ماسوائے اُن چند درجن کلاکاروں کے جن کا گزارا ''بھاگ لگے رہن‘‘پہ چلتا ہے‘ اس وقت پڑھا لکھا‘ عالم فاضل اور دانشور ہوناکوئی ضروری نہیں۔ بلکہ جس کے پیٹ میں روٹی جاتی ہے‘ جس کے بچے سکول پڑھتے ہیں‘بوڑھے ماں باپ کا علاج جسے چاہیے اورجس کی آنکھیں سبز نہیں‘ اُسے شعور مل چکا ہے اور معلوم ہے کہ پاکستان کس دلدل میں پھنسا دیا گیاہے۔بلکہ اب تو وہ جنہوں نے اچھی خاصی چلتی معیشت‘ ڈبل شفٹ پہ دوڑتی ہوئی انڈسٹری‘ انڈر کنڑول ڈالر اور نچلے طبقات کے لیے سوشل ویلفیئر کے نصف درجن سے زائد پراجیکٹ جاری و ساری عمران خان کی حکومت میں کھلی آنکھوں سے دیکھ رکھے ہیں‘ اُن کوخوب احساس ہے کہ PDMکے 16ماہیا اقتدار کے شوق نے اُن کے بچوں کے منہ سے نوالہ تک چھین لیا۔
اگلے روز مولانا صاحب نے بھی کھلا اعتراف کر لیا کہ ان حالات میں‘ میں ووٹ مانگنے باہر نہیں نکل سکتا۔ ساتھ ہی بقلم خود یہ صفائی پیش کر دی کہ عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے میں نے نہیں بلکہ PPPنے اصرار کیا۔ یہ الزام بھی لگایا کہ اگر PPPمخالفت نہ کرتی تو پنجاب اور KPمیں طے شدہ آئینی عرصے کے اندر اندر الیکشن منعقد ہو جاتے۔مولانا کے باقی بیان جانیں اور PPPکے گرو گھنٹال جانیں‘ مگر مولانا کی اس پیشگوئی گلگت کو بلتستان اسمبلی کے ایک حلقہ‘ استور میں انتخابی نتیجے نے ثابت کر دیا کہ مولانا واقعی ووٹ مانگنے کے لیے باہر نکلنے کے قابل نہیں رہے۔مگراسی حوالے سے اب بھی 20‘30ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں مولانا رجیم چینج کا کریڈٹ چھاتی پھلا کر لے رہے ہیں۔ PTIحکومت کے پہلے سال میں مولانا پلسPDMکا باوردی دھرنا کسے یاد نہیں‘ جس میں عمران خان کو تین دن دئیے گئے تھے۔ تین دن کا الٹی میٹم ان الفاظ میں اور ان تین جملوں میں دیا گیا تھا: پہلا یہ کہ تین دن کے اندر اندر کرسی سے نیچے اُترو۔ دوسرے نمبر پر وزارتِ عظمیٰ سے استعفیٰ دو اور تیسرا‘ اقتدارہمارے حوالے کردو ورنہ ہم تمہیں گھسیٹ کر وزیر اعظم ہائوس سے اُٹھا کے باہر پھینک دیں گے۔
پھر رجیم چینج کا کرنا ایسا ہوا کہ عمران خان اقتدار سے باہر کر دیئے گئے۔گزرے ہوئے16ماہ میں پاکستان اور اس کے عوام کے مسائل سائز میں K2‘نانگا پربت اورہمالیہ سے بھی بڑے ہو چکے ہیں۔مگر اکمل الکمال یہ ہے کہ ہمارے منیجرزسرے سے یہ بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ پاکستان یا عوام کو کوئی مسئلہ درپیش ہے۔کرسیوں پر بیٹھے ہوئے نگران 90دن کے مہمان کے طور پر آئے تھے‘جو اَب حکمران کی زبان بولنا شروع ہو گئے ہیں۔AJKوالے منیجر نے صاف کہا کہ یہاں صرف موت سستی مل سکتی ہے‘ بجلی سستی نہیں مل سکتی۔ہمارے کولیگ سینیٹر کاکڑ بولے :بجلی مہنگی ہے‘ لوگ بل نہیں دے سکتے تو پھر کیا ہوا۔اس نفسیاتی بیماری کو راج نیتی کی زبان میں Self Denialکہتے ہیں۔رومن ایمپائر کے شہنشاہ Neero Cladius Caeser Drususکو بھی یہی بیماری تھی۔ وہ 14سال برسرِ اقتدار رہا مگر جب روم جل رہا تھا تو نیرو کو تب بھی سب اچھا نظر آتارہا۔ اسی لیے لوگ آگ کے شعلوں میں جلتے رہے اور نیرو بانسری پھونکتا چلا گیا۔
آئیے قومی مسائل سے انکار کی اس خطرناک وباسے باہر نکل کر اعتراف کریں کہ مسائل تو ہیں۔ بدقسمتی پاکستانی قوم کا مقدر نہیں‘ نہ ہی قدرت ہم پر ناراض ہے‘ یہ مسائل گناہگار ہونے کا عذاب بھی نہیں بلکہ سارے دلدّر Man-Madeہیں اور ان مسائل کو ہم نے ہی حل کرنا ہے۔یہاں تین Coreمسائل کی نشاندہی ضروری ہے۔
پہلا مسئلہ‘ قوتِ اخوتِ عوام کی گمشدگی: اس وقت راج دربار میں جو راگ درباری گایا جا رہا ہے وہ طاقت کی پرستش کے سوا کچھ اور نہیں۔ قوم کو مسلسل یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ ملک کچھ غیر ملکی اداروں کے باقاعدہ ملازم چلا سکتے ہیں۔ یا پھر ملک کچھ اداروں کے پارٹ ٹائم ملازم اسے چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔آسان لفظوں میں کبھی اس نعرے کو صدارتی نظام کی تھیم میں پیش کیا جاتا ہے کبھی اسے ٹیکنو کریٹ کی چولی پہنا کر رنگِ محفل جمانے کی ناکام کوشش ہوتی ہے۔ نہ یہ نعرہ نیا ہے‘ نہ یہ تجربہ جدید۔ شہید ِ ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد 1952ء سے لے کر1971ء تک مسلسل ون مین رُول اور ٹیکنو کریٹس کے تجربات ہوئے۔ جن کے حاصل وصول نے خوش حال سرزمین کو بدحال کر کے رکھ دیاگیا۔ پھر1977ء تا 1988ء ٹیکنو کریٹس کی حکومت رہی جبکہ راج کرنے والا صرف اکیلا ایک ہی آدمی تھا۔ اُس کے جانے کے بعد‘اُسی کی باقیات اقتدار میں لائی گئیں۔ وہی اتالیق‘ وہی بندگانِ شکم‘ وہی غیر منتخب پارلیمنٹ جس کا لیڈر ٹیکنو کریٹ تھا‘ یعنی بزنس مین۔12اکتوبر 1999ء کو ساڑھے نوسال کے لیے پھر تازہ دم ٹیکنو کریٹس آگئے۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ جو خزانہ 1984ء میں ایک ٹیکنو کریٹ نے نواز شریف کے حوالے کیا تھا وہ خزانہ سال 2023ء کے اگست تک چھوٹے سے وقفے کے علاوہ نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار کے زیرتصرف رہا۔ المیہ یہ ہے کہ وہی دونوں کہہ رہے ہیں ہمیں ایک موقع اور دے دو‘ جسے Level playing feildکے نام پر قوتِ اخوت ِعوام کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ آج عوام کی شنوائی والاکوئی ایوان باقی نہیں‘ نہ ہی عوام کو اپنی طاقت دکھانے کے لیے آزادانہ جلسے جلوس یا ریلی اور کوریج کی اجازت ہے۔سب سے پاپولر لیڈر کے لیے بلیک آئوٹ ہے۔ اس کے باوجود GBاسمبلی کے الیکشن میں حلقہ استور کے عوام نے قوتِ اخوتِ عوام کا مظاہرہ پرچی کے ذریعے کر دکھایا۔صرف 24گھنٹے پہلے۔ہم واحد قوم ہیں جس کے پاس آپس میں ڈائیلاگ کرنے کا کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں۔
دوسرا مسئلہ پاکستان کی عالمی تنہائی: باقی جانے دیجئے‘ابھی چند گھنٹے پہلے ہی20 عالمی معاشی طاقتوں کا گرینڈ اجلاس بھارت میں منعقد ہوا جہاں CPECکو پیچھے چھوڑ کر مڈل ایسٹ اور یورپ کے ملکوں نے نیا عالمی معاشی کوریڈور بنانے کا اعلان کیا‘ جسے پانی‘ ریل‘ہوائوں اور شاہرائوں کے راستے بھارت‘ دبئی اور سعودی عرب کے ذریعے مشرقی یورپ تک پہنچایا جائے گا۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ہم ایک کامیاب جمہوریت اور معیشت کی عالمی دوڑ میں شریک بھی ہیں۔عملی طور پر ہمارا مقابلہ کرنسی سے لے کر آٹا‘چینی تک افغانستان سے بھی نہیں ہو پا رہا۔دو ہفتے پہلے سپریم کورٹ کے بنچ نمبر1میں KPکا ایک مقدمہ لڑنے گیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال میری بحث کے بعد فرمانے لگے‘ پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر Transitionسے گزر رہا ہے۔ میں نے کہا: احترام اپنی جگہ‘ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ ہمارا اصل مسئلہ Self Denial کامرضِ مسلسل ہے۔(جاری)