہ کسی ملزم کو اس کے خلاف 164کی شہادت ریکارڈ کرتے وقت سرپرائز نہیں دیا جا سکتا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں