ہم یہاں پہنچے تھے کہ 164کے پروہت اور پجاری ایک اور واردات کر بیٹھے۔ قند ِ مزید کے طور اسے پیش کرتا ہوں۔جس کا ابتدائیہ یہ ہے کہ پاکستان میں پولیس کیس ہو جسے ضابطۂ فوجداری کا چالان کہتے ہیں یا پھر پرائیویٹ استغاثہ زیرِ دفعہ200۔ جُرم چاہے کوئی بھی ہو اس میں پیش کئے جانے والے گواہوں کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔پہلی قسم PWکہلاتی ہے۔ جس سے مراد دیوانی مقدمے میں Plaintiffکا گواہ اور فوجداری مقدمے میں Prosecutionکا گواہ لیا جاتا ہے۔دوسری قسمDWکہی جاتی ہے۔ ایسے گواہ صرف مختلف لوکل‘ سپیشل اور کریمنل قانون کے نیچے بننے والے مقدمات کے دوران‘ جو ملزم یا متہم اپنے دفاع اور دوسری پارٹی کے مقدمے کو ردکرنے کے لیے پیش کرتا ہے۔ یہ گواہ بلانے کے لیے عدالت کو درخواست دی جاتی ہے اور وہ گواہان کی طلبی کے سمن /نوٹس جاری کر کے اُن کا بیان لکھتی ہے۔ DWکی حیثیت سے پیش ہونے والے گواہ پر استغاثہ کے وکیل جرح کرتے ہیں۔ گواہوں کی تیسری قسمCWکہلاتی ہے۔ جس کے معنی ہیں Courtکا گواہ۔ یعنی ایسا گواہ جو کسی شہادت یا سوال کو‘ جس میں کوئی ابہام یاسقم ہے‘ دور کرنے کے لیے عدالت اپنی طرف سے بلاتی ہے۔ عدالتی گواہ پر استغاثہ اور دفاع دونوں طرف کے وکیل جرح کا قانونی حق رکھتے ہیں۔
اگلے روزقاسم کے ابا نے اپنے ایک سابق ملٹری سیکریٹری‘PTIکے اکائونٹس اور فنانس کی کمیٹیوں کے ذمہ داران اور سیکریٹری انفارمیشن رئوف حسن کے نام بطورDW پیش کرنے کا عندیہ دیا۔یہ گواہ بلائے بغیر ہی ''غیر ضروری‘‘قرار دے دیے گئے۔ اب ہر گلی محلے میں ہر روز لوگوں کو کہنا پڑتا ہے کہ کیا ایسا کسی دوسرے ملک میں ہو سکتا ہے؟ بہتر ہے کہ ہم کہیں کیا ایسا کسی دوسرے ملک کے نظام میں‘ کسی دوسرے کو کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔
آئیے! اب چلتے ہیں اُس معصوم سوال کی طرف جو پچھلے وکالت نامہ میں یوں اُٹھایا گیا تھا۔ ''کیا 164کا بیان ان الفاظ‘ اس ترتیب اور اس طریقے سے لکھا جاتا ہے؟ـ‘‘۔ جواب کے لیے ملاحظہ کریں :
ڈی سائفر پوائنٹ نمبر 8: پیراگرافCکہتا ہے کہ مسٹر IKنے مسٹر میک کو کہا کہ اپنا سائفرمیرے حوالے کردو‘ جس پر میک فوراًراضی ہو گیا۔ یہاں فُل سٹاپ لگا کر اعظم خان سے منسوب بیان کا پیراگراف 1بندکر دیا گیا۔جس کے بعد بریکٹ شروع ہوتی ہے۔ بریکٹ کے اندر یہ تحریر لکھی ہوئی ہے ''اس بارے میں انسٹرکشنز موجود ہیں اور ساتھ ساتھ ریگولیشنز بھی پائے جاتے ہیں۔ جن کے ذریعے کرپٹو ڈاکیومنٹیشن کی غرض سے Handing overکی جاتی ہے‘‘۔ 164کے گواہ کا بیان لکھنے کے بعد مجسٹریٹ یہ جملہ بریکٹ کے ذریعے اطلاعِ مزید کے طور پر یہاں کیسے شامل کر سکتا ہے؟ مجسٹریٹ سیکشن 30کی عدالت کا پریذائیڈنگ آفیسر ہوتا ہے۔ کسی فریق کی طرف سے گواہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی سے طرف سے کیس کو مضبوط بنانے کے لیے کسی بیان میں اضافے کرتا پھرے۔
جووکیل حضرات‘ ریڈر‘ سٹینو اور جج صاحبان فوجداری نظام ِ انصاف سے وابستہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ اُوپر بیان کی گئی تین قسموں میں سے کسی گواہ کا بیان انگریزی میں لکھا جائے تو اُس کا لفظ بلفظ اُردو ورنیکیلور کے ذریعے سے ساتھ ساتھ تیار کیا جاتا ہے‘ تا کہ گواہ کے بیان میں ملاوٹ نہ کی جا سکے۔ مگریہ کیسا بیان ہے جس میں گواہ کے ساتھ ساتھ کسی اورکی انگلش پوئٹری بھی شامل ہوتی چلی گئی۔ اس نکتہ سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ سابق وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے منسوب 164کا مبینہ بیان فرمائشی پرچی سے زیادہ کچھ نہیں۔بیان کے اسی پیراگراف میں کمالِ دگر بھی کیا گیا۔ وہ بھی ایک آبزرویشن نمالیگل اوپینین کے ذریعے سے جس کے الفاظ یہ ہیں: ''Visible there was a violation here‘‘ یعنی ظاہر ہو گیا یہاں پہ ایک خلاف ورزی ہوئی ہے۔
ڈی سائفر پوائنٹ نمبر 9: ہمارے دیہاتی سماج کے سیانے کہہ گئے ہیں اِک ناں تے 100 سکھ۔یہاں جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اگر کوئی جھوٹ بولنے سے ایک بار ناں کردے تو وہ100 مرتبہ شرمندہ ہونے سے بچ جائے گا‘ لیکن قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ 164کے پروہت اور پجاری نے اپنا نصیب خود لکھ کر اس شرمندگی کا سیندور اپنے ماتھے پر مل لیا ہے‘۔ دستاویزی طور پر اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ ثبوت کے لیے 164 کے بیان کا پیراگراف نمبر d دیکھتے ہیں۔لکھا ہے MAKکے اعترافِ جرم کے مطابق سائفر کی کاپی مسٹر IKنے اپنے پاس رکھ لی تھی۔ مگر جب اگلے دن‘ یہاں بھی 10مارچ 2022ء بریکٹ میں وضاحت کے لیے لکھا ہوا نظر آرہا ہے‘ مسٹر میک نے مسٹر IKسے یہ پوچھا کہ وہ سائفر مجھے واپس کر دے تو مسٹر IKنے جواب دیا کہ وہ تو کہیں گم ہو گیا ہے۔
ڈی سائفر پوائنٹ نمبر 10:اس دس نمبری پیراگراف کا استقبال کرنے کے لیے خواتین و حضرات پہلے سیٹ بیلٹ باندھ لیجئے کیونکہ یہاں سکرپٹ رائٹر نے ہالی وڈکی کمپنی Metro-Goldwyn-Mayerکے شیر کی طرح اپنا چہرہ خود اس سین میں ایکسپوز کر ڈالاہے۔پیرا گرافdمیں مسٹر میک کا بیان ختم ہونے کے بعد شیرببر کی طرح ان لفظوں میں دھاڑ کر سامنے آگیا۔ مجھے یقین ہے کہ اس دھاڑنے کا ذکر 164کے بیان میں جب آپ خود پڑھیں گے تو آپ کو ان جملوں پر یقین آنے میں کافی وقت لگے گا۔ پیشِ خدمت ہے دس نمبری پہرے کا لفظ بلفظ کلائمیکس:(here may add video clip of Ik where he says he does not know where cypher copy is)۔
یہ عملی طور پراس موضوع سے آگہی کے لیے وکالت نامہ کی سیریز پہلی بار لکھی جارہی ہے۔ بھگت سنگھ سے ذوالفقار علی بھٹوتک اور پھر آج عمران خان کے خلاف 164کے پروہت اور پجاریوں کی یہ تاریخی وارداتیں سنی سنائی کہانیاں نہیں بلکہ ہماری تاریخ کی لکھی ہوئی ڈاکیومینٹری ہے۔ شہادتِ حضرتِ امام حسین ؓکے ماہ محرم میں فرہاد زیدی یاد آتے ہیں جنہوں نے سب زمانوں کے لیے لافانی سوال اُٹھائے۔
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
میرے آئمہ کہ جن کے علم و عمل کی خوشبو مسامِ جاں میں بسی ہوئی ہے
میرے آئمہ کہ آج بھی جن کے پاک قدموں کی پاک مٹی
کروڑوں آنکھوں کی روشنی ہے
انہی آئمہ کی پشت جب ظالموں کے ہاتھوں سے خونچکاں تھی
خلیفۂ وقت کے عقوبت کدوں میں ان کی تمام بستی لہولہاں تھی
تو میں کدھر تھا؟
وہ حق پہ ہیں‘ میں یہ جانتا تھا
امام ہی ان کو مانتا تھا
مگر جب ان پہ عتاب آیا تو میں نے حاکم کا ہاتھ روکا
نہ میں نے جلاد ہی کو ٹوکا
کہ ہر شریف آدمی کی مانند
مجھے بھی اپنی اور اپنے بچوں کی عافیت ہی عزیز تر تھی
مگر یہ سیلاب ٹل گیا تو
زمانہ کروٹ بدل گیا تو
میری عقیدت بھی لوٹ آئی
(جاری )