اسلامی مساوات‘ جمہوری روایات‘ پبلک کی آواز‘ یہ تینوں تصورات جمع ہوئے۔ ایک قانون دان کی قیادت میں بغیر کسی جنگ‘ حملے اور فتوحات کے بنائے گئے ملک کا نام پاکستان ٹھہرا۔ سچ تو یہ ہے کہ 1947ء میں غریب غربا اسلامیانِ ہند پر اللہ کا خاص احسان ہوا۔ پھر 16اکتوبر 1951ء آیا‘ شہیدِملت لیاقت علی خان کو دن دہاڑے قتل کر دیا گیا۔ اس بے رحمانہ قتل کی FIR آج بھی کوتوالی تھانہ راولپنڈی میں تفتیش کاروں کی راہ دیکھ رہی ہے۔ 1953ء سے پاکستان میں قبضہ مافیا‘ جنہیں آپ Elite Captureکہتے ہیں‘ منظم ہونا شروع ہوئے۔ اُس وقت کی اعلیٰ ترین جوڈیشری‘ اوپر نیچے تین آرمی چیف اور چند سیاسی گھرانے ریاستی اقتدار کی مثلث بن گئے۔ این آر او کے حمام میں ننگا ناچ شروع ہوا۔ نظریۂ ضرورت کے صابن نے اتنے غلیظ اور پکے داغ دھوئے جن کی مثال کسی بھی براعظم سے ملنا مشکل ہے۔ عوام کوہلو کا بیل بن گئے اور چابک برداروں نے ان پر سواری شروع کر دی۔ عام آدمی پہلے صرف اپنا‘ بیوی بچوں اور ماں باپ کا پیٹ پالتا تھا پھر قرض پر چلنے والی حکومتوں میں بیٹھے قبضہ مافیا کا پیٹ پالنا بھی عام عوام کی قومی ذمہ داری ہو گئی۔ قرض اتارو ملک سنوارو والا ترانہ ایسی سُر تال میں گایا گیا کہ پاکستانی صنعت کاروں کے بجائے سیاست کاروں کے اثاثے قرض اتارتے اتارتے کئی براعظموں تک جا پہنچے۔ نعرہ لگانے والوں کے اثاثے ہی نہیں بڑھے بلکہ قرض بھی اتنا بڑھا کہ آج پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ اڑھائی لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ تب سے اب تک نام بدلے‘ سارے کردار مگر وہی ہیں۔ قومی ترقی کو فُل سٹاپ لگ گیا‘ صرف این آر او نے ترقی کی مگر اختیار و اقتدار کبھی پبلک کے ہاتھ نہ آیا۔
جب ہم 1973ء میں پہنچے تب کہیں جا کر اسلامی مساوات‘ جمہوری روایات اور پبلک کی آواز یکجا کر کے پہلا متفقہ آئین بنا۔ جسے ابتدا میں مارشل لاء نے ملک سمیت کاٹ کھایا‘ صرف چار سال کی عمر میں۔ مگر ستم بالائے ستم دیکھیے کہ 9اپریل 2022ء کو ذوالفقار علی بھٹو اور مفتی محمود جیسے آئین سازوں اور ضیاالحق جیسے آئین شکنوں کے روحانی بچوں کے ساتھ مل بیٹھے۔ ایجنڈا سنگل پوائنٹ تھا‘ وَنڈ کھائو‘ کھنڈ کھائو۔ ووٹ یعنی ایک طرح کی بیعت کی اسلامی روایت‘ آئین میں لکھی جمہوری روایات‘ پبلک کی آواز روند کر آئین سازوں کے بچے اور آئین شکنوں کے روحانی بچے ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے بن گئے۔ اقتدار سے نکلتے ہی آئین شکنوں کے وارثان نے عہد شکنی کی روایت پھر سے زندہ کی۔ نتیجے میں آئین سازوں نے پنجاب میں سیاست کی ریت سے اقتدار کا جو خیالی محل تعمیر کیا تھا‘ اُس پر لات پڑ گئی۔
ان دنوں آئین شکنوں کو بزرگوں جیسی عزت دینے والے آئین ساز اپنی حالت پہ نہ ہنس سکتے ہیں نہ رو سکتے ہیں۔ لیکن (ن) لیگ کے جلسے نے ہنسنے رونے کو اس طرح اکٹھا کیا کہ زی ٹی وی اور سٹار پلس کے ایکٹر تڑپ کر رہ گئے۔ پہلے ہنسنے اور پھر رونے والا ایک سوال نواز شریف نے یوں پوچھا: وہ کون ہے جو مجھے ہمیشہ آپ سے جدا کرتا ہے؟ اس کے چند جواب جو نواز شریف کے اپنے ریڈی میڈ ہیں‘ یہ ہیں۔
نواز شریف خود کو شیر کہہ رہے تھے اور لوگوں کو جتلا رہے تھے کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ مگر ''وہ کون ہے‘‘ کا جواب ان سے اچھا کون دے سکتا ہے۔ ویسے سب جانتے ہیں کہ پہلا جنرل جیلانی تھا‘ دوسراغلام اسحاق خان‘ تیسرا آئی جے آئی بنوانے والا‘ چوتھا جدہ سرور پیلس پہنچانے والا۔ تفصیل لمبی ہے‘ مختصر کرکے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کا جو سفر قرض اُتارو ملک سنوارو سے شروع ہوا‘ وہ چار سال کی بریک سے لندن میں ختم ہوا۔ ''وہ کون ہے‘‘ کا جواب واقعاتی شہادتوں کے پیش نظر صرف یہی بنتا ہے ''تم ہی تو ہو‘‘۔ نواز شریف کا دوسرا سوال تھا‘ کیا تم سب مل کر بجلی کے ریٹ کم کرنے میں میرا ساتھ دو گے؟ اس مرحلے پہ نواز شریف نے چھوٹے میاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ والے بجلی بِل لہرائے۔ لطف بالائے لطف‘ مہنگی بجلی کے سودے کرنے والا اور بجلی کے بِلوں میں اضافے کرنے والا‘ دونوں ایک ہی وقت میں جلسے کے سب سے اونچے مچان پر موجود تھے۔ ایک الزام لگا رہا تھا‘ دوسرا ان الزامات پر تالیاں بجا رہا تھا۔ نواز شریف کا تیسرا سوال بھی خوب اور معنی خیز ہے‘ کہا کہ تم پٹرول اور ڈالر سستا کرنے کے لیے میرا ساتھ دو گے؟
(ن) لیگ کی پچھلی تین صوبائی‘ چار مرکزی حکومتوں کا ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے۔ دونوں سمدھیوں نے ووٹ سے زیادہ ڈالر کو عزت دی ہے۔ جلسے میں مریم نواز صاحبہ کے اٹھائے ہوئے دو نکتے ایسے تھے جو لوگوں کے ہنسانے اور رلانے کے لیے کافی رہے۔ عمران خان کے جلسے کی نقل میں رینٹ اے کراؤڈ سے فرمائش کی کہ موبائل کی ٹارچ جلاؤ۔ مجھے پتہ ہے سب کے پاس موبائل فون ہیں۔ تین چار مرتبہ اصرار کے بعد بھی جب درد منت کشِ دوا نہ ہوا تو پوچھا گیا: ٹارچ کیوں نہیں جلاتے؟ انہیں پتہ ہونا چاہیے تھا جس جس جگہ سے کراؤڈ آیا ہے وہاں ٹچ موبائل کے بجائے بٹن والا موبائل استعمال ہوتا ہے۔ جس کی بتی مالک کی مرضی کے بغیر نہیں جلتی۔
ان دنوں یار لوگ کہتے ہیں کہ الیکشن کب ہوگا‘ اس کی تاریخ کسی کو پتہ نہیں لیکن ہمارا نظام اس قدر ٹرانسپیرنٹ ہے کہ جس میں الیکشن سے پہلے ہی الیکشن کے حتمی نتائج نکال کر قوم کو دکھائے جا رہے ہیں۔ نظامِ انصاف بھی شفاف تر ہو گیا۔ ادھر گھر آیا میرا پردیسی‘ اُدھر ریلیف دینے کی دوڑ لگ گئی۔ جس عدالت کے پاس ٹرائل ہی موجود نہیں وہاں سے بھی ریلیف مل گیا۔ عدالتِ اپیل صرف اپیل چلاتی ہے۔ ریلیف کے لیے پروسیکیوٹر سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ آپ کو ملزم چاہیے یا نہیں۔ ملزم عدالتی مفرور سزا یافتہ قیدی ہو تو پہلے جیل جاتا ہے۔ یہ شکایت اَب دور ہو گئی ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔
ایک سوال ہر شخص پوچھتا ہے‘ وہی نواز شریف والا سوال کہ وہ کون ہے جو بار بار ریٹائرڈ پہلوان کو نئے رنگ کا لنگوٹ پہنا کر دنگل میں دھکا مارتا ہے۔ اب کی بار دنگل سے پہلے ہی پہلوان کو لنگوٹ کی فکر پڑ گئی۔ جس نظام میں بادشاہ ننگا ہو جائے وہاں لنگوٹ کی فکر کرنے والے تم ہی تو ہو۔