مسٹر ''MAK‘‘ کی کہانی مزید آگے بڑھتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ بیان مجاز عدالت کے سامنے164کا ہو‘ پولیس کے سامنے 161کا یا پھر کریمنل ٹرائل کے دوران PW‘ DW یا پھر CWکا‘ اُس کا آغاز ملزم کی شناخت سے ہوتا ہے۔ عدالت ملزم کا قومی شناختی کارڈ نمبر بیان میں درج کرتی ہے۔ ساتھ ہی ملزم سے اُس کا نام‘ ملزم کی ولدیت‘ ملزم کی عمر اور سکونت اُس سے پوچھ کر لکھی جاتی ہے۔
نواز شریف اور شہباز شریف کے ٹرائل میں بیان زیرِ دفعہ 342 ضابطہ فوجداری نکال کر دیکھ لیں‘ کسی جگہ SSاور NSنہیں لکھا ہوا۔ بلکہ شناختی کارڈ والا پورا نام لکھا جاتا ہے۔ اس Exercise کامقصد یہ ہوتا ہے کہ گواہ یا ملزم کے بجائے کوئی دوسرا شخص اس کا روپ دھار کر عدالت میں بیان دینے کے لیے کھڑا نہ کیا جا سکے۔ اسی لیے اسحاق ڈار کی طرف سے جو بیان نواز شریف کے خلاف بطور وعدہ معاف گواہ ریکارڈ کیا گیا تھا‘ اُس میں یہ نہیں لکھا تھا کہ مسٹر IDنے مسٹر NSکے لیے قاضی فیملی کا نام استعمال کرکے منی لانڈرنگ کی واردات ڈالی۔
آئیے مسٹر میک کے بیان کو ترتیب سے ڈی سائفر کریں۔
ڈی سائفر پوائنٹ نمبر5: وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری سے منسوب 164 کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اُس وقت کے فارن سیکریٹری نے مسٹر MAK سے رابطہ کیا۔ یہ معلوم نہیں کہ رابطہ کرنے والے فارن سیکرٹری کا نام کیا تھا۔ اُس نے رابطہ ٹیلی فون پر کیا‘ پیام بر بھیجا یا خود چل کر آیا۔ پھر جس رہائش گا ہ پر سائفر مسٹر MAKکو بھیجا گیا‘ اُس کا ہائوس نمبر‘ سٹریٹ نمبر‘ سیکٹر نمبر‘ شہر حتیٰ کہ صوبہ اور ملک بھی درج نہیں ہیں۔ اس طرح کی پرچی کو قانون کسی صورت شہادت نہیں مانتا۔ یہی وہ سوال ہیں جو کہ اگر عمران کو مجسٹریٹ نے مبینہ بیان تیار کرتے وقت نوٹس دے کر طلب کیا ہوتا اور عمران کو حقِ دفاع میں جرح کا موقع دیا جاتا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا‘ اُسی وقت ہو چکا ہوتا۔
ڈی سائفرپوائنٹ نمبر6: تعصب کی عینک اُتار کر آپ کسی طرح کی کوئی بھی عینک لگائیں اور اس بیان کا پیرا گراف نمبر (a) اپنی مرضی سے پڑھیں۔ تو آپ کو پتا چلے گا کہ پہلے سے یہ لکھی ہوئی پرچی بیان دینے والے کو تھمائی گئی تھی پھر بیان لکھنے والے کو پہنچائی گئی تھی۔ جس کے کئی ثبوت انگریزی میں ٹائپ شدہ اگلی چار لائنوں میں بڑے واضح ملتے ہیں۔ پہلی لائن میں لکھا ہے کہ جو سائفر مسٹر میک کے گھر 8 مارچ سال 2022ء کو کسی فارن سیکرٹری نے مسٹر MAKکو پہنچایا‘ اُس نے مسٹر MAKکو یہ اطلاع بھی دی کہ مسٹرFMقریشی (اسے آپ فتح محمد قریشی بھی پڑھ سکتے ہیں‘ فقیر محمد قریشی بھی پڑھ سکتے ہیں یا کسی اور ملتے جلتے نام سے بھی) نے اس سائفر پر مسٹر ''IK‘‘ سے پہلے ہی بات کر لی ہے‘ (لفظ IKکو اگر اُردو ناموں میں ڈھالا جائے تو عمران خان کے علاوہ انعام خان‘ عشرت خان‘ اکرام خان‘ کچھ بھی ہو سکتا ہے)۔
یہ فوجداری قانون کا بنیادی اصول ہے کہ اگر کسی جگہ استغاثہ کے کسی بیان میں یا پورے مقدمے میں ایک ڈینٹ (Dent) بھی پڑ جائے تو ملزم کو شک کا فائدہ دے کر پورا مقدمہ خارج کر کے ملزم کو بری کیا جائے گا۔ اسی لیے عدالتیں‘ اگر ان میں بیان لکھا گیا ہو تو وہ اس طرح کے نام استعمال ہی نہیں کرتیں۔ رابن ہُڈ کی جگہ RHنہیں لکھا جا سکتا‘ آرنلڈ شواز نِگر کی جگہ ASکا ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ اس سے آگے کہا گیا ہے کہ اگلے دن جب مسٹر میک نے مسٹر ''اِق‘‘ کو سائفر پیش کیا تو اس نے پہلے بیان کی گئی بات کنفرم کی۔ جس کے بعد یہ لکھا گیا ہے کہ مسٹر ''اِق‘‘ پر سائفر دیکھنے کے بعد پاگل پن (Euphoric) کا دورہ پڑا۔ ذرا غور فرمائیے! کہ یہ وہی مسٹر IKہے جس کے ساتھ مسٹر FM نے یہ سائفر دورہ پڑنے سے پہلے ہی ڈِسکس کر رکھا تھا۔ چلتے ہیں مسٹر میک کے بیان کے اگلے حصے کی طرف۔
ڈی سائفر پوائنٹ نمبر7: 164سے منسوب پچھلے پیرے میں پروہت اور پجاری نے جو فن کاری دکھائی اُس کا اختتام یوں کیا کہ غصے کی دیوانگی میں بھی مسٹر IKاس قدر سمجھدار نکلا کہ اُس نے سائفر میں استعمال کی گئی زبان کو یو ایس اے کا بلنڈر قرار دیا اور ساتھ ہی ایک سرکاری ملازم کو سیاست اور راج نیتی کا ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا اور اُسے بتایا کہ سائفر کو ہم گھما پھرا کر اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے خلاف بیانیہ (Narrative) بنا کر استعمال کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر پبلک سرونٹ کے ساتھ اپنی سیاست کا اگلا پلان بھی شیئر کرتے ہوئے مسٹر اِق نے مسٹر میک سے راز و نیاز کرتے ہوئے کہا کہ جناب امریکہ سے آنے والے سائفر کو تو ہم عام آدمی کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں‘ اُسے یہ بتا سکتے ہیں کہ اپوزیشن کی NCMمیں غیرملکی مداخلت پائی جاتی ہے۔
آپ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ NCMسے مراد نیشنل کمیشن فار مائنورٹیز ہے۔ جو ڈیڑھ‘ دو عشرے پہلے ایک گزری حکومت نے تشکیل دیا تھا۔ میں بھی اس کا یہی مطلب نکال لیتا ہوں مگر موجودہ اور اوپر مذکور چِٹ بھجوانے والے نے جلدی میں عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے دائر کی گئی سائفر زدہ نو کانفیڈنس موشن کو NCMلکھا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مجسٹریٹ 164کا بیان لکھ رہا ہو اور وہ MAK‘ IKاور FMکی طرح عدم اعتماد کی موشن کو NCM لکھے۔ جس کا صرف ایک ہی مطلب نکلتا ہے‘ یہی کہ اگر واقعی یہ ٹویٹ کردہ پرچی ہی اعظم خان کا 164کا بیان ہے تو پھر کوئی عدالت 164کے بیان میں ایسی اصطلاحات بالکل نہیں استعمال کر سکتی۔
ڈی سائفر پوائنٹ نمبر8: اسے آپ صدی کا لطیفۂ عالم کہہ لیں‘ یہ ہے پروہت اور پجاری کے فن کا آخری شاہکار یعنی پیراگراف نمبر C۔ آئیے اسے انگریزی زبان میں لفظ بہ لفظ پڑھ کر ڈی سائفر کریں۔
Thereafter, Ik asked MAK to handover the Cypher to him, which he did. (there are instructions and regulations for handing over Cypher to documentation, visible there was a violation here).
پرچی برادران کے بار برداروں نے جسے 164کا بیان کہہ کر مشہور کیا تاکہ عمران خان کا میڈیا ٹرائل ہو سکے۔ میری قارئینِ وکالت نامہ سے درخواست ہے کہ اس بیان کو کسی جاننے والے وکیل کے پاس لے کر ضرور جائیں۔ اور ایک معصوم سا سوال پوچھیں کہ جناب کیا 164کا بیان ان الفاظ‘ اس ترتیب اور اس طریقے سے لکھا جاتا ہے۔ (جاری)