سال تھا 2017ء‘ تاریخ 21 نومبر۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنے پر آئین کے آرٹیکل 184(3) کے نیچے Suo Moto نوٹس لیا۔ اس دھرنے کے مشہور زمانہ کیس کو سال 2019ء میں Suo Moto کے تقریباً دو سال بعد PLD میں CMC نمبر سات آف 2017 صفحہ نمبر318 پر رپورٹ کر دیا۔ فیض آباد دھرنا کیس چلتا رہا جس کی فائنل سماعت چھ فروری 2019ء کو ہوئی۔
فیض آباد دھرنا کیس اہمیت کا اندازہ اس کیس کے اندر دائر ہونے والی نصف درجن کے قریب ریویو پٹیشنزسے لگایا جا سکتا ہے جس کے درخواست گزاروں میں سیاسی شخصیات؍ پارٹیاں‘ مختلف حکومتی ادارے اور انٹیلی ایجنسیاں شامل ہیں۔ اس لیے سپریم کورٹ کی جانب سے نظر ثانی کی درخواستوں کو فِکس کرنے کے بعد سے ملک کے قانونی اور سیاسی حلقوں میں زبردست بحث شروع ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے عہدے کا چارج لینے کے ساتھ ہی پہلے ہفتے کی کاز لسٹ میں فیض آباد دھرنا کیس 28 ستمبر سماعت کے لیے فُل بنچ کے روبرو لگا دیا ہے، جس کو وہ خود ہی ہیڈ بھی کریں گے۔ بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ فیض آباد دھرنا کا مقدمہ اصل میں ہے کیا؟ ساتھ ہی بہت سے لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ یہ مقدمہ آگے بڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر مقدمہ پوری طرح سے چلتا ہے تو اس کی سمت کیا ہو سکتی ہے؟
فیض آباد دھرنا کیس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی کرسی پر تین عدد جسٹس آئے۔ قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں آئین پاکستان کے آرٹیکل 188 کی رُو سے 30 دن کے اندر ہی سپریم کورٹ میں دائر ہو گئی تھیں۔ مگر ان سابق چیف جسٹس‘ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار‘ مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ‘ مسٹر جسٹس گلزار احمد اور مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال نے ان ریویو پٹیشنز سے مٹی بھی نہ جھاڑی۔
قارئینِ وکالت نامہ کی آسانی کے لیے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کو تین حصوں میں تقسیم کر کے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
فیض آباد دھرناSuo Moto کیس کا پہلا حصہ: PLD میں رپورٹ شدہ کیس کے صفحہ نمبر318 پر جسٹس ریٹائرڈ مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کے آرٹیکل 9‘ آرٹیکل 10-A‘ آرٹیکل 14(1)‘ آرٹیکل 18‘ آرٹیکل 23 اور آرٹیکل 25-A کو بنیاد بنا کر اس دھرنے اور اُس کے نتائج کے بارے میں فیصلہ صادر کیا جس میں کہا گیا کہ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے حامیوں نے ایک ایسی شاہراہ کے جنکشن اور انٹرچینج پر قبضہ کیا جو ملک کے دارالحکومت کو باقی حصوں سے ملاتی ہے۔ اس طرح لاک ڈائون شروع ہوا۔ سنگباری کی گئی‘ گاڑیاں جلیں اور اُنہیں نقصان پہنچایا گیا‘ پبلک پراپرٹی سمیت ڈاکٹرز‘ ٹیچرز کے راستے بند ہوئے، جو آئین کے آرٹیکل 9 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ کے دورکنی بنچ نے مزید لکھا کہ سکول کے بچے تعلیمی اداروں تک نہ پہنچ سکے، اس لیے لمبے عرصے تک آرٹیکل 15 اور آرٹیکل 25-A میں دیے گئے بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہو تی رہی۔ اس مقدمے کا ایک اور اہم پہلو بھی صفحہ نمبر 318 میں درج ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عام آدمی کے حق میں فیئر ٹرائل‘ انصاف تک رسائی اور Due Process کو روکا گیا کیونکہ لوگوں کے لیے راستے بند تھے۔ دکانیں اور بزنس طاقت سے بند کرائے گئے‘ چھوٹے کاریگر اور ڈیلی ویجز کو باعزت جینے اور حصول روزگار کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی جو آرٹیکل 10-A اور 14(1) کی خلاف ورزی ہے۔
فیض آباد دھرنا Suo Moto کیس کا دوسرا حصہ: اس اہم oto Suo M مقدمے کا اگلا حصہ رپور ٹ شدہ کیس کے صفحہ 353 اور 354 پر درج ہے‘ جس کے مطابق ہر شہری اور ہر سیاسی جماعت کو احتجاج کرنے کا آئینی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اس حق کے استعمال کرتے وقت‘ دوسرے شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر کرنے کی اجازت نہ ہو گی۔ اس مرحلے پر ہدایا ت کی شکل میں سپریم کورٹ نے 12 پوائنٹس ایسے اُٹھائے جن کو نافذ کرنے کے لیے ڈائریکشن بھی جاری کر دی گئیں۔ ایک ہدایت سرکار کو دی گئی کہ وہ شہریوں کو پُرامن احتجاج کا حق دے۔ دوسری ہدایت یہ جاری ہوئی کہ جن افراد نے جائیدادوں یا گاڑیوں کو نقصان پہنچایا یا جلایا‘ اُن کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ایک سخت ہدایت الیکشن کمیشن کے حوالے سے یہ دی گئی کہ وہ پولیٹکل پارٹیز کے حوالے سے قوانین کو Cosmetic نہ سمجھے اور اپنی ذمہ داریاں قانون کے تحت مؤثر طریقے سے ادا کرے۔ اسی ضمن میں فیض آباد دھرنا کیس میں یہ ڈائریکشن بھی دی گئی کہ تمام تر سیاسی جماعتیں اپنی فنڈنگ کے حوالے سے جواب دہی کریں۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور قانون ہر ایک پر بے لاگ طریقے سے لاگو ہونا چاہیے۔
یہاں یہ کہنا ضروری ہو گا کہ ساڑھے تین سو سے زائد رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں سے الیکشن کمیشن نے صرف پاکستان تحریکِ انصاف کو مسلسل نشانہ بنا رکھا ہے۔ باقی کسی بھی سیاسی جماعت کی فنڈنگ کا 2019ء سے لے کر 2023ء تک اور اس سے پہلے بھی الیکشن کمیشن نے کبھی فیصلہ نہیں کیا۔
فیض آباد دھرناSuo Moto کیس کا تیسرا حصہ: اب چلتے ہیں اس مقدمے کے اُس حصے کی طرف جو سپریم کورٹ کی ڈائریکشن نمبر 6 سے شروع ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ان الفاظ میں حکم جاری کیا: The State must always act impartially and fairly۔ جس کا سادہ مطلب یہ ہوا کہ ریاست ماں بن کر دکھائے۔ ہر قسم کے حالات میں پارٹی بازی اور دھڑے بندی اور غصے سے دُور رہے۔
ریاست ہمیشہ اپنے شہریوں سے شفاف اور رنجش سے پاک سلوک کرے۔ فیض آباد دھرنا کیس کا Spectrum اتنا بڑا ہے جس میں ایگزیکٹو‘ مذہبیات‘ سیاسیات‘ گورننس‘ سویلین ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں‘ سب کے بارے میں سپریم کورٹ نے احکامات جاری کر رکھے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کو آئین کے آرٹیکل 187(2) کے تحت یہ قطعی اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر یا خود عملدرآمد کرائے یا کسی بھی ہائیکورٹ کو عملدرآمد کا ذمہ دار بنا ڈالے۔ 28 ستمبر سے پہلے اس کیس کے ممکنہ راستے بھی لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ حکومت سمیت تمام سائل اپنی ریویو پٹیشنز واپس لے لیں۔ دوسرا یہ ہے کہ سپریم کورٹ آگے بڑھ کر اداروں سے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کی رپورٹ طلب کرے۔ تیسرا یہ کہ ابھی تک ان احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے کی پاداش میں آرٹیکل 204 کے تحت کارروائی شروع کرے۔ سپریم کورٹ کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ کوئی مقدمہ‘ جو عوامی نوعیت کا ہو‘ اسے کسی فریق کی جانب سے واپس لیے جانے کے بعد بھی کارروائی جاری رکھ سکتی ہے۔