"SBA" (space) message & send to 7575

لو پھر سنبھالو! غبارے پھوڑنے والی بندوق

یہ علی کی ضد تھی۔ساتھ ساتھ مقتدرہ کی بھی‘ میرا مطلب ہے علی کے سکول کی مقتدرہ۔چنانچہ مجھے جانا پڑ گیا۔ جو خواتین و حضرات جینون نانی یا ناناہیں اُن کو اچھی طرح سے پتا ہے کہ نواسی‘ نواسے کی ضد کے آگے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ضد سے یاد آیا ہمارے پنڈی بوائے نے چالیس روزہ چلّہ کاٹنے کے بعد انکشاف کیا کہ عمران خان ایک ضدی سیاستدان ہیں۔ پنڈی بوائے نے چلّے کے آغاز سے دو دن پہلے مجھے کال کی۔اُن کی کال ہمیشہ شکوے سے شروع ہوتی ہے۔ اُس روز بھی کہنے لگے: سر جی آپ بار بار بھول جاتے ہیں میں نے اپنا سیاسی کیر یئر اور آپ نے اپنا وکالتی کیر یئر اکٹھے شروع کیا تھا۔ آپ کا دفتر اقبال روڈ کے کونے پہ تھا اور میری لال حویلی بوہڑ بازار کے دوسرے کونے پر۔ پھر اُنہوں نے طویل قانونی مشورے مانگے اور ساتھ ساتھ کسی کو کہتے رہے ''لکھ ائوے تیز لِکھ‘‘۔ بعد اَز چلّہ ٹی وی انٹرویو میں بھی پنڈی بوائے نے ساری لکھی ہوئی پرچیوں کا پلندہ ٹی وی کیمرے کے سامنے رکھ دیا۔ آپ اسے پنڈی بوائے کی کامیاب آبرو مندانہ‘ ایگزٹ سٹریٹجی کہہ سکتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی غبارے پھوڑنے والی بندوق کی‘درمیان میں ایک پنڈی وال کا ذکر آگیا۔ نواز شریف کو تیسری دفعہ رات کی فرمائشی تقریر کے بعد اقتدار ملا تو وزارتِ داخلہ کا قلمدان ایک اور پنڈی وال کے حصے میں آیا۔ جو میرے سسرالی علاقے سے ہیں اور ہر طرح کے حالات میں ہمارا تعلقِ خاطر چلتا رہتا ہے۔یہ نواز شریف کی 2013ء والی تیسری رونمائی کا ڈی ڈے تھا۔صبح نواز کابینہ کے وفاقی وزیروں نے حلف لیا۔میں تب سپریم کورٹ میں تھا۔مارگلہ روڈ سے لاء آفس واپس آتے ہوئے میرے منشی شبیر کے فون پر کال آئی۔ بتایا گیا‘وزیر داخلہ مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔دوسری جانب چوہدری نثار تھے۔ ہماری علیک سلیک سواں ویلی کے پوٹھوہاری لہجے میں ہمیشہ بھائی صاحب کہہ کے شروع ہوتی ہے۔ باقی جو گفتگو ہوئی وہ پرائیویٹ ہے۔ ایک جملہ یہ تھا: Watch your Back۔ نواز شریف نے اقتدار میں آتے ہی جدہ اور لندن والے رنگ‘ نالہ لئی میں اتارے اور اپنا اصل روپ دکھانا شروع کر دیا۔
اُن دنوں ایک بار پھر مجھے وزارتِ داخلہ سے کال آئی دوسری جانب بھائی صاحب تھے۔ کہنے لگے: کل آپ میرے ساتھ دن کا کھانا کھا سکتے ہیں؟ میں نے پوچھا: کہاں ؟بتایا:پنجاب ہائوس میں شہباز شریف والے بلاک میں۔ ہم نے زور دار قہقہہ لگایا‘ جس پر چوہدری نثار علی خان نے کہا :ون آن ون۔ اگلے دن میں پنجاب ہائو س کے چیف منسٹر بلا ک میں پہنچا‘ پہلے کچھ دیر نجی گپ شپ ہوتی رہی۔ اس دوران وزیر داخلہ کے باوردی اہلکار اندر آئے اور بتایا سر لنچ ٹیبل تیار ہے۔باقی کی گفتگوپھر آف دی ریکارڈ رکھتا ہوں۔چوہدری نثار نے کہا کہ یہ لنچ میں نے پارٹی کے کہنے پر رکھا ہے۔ وہ چاہتے ہیں آپ یا ہمارے ساتھ آجائیں یا الیکشن سے پہلے عمران خان کو نہ جوائن کریں۔
اس سے پہلے اُنہوں نے اپنے تحریری استعفے کی تفصیل بتائی۔ ساتھ یہ بھی بتایا کہ کل سات بڑے وفاقی وزیر جرگہ آئے تھے کہ میں استعفیٰ نہ دوں۔ اووَل طرز کے لنچ ٹیبل پر ہم دونوں کے درمیان گھنے پھولوں کالمبا گلدستہ سجا ہوا تھا۔ گفتگو شروع ہوئی آفر کی تفصیل میں‘ میں نہیں جاتا۔ ایک جملہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔میں نے کہا: تھوڑی دیر کے لیے فرض کریں آپ بابر اعوان ہیں اور میں چوہدری نثار۔ یہی ڈیل میں آپ کو آفر کرتا ہوں‘ آپ کا جواب کیا ہوگا؟چوہدری نثار علی خان بے ساختہ ہنسنا شروع ہو گئے‘ کہنے لگے: بھائی صاحب مروائو گے۔ ساتھ اشارہ ہم دونوں کے درمیان لگے ٹیبل والے گلدستے کی طرف کر دیا۔ پھر سنجیدگی سے میرے سوال کا یوںجواب دیا '' میں ڈیل قبول نہیں کروں گا‘‘۔ میں نے اس جواب پر اُن کا شکریہ ادا کیا‘کھانا کھایا اور وہ مجھے گاڑی تک چھوڑ کر واپس چل دیئے۔ سنا ہے 7 میں سے 2 وہی والے وزیر پھر اُنہیں چکری ملنے گئے تھے۔
جس طرح کہتے ہیں یادوں کی بارات یا نرسری قیادت کی چوتھی واپسی کی بارات۔اسی طرح میرے ذہن میں نجانے کیوں ملاقاتوں کی بارات دَر آئی ہے۔یہ ملاقات تب ہوئی جب آصف زرداری ملک کے صدر تھے‘ میں وزیرِ قانون۔میں نے مسعود چشتی کے ساتھ بورے والا بارجانا تھا۔ صدرنے فون کیا‘اپنا پروگرام تبدیل کر کے گورنر ہائوس سلمان کے پاس پہنچوں۔ یہاں سے ہم ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے اور لاہور والی جاتی عمرہ میں اترے۔باقی تفصیلات چھوڑتا ہوں۔جاتی عمرہ میں نواز شریف کے ڈائننگ ٹیبل پر ایک طرف اُن کی ٹیم جبکہ دوسری جانب صدر کے ساتھ میری نشست تھی۔اس میز پر گفتگو کم کم تھی بس کھانے ہی کھانے تھے۔ اتنے اور ایسے ایسے جو پورا لاہور عید پر بھی مل کر اکٹھے نہیں کر سکتا۔صدر آصف زرداری نے ایک ڈش کی طرف اشارہ کیا اور میرے کان میں کہا :چکھ کر بتائو اس کاTasteکیا ہے۔ میں نے جواب دیا جو وزیر آپ کی دائیں طرف بیٹھا ہے اُسے کہو چکّھے۔ وہ ہم دونوں سے کافی بڑا ہے‘ It is too early for me۔ باقی گفتگو چھوڑ کر ایک تاریخ ساز ڈائیلاگ آپ سے شیئر کرنا مناسب ہے۔ کھانے کے دوران میاں نواز شریف صاحب نے مجھے کہا: بابر اعوان صاحب! آصف صاحب آپ کی سنتے ہیں۔ان کومشورہ دیں آئیں مل کر ہم 6/7کو'' ٹنگ‘‘ دیں۔ ہمارا مسئلہ ورنہ کبھی حل نہیں ہو سکتا۔ صدر نے یہ سُن کر حیرانگی سے میری طرف دیکھا۔ میں نے آدابِ مہمانی کو سامنے رکھتے ہوئے لائٹر نوٹ پر جواب دیا: میں وکیل ہوں‘کسی کولٹکانا ہمارا کام نہیں۔تیسری باری پر نواز شریف کی وِش لسٹ میں سے ایک اُنہوں نے ٹانگنے کی پوری کوشش کی۔ مگر ٹانگنا نہ ٹانگنا قدرت کا کھیل ہے سیاست کا نہیں۔
اگلے روز معیشت اور سیاست کے غبارے پھوڑنے والی بندوق کی چھٹی لانچنگ ہوئیAJK‘GB‘تین صوبوں اور مرکز کی سرکاروں نے ریڈ کارپٹ پر اسے بزوکہ بنانے کی سر توڑ کوشش کی۔ پنجاب کے لوگوں کو 1984ء سے لے کر 2023ء کے 16ماہ تک زبانی یاد ہیں۔ویسے ہی جیسے نواز شریف کے سیاسی موجد و مرشد کے ریفرنڈم پہ حبیب جالب کا یہ شعریاد ہے ؎
کچھ مایوس سے چہرے تھے‘ سچائی کا ماتم تھا
شہر میں ہُو کا عالم تھا‘ جِنّ تھا یا ریفرنڈم تھا
نواز شریف نے جو لکھا ہُوا پرچیوں سے پڑھا اُسے پرچی سمجھ کر بھول جائیں۔ مگر کہہ گئے‘ وہ کون ہے جو ہر دفعہ مجھے آپ سے جدا کرتا ہے‘کچھ زخم ایسے گہرے ہوتے ہیں جنہیں وقتی طور پر پَرے رکھا جا سکتا ہے بھولے نہیں جاسکتے۔نواز شریف کا پہلا جلسہ مشرف کے آخری جلسے جیسا تھا جو شاہراہ ٔدستورپہ ڈی چوک میں ہوا۔سوال یہ ہے کہ نواز شریف نے 90دن میں الیکشن کا ا ٓئینی مطالبہ کیوں نہیں کیا؟معیشت کی بحالی کا روڈ میپ کیوں بھولے؟عوام سے یہ کہنا‘ تم بجلی سستی کرنے کے لیے‘ مہنگائی ختم کرنے کے لیے میرا ساتھ دو گے؟ یعنی یہ لو‘ مجھے پھر سنبھالو۔ غبارے پھوڑنے والی بندوق سے کلاشنکوف کا فائر نہیں ہوسکتا۔علی کی ضد تھی وہ غبارے پھوڑنے والی بندوق سے دھواں اور آواز نکالے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں