وہ کالم نہیں ریاست کے منیجرز کے لیے مشورہ تھا۔ ایسا مشورہ جو گہرائی میں جانے کے بعد کاؤسلنگ کے لیے دیا جاتا ہے۔پوائنٹ سکورنگ یا شکم پُری کے لیے نہیں۔خانہ پُری کا لفظ اس لیے نہیں استعمال کیا کہ اب کوئی خانہ غصے اوراَناسے خالی نہیں رہا۔یہ دونوں وکالت نامے ستمبر 2023ء میں اسی صفحے پر لکھے گئے۔عنوان تھاLet's Come Out of Self Denial۔ تب تازہ شروع ہونے والی مڈل ایسٹرن گریٹ گیم کے بار ے میں امریکن Think Tankتو بول رہے تھے مگر اپنے ہاں یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ نہ کسی کو ایشیا کے وسط میں اسلحے کے انباروں سے لدے ہوئے USA Carrier Fleetچوبیس گھنٹے کے اندر پہنچنے یا پھر محض چھ دن کے عرصے میں مقبوضہ فلسطین کی غزہ والی پٹی پر ہزاروں ٹن آتش و آہن پھینکے جانے کی کوئی خبر تھی۔پھر ایک اور اہم واقعہ اس سے پہلے ہوا۔ اُس طرف بھی ہماری توجہ نہ گئی۔ہمارامزاج صرف غرور اور تکبر کا مکسچر نہیں بلکہ اس میں جھوٹی اَنائوں کے K2‘راکا پوشی اور ہمالیہ پہاڑ بھی شامل ہیں۔ آپ کسی بھی قومی ادارے کو دیکھ لیں۔ جس کے پاس کوئی نہ کوئی ریاستی ذمہ داری ہے۔وہاں آپ کو غصے کا راج ملے گا۔ ہر کوئی ناراض ہے لیکن یہ نہیں بتا سکتا کہ کس پرکیوں ناراض ہے اور اس ناراضی کی وجہ کیا ہے۔محکوم اور مجبور فلسطینیوں نے جو سو فیصد ظالم‘ غاصب اور قابض افواج کے محاصرے میں ہیں‘ بلکہ اُن کے پاس نہ اپنا پانی ہے‘ نہ اپنی بجلی‘ نہ ہوائی جہاز‘ نہ ایئرپورٹ‘ نہ ریلوے۔غزہ کی پٹی پر 9عدد فوجی اڈے موجود ہیں جن میں سے 8اسرائیلی قابض فوج کے ہیں‘ جن کو IMFکہا جاتا ہے۔صرف غزہ کا ایک راستہ جمہوریہ مصر کے ساتھ ملتا ہے۔ان حالات میں الاقصیٰ کی آزادی کے جاں بازوں نے تقریباًخالی ہاتھ ہونے کے باوجود 6دن سے نہ جوابی حملے بند کیے اور نہ ہی سرنڈر کے لیے ہاتھ کھڑے کیے حالانکہ وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل کی تین لاکھ فوج دنیا کی آخری وار ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر غزہ کی پٹی میں داخل ہونے کے لیے کھڑی ہے۔ مغربی انسانی حقوق کی تنظیموں او راقوامِ متحدہ سمیت سب کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی پر 2.3 ملین کی فلسطینی آبادی میں ایک ملین سے زیادہ بچے موجود ہیں۔ فلسطینیوں کے خلاف ابتدائی المیہ صہیونی ریاست کے قیام کے بعد شروع ہوا۔سرزمین فلسطین پر تب سے اب تک اس قدر بڑی تعداد میں المیے ہو چکے ہیں کہ جن کا شمار ہی نہیں کیا جاسکتا۔
کہا جاتا ہے کہ امریکہ بہادر کا ایک ریکونو سینس (Reconnaissance) کرنے والا بڑا جہاز ATOMکہلاتا ہے‘ جس نے پچھلے دنوں پاکستان کی سمندری حدود کے قریب سے ہوکر مشرقِ وسطیٰ اور ایرانی ہرمزکے اوپر نام نہاد مطالعاتی اُڑان بھری۔ بتایا جاتا ہے یہ جہاز ہر طرح کے ایٹمی دھماکوں سے بچے کچھے کوڑا کرکٹ کا سراغ لگانے کامشن رکھتا ہے۔یہ حقیقت بھی نہیں جھٹلائی جا سکتی کہ Bidenایڈمنسٹریشن آنے کے بعد سے اسرائیل ایران کو سبق سکھانے کے مسلسل اعلانات کرتا آیاہے۔
پوری احتیاط کے ساتھ یہ مختصر منظر نامہ سامنے لانے کا مقصد یہ ہے کہ کیا فلسطینیوں پر اسرائیل کے بے رحمانہ قبضے اور تازہ تباہ کن حملے کے اثرات غزہ کی پٹی تک محدود رہ سکتے ہیں یا اس آگ کی گرمی پورے ریجن میں پھیلے گی؟پاکستان ڈکلیئرڈ شدہ ایٹمی ریاست‘ دنیا کی چھٹی بڑی فوج‘ بلیسٹک ٹیکنالوجی اور سٹریٹیجک طور پر اہم ترین ملک ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ حساس علاقائی طاقت ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس اور یورپ کے اکثر ممالک تقریباًایک ہفتے سے جس طرح فلسطینی مسلمان عورتوں‘ بچوں اور شہریوں کو دہشت گردی کا بہانہ بنا کر کچلنے کے جواز در جوازفلسطین اسرائیل تنازع کے پیٹ میں سے برآمد کر رہے ہیں اسے گریٹر گیم کا اشارہ نہیں بلکہ باقاعدہ الرٹ سمجھنا چاہیے۔دعا کرتے ہیں‘ فرض بھی کر لیتے ہیں اس تنازع کو آگے بڑھانے والے مڈل ایسٹ تک رُک جائیں گے۔ نہ پرشین گلف سے آگے بڑھیں گے نہ ہی کوئی گرم ہوا پاکستان کی طرف آئے گی۔اس کے باوجود کیا یہ دیکھنا ضروری نہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اپنے پائوں پہ کھڑے ہیں یا بیرونی قرضوں کے پھٹے کے سہارے؟ کیا معاشی ریٹرن ہوگیا؟ کیا سیاسی استحکام آگیا؟ کیا قومی ہیجان کا علاج دریافت کر لیا گیا؟ کیا لوگوں کو اپنا مستقبل محفوظ نظر آتا ہے؟کیا دنیا پاکستان کو ایک مستحکم اور جاندار سوسائٹی کی حیثیت سے دیکھتی ہے؟ اگر کسی کا جواب ہاں میں ہے‘تو وہ موج لگائے۔آپ اپنے گھر سے‘ محلے سے‘ گلی سے‘ گائوں سے‘ گوٹھ سے‘ شہر سے باہر نہ نکلیں۔ کیا کوئی ایسا بھی آپ کو ملے گا جو موجودہ صورتحال سے مطمئن اور خوش وخرم ہو؟ ایسا یقینانہیں ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ ہماری آنکھیں غصے کی آگ اور اَنا کے دھویں نے بند کر رکھی ہیں۔ ہماری سانس گھٹ رہی ہے۔ اس کے باوجود ہم عوام کے دیدے سبز کر کے خزاں کے موسم سے بچنا چاہتے ہیں۔ ہم بدقسمتی سے ایسا سماج ہیں جس میں بادشاہ ہی صرف ننگا نہیں ہے۔ہم اور کتنی دیراجتماعی سنسرشپ کے گملے سے آزادی سے اور بے باکی کے پھول کھلائیں گے۔ مجھ سے پوچھئے تو وطنِ عزیز اپنی عمر کے سب سے اُلجھے ہوئے دور سے گزر رہا ہے۔اجتماعی مایوسی کا دور۔
ابھی وقت ہے کہ ہم لو ٹ آئیں۔ اَنا اور غصے کے پہاڑ سے نیچے اُتر کر بیٹھ جائیں۔ ٹھنڈے دل سے زمین پر موجود کھلی حقیقتوں کا سامنا کریں۔ کم از کم ان تین کھلی حقیقتوں کا۔
پہلی کھلی حقیقت آپ بیشک کوششوں کو پُر خلوص کہہ لیں مگر یہ سچ ہے کہ پاکستان کی معیشت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ہر روزایک ارب سے زیادہ قرض لینے والی قوم کے منیجرز معیشت کو سرکاری بجلی والے ایئرکنڈیشنڈ بنگلوں سے باہر نکل کر دیکھیں۔ کس شعبے میں کوئی پیداواری صلاحیت باقی رہ گئی ہے؟ کس صوبے میں خود انحصاری کے ذریعے لوگ صرف کھانے پینے کی خریداری کرکے زندگی گزار سکتے ہیں؟کس فیلڈمیں ہم خطے کے کس ملک سے معاشی طور پر مقابلہ کر سکتے ہیں؟اگر نہیں اور یقینانہیں تو ہمیں نشاندہی کرنی پڑے گی کہ بنیادی غلطی کہاں ہے۔
چلئے میں نشاندہی کرتا ہوں۔ بار بار استعمال شدہ‘ تھکے ماندہ ٹیکنو کریٹ منیجرز جن کی عوام میں رسائی ہے نہ پذیرائی‘قوم انہیں اپنا نجات دہندہ نہیں سمجھتی۔سچے اور سُچے انتخابی عمل اور اُس کے نتائج منہ کا ذائقہ بدلنے کیلئے پہلی بار صاف‘ شفاف اور ہر طرح کی مداخلت کے بغیر ہو جائیں تو قوم ملک اور سلطنت بچانے کیلئے یکجا ہو سکتی ہے۔ دوسری کھلی حقیقت یہ ہے کہ ہمیں سب کیلئے گفتگو کے راستے کھولنے چاہئیں۔ واہگہ بارڈر کے مشرق میں سے ہم پر پانچ بڑے حملے ہوئے۔ آدھا ملک گنوا دیا‘پھر بھی اوپن ڈور بیک ڈور بات چیت چلتی رہتی ہے۔ ملک کے اندر خطاکار اور فرشتے کی تقسیم کیوں؟ تیسری حقیقت ہے فرد ہو‘ سماج یا سلطنت‘ ہم صرف اپنے دور کے لوگوں کے ساتھ ہی جی سکتے ہیں۔ نہ اپنے سے پہلے نہ ہمارے بعد کے دور کے ساتھ آج کا سماج جی سکتا ہے۔کیا 24 کروڑ سے زیادہ ذہن بنجر ہوگئے؟ کیا تیس پچاس لوگ چھوڑ کر‘ باقی اس قابل نہیں کہ ریاست چلا سکیں؟
ناراض سماج‘ تھکے ماندہ منیجرز اور گریٹ گیم‘ تین نہیں بلکہ ایک ہی چیلنج ہے۔ جس سے صرف ہم اجتماعی شعور کی طاقت سے نکل سکتے ہیں۔