''امپورٹڈ‘‘ حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی شہباز شریف کا آخری وعدہ بھی وفا ہوگیا۔نواز شریف کی سیاست میں واپسی کی تاریخ 33دسمبر ہی ہوگی۔ یہ کوئی اور نہیں کہہ رہا بلکہ یہ تاریخ خود نواز شریف کے قدم بڑھائو والے ساتھیوں نے اسمبلی کے فلوراور ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر دے رکھی ہے۔ نواز شریف کولندن یاترامیں صرف اتنی ہمت کرنی پڑے گی کہ واپسی کی تاریخ کے لیے عیسوی کیلنڈر میں تھوڑی سی ترمیم کروا لیں۔(ن) لیگ کے قائد نواز شریف نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانامہ والے فیصلے کے نتیجے میں ''مجھے کیوں نکالا‘‘ کی مہم سرکاری خرچے پر جی ٹی روڈ پہ پنڈی سے لاہور تک چلائی تھی۔اب ایک بار پھر وہ 33دسمبر کو واپس آکر ''مجھے پھر کیوں نکالا‘‘مہم کی بقلم خود قیادت کریں گے۔جس کا موقع سپریم کورٹ آف پاکستان کے تازہ فیصلے نے نواز شریف کو ہفتہ کے روز ایک بار پھر فراہم کیا ہے۔
پہلے ذرا پیچھے چلتے ہیں‘ ہفتے کے دن جوفیصلہ سپریم کورٹ سے آیا اُس کا پس منظر جاننے کے لیے۔اس مقدمے کا عنوان ہے سمیع اللہ بلوچ بنام عبدالکریم نوشیروانی‘جسے PLD 2018 (سپریم کورٹ صفحہ 405) پر رپورٹ کیا گیا ہے۔اس مقدمے میں سمیع اللہ بلوچ کی طرف سے میں بطور وکیل سپریم کورٹ میں پیش ہوا جبکہ دوسرے فریقوں کی طرف سے19فاضل وکلا نے مقدمہ لڑا۔مقدمہ بنچ نمبر1میں سپریم کورٹ کے پانچ فاضل جج صاحبان نے سماعت کیا۔ جس میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار‘ جسٹس شیخ عظمت سعید‘ جسٹس عمر عطا بندیال‘ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے۔ یہ کیس قانونی اور عدالتی حلقوں میں تاحیات نااہلی کیس کے نام سے مشہور ہے۔ جو وقتاًفوقتاًدوسال سے زیادہ عرصے تک چلتا رہا۔ آخرکار سمیع اللہ بلوچ کیس میں آئین کے آرٹیکل 62ذیلی آرٹیکلFشق نمبر1 کے تحت نواز شریف‘ جہانگیر خان ترین اور کئی دوسرے لوگوں کی تاحیات نااہلی کی وجہ بن گیا۔نواز شریف اور ہمنوائوں نے اس فیصلے پر 2018ء سے 2022ء تک خوب واویلاکیا۔ عدلیہ پر مسلسل زبانی حملے اور لفظوں کے وار کئے۔ مگرنواز شریف پر تاحیات نااہلی کی تلوار لٹکتی رہی۔ آخرکار شہباز شریف'' امپورٹڈ‘‘ وزیر اعظم کی حیثیت سے رجیم چینج کے ذریعے برسرِ اقتدار آگئے۔ جس نے آتے ہی بڑے بھاء جی کی تاحیات نااہلی کے خاتمے کے لیے لندن پلان کا ہوم سیزن شروع کر دیا۔جس کی کئی قسطیں چلائی گئیں۔ مثال کے طور پر:
نواز شریف نااہلی خاتمہ پلان‘قسط نمبر ایک: شریفانہ وفاقی وزارتِ قانون نے لندن پلان کے تحت برسرِ اقتدار آتے ہی اپنے ہمنوا وکیلوں کے ذریعے سپریم کورٹ میں مختلف آئینی پٹیشنز دائر کروائیں۔ آئین کے آرٹیل 184کی ذیلی شق نمبر3کے تحت دائر ہونے والی ان فرمائشی پٹیشنز میں ریلیف یہ مانگا گیا تھاکہ سپریم کورٹ نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی ختم کرنے کا حکم جاری کرے۔
ان پٹیشنز پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار آفس نے آئین کے آرٹیکل 188کے تحت اعتراضات عائد کر دیئے۔ ان اعتراضات کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ سمیع اللہ بلوچ کے مقدمے کے فائنل فیصلے کو نواز شریف اور جہانگیر ترین کے وکلا نے ریویو پٹیشن کے ذریعے چیلنج کیاتھا۔ جس کو پہلے ہی سپریم کورٹ کا لارجر بنچ میرٹ پر دلائل سُن کر خارج کر چکاہے۔اس طرح نواز شریف کی واپسی کے پہلے سرکاری پلان کی ہوا نکل گئی۔
نواز شریف نااہلی خاتمہ پلان‘قسط نمبر دو:نواز شریف‘ شہباز شریف اور اُن کی ''امپورٹڈ‘‘ کابینہ کا خیال تھا کہ وہ سپریم کورٹ پر الزامات کی بوچھاڑ اور شدید دبائو کے ذریعے سے اپنا مطلب حاصل کر سکتے ہیں مگر سپریم کورٹ میں اُن کی ایک نہ چلی۔ اس لیے نواز شریف واپسی پلان نمبر دوکوپارلیمنٹ میں لانے کا فیصلہ کیا گیا‘ جس کے نتیجے میں ریویو آف ججمنٹس ایکٹ مجریہ سال2023ء پاس کروا لیا گیا۔جسے لوٹوں سے بنائی ہوئی سرکار کے سرکاری بینچوں میں سے کسی نے نہ پڑھا۔ اس حکومت کی اپوزیشن سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ اس لیے یہ بل اپوزیشن کو پڑھنے کے لیے بھجوانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔اس طرح بغیر پہلی اور دوسری خواندگی کے۔ بل سے نابلد اور نا خواندہ ارکا ن نے ایک لمبی ہاں کے ذریعے بل پاس کر ڈالا۔اس اہم مگر سیاسی بل پر بحث کرنا تو دورکی بات ہے کسی ممبر پارلیمنٹ نے چوں کرنے کی بھی ہمت نہیں کی۔
سینیٹ میں اس سے بھی برُی صورتحال تھی۔ جس کے نتیجے میں یہ غیر قانونی بل عمران خان اور دیگر متاثرہ افراد کے ذریعے سپریم کورٹ میں چیلنج ہوگیا۔ جس کی تین شقیں نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے خاتمے کے لیے بنائی گئی تھیں۔پہلی شق کہتی ہے یہ قانون مؤثر بہ ماضی ہوگا۔ مطلب یہ ہواکہ یہ قانون بننے سے پہلے آرٹیکل184(3)کے نیچے جن ہزاروں مقدمات کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے اُنہیں اپیل کے نام پر پھر کھول دیا جائے۔دوسری شق کے مطابق تاحیات نااہلی کو ختم کر دیا گیا اور نااہلی کی معیاد پانچ سال مقرر کر دی گئی۔ جس کی سیدھی وجہ یہ تھی کہ نواز شریف کو پانامہ کیس میں سزا ہوئے پانچ سال پورے ہو چکے ہیں۔ تیسری شق ایک سے زیادہ بار مقدمہ کھولنے کی تھی۔ کیونکہ نواز شریف کیس اور ریویو ججمنٹ‘ دونوں مرحلوں میں سپریم کورٹ سے ہار چکے تھے۔ اس لیے اُنہیں نام نہاد اپیل کا حق دے کر''لُٹو تے پُھٹو‘‘کا ایک اور موقع دینے کی کوشش کی گئی۔سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے نے واضح کر دیا ہے کہ کسی بھی آئینی شق کو ماتحت قانون سازی کے ذریعے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صرف سپریم کورٹ کے فل بینچ کی اپنی رائے ہر گز نہیں تھی بلکہ آئین کے آرٹیکل 238اور 239کے الفاظ بھی یہی ہیں۔
آپ پچھلے ہفتے کی شہبازی سپیڈپر نظر ڈالیں تو آپ کو حیران کن اعدادو شمار دیکھنے کو ملیں گے۔ جس جس نے عمران خان کی سیاست کے خاتمے کا فتویٰ جاری کیا اُسے بغیر کسی ڈپارٹمنل مقابلے‘ انٹرویو یا امتحان کے گریڈ20سے اُوپر کا ہی عہدہ دیا گیا۔ کچھ بے چارے اس دوڑ میں ذرا لیٹ شریک ہوئے۔ اس لیے وہ ٹوکرا‘ٹوکری کی صف سے آگے نہ نکل سکے۔بغیرکوئی بحث کئے اگر میں یہ سارے فتوے مان لوں کہ خان کی سیاست کا دور ختم ہو گیا‘اُس کی اننگز تمام ہوئی‘ وہ اکیلا‘ یکہ و تنہا اور اَن پاپولر ہوگیا ہے‘ تو پھر اتنا تو کہنا بنتا ہے۔ ساری طاقت‘ تمام جبروت‘ نام کا بلیک آئوٹ‘ گرفتاریاں‘چھاپے‘ نہ جلسے کی اجازت‘ نہ ریلی نکالنے کی‘نہ جلوس آسکتا ہے‘ نہ کوئی جھنڈا لگا سکتا ہے۔ 14عدد دیدہ اور بے شمار نادیدہ پارٹیاں مل کر ہمت کریں‘بروقت 90روز کے اندر اندر‘ فیئر‘ فری ٹرانسپیرنٹ الیکشن کروا دیں۔ لگ پتہ جائے گا‘ قاسم کے ابّا کا ''کھمبا‘‘جیتے گا یا کسی دوسرے کا راج آئے گا۔تو پھر ہو جائے ایک فتویٰ فوری الیکشن پر بھی۔