پڑھے لکھے لوگوں کے بابائے ظرافت انور مقصود صاحب کے نام سے منسوب سوشل میڈیا پر وائرل جملہ یہ ہے میں قوم پر واضح کرنا چاہتا ہوں میراسیاست سے کوئی تعلق نہیں میں کبھی پاکستان تحریک ِ انصاف میں شامل نہیں ہوا اس کے باوجود میں پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔
پچھلے ہفتے اسلام آباد میں دو اہم اعلان ہوئے۔ پہلا اُس آئینی ادارے نے کیا جسے اربوں روپے کے بجٹ سے صرف ایک کام کے لیے بھرتی کیا گیا‘ کام ہے بروقت بلدیاتی ا داروں‘ صوبائی اسمبلیوں‘ قومی اسمبلی کے الیکشن کے انتخابات منعقد کروانا۔ اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل 218ذیلی آرٹیکل 3میں تین مرحلے (Stages)پر کمیشن کو پابند کر دیا گیا۔ الیکشن کروانے کا پہلا آئینی مرحلہ: پہلے مرحلے کے لیے آرٹیکل 218میں Election Commission shall organizeکے الفاظ استعمال ہوئے۔ پھر الیکشن ایکٹ2017ء اور آئین میں الیکشن آرگنائز کرنے کے طے شدہ مرحلے دئیے گئے ہیں جن میں انتخابی فہرست بر وقت تیار رکھنا‘نئے ووٹروں کا مسلسل اندراج کرنا‘ انتخابی حلقہ بندیاں بنا کراعتراضات سننا‘الیکشن کروانے کے لیے انتخابی عملے کی تربیت کرنا‘ انتخابات میں استعمال ہونے والی Information Technologyکو اَپ ڈیٹ کرنا‘ساتھ ساتھ ضمنی و قومی اور بلدیاتی الیکشن کی ہمہ وقت تیاری رکھنا۔
الیکشن کروانے کادوسرا آئینی مرحلہ: اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل218میں الیکشن کمیشن کو یوں پابند بنایا گیا:To hold free, fair and transparent elections, in accordance with Law۔ اس آئینی کمانڈ میں سے یار لوگوں نے''لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کی اصطلاح نکالی ہے۔ جس کے سادہ معنی یہ ہیں‘ الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ شدہ تمام سیاسی پارٹیوں کو عوام کے پاس جانے‘ اپنے لیڈر کی تصویر آویزاں کرنے‘ جلسہ‘ جلوس‘ ریلی‘ کارنر میٹنگ اور مین سٹریم الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں برابر وقت اور برابری کا موقع دیا جائے۔ اس وقت دکھتی آنکھوں اور بہرے کانوں والوں کو چھوڑ کر اندھے کو بھی نظر آرہا ہے لیول پلینگ فیلڈ صرف اور صرف PDMاور ''اشٹام تحریک‘‘ کے لیے بُک شدہ اورمخصوص ہے۔
ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کااس آئینی فیلڈ میں قدم رکھنا انتظامی گناہِ کبیرہ ہے۔ میں نے یہی بات سیاسی جماعتوں کے مشترکہ اجلاس کے دوران الیکشن کمیشن سے کہی۔ مجھے بتایا گیا‘ سر! تھوڑے دن اور صبر کرلیں۔جوں ہی الیکشن شیڈول کا اعلان ہوگا آپ کو لیول پلینگ فیلڈ لازماًملے گا۔ میں نے کہا تھا‘ ہمیں فیلڈ میں جانے دیں‘ہم کھلاڑی ہیں‘ لیولنگ اور پلینگ کرنا ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں۔
قوم کاسوال ہے اگر الیکشن واقعی آگیاا ور نواز شریف امام خمینی‘ نیلسن منڈیلا جیسا استقبال ''بھگت‘‘چکے تو پھر ڈر کس بات کا؟ قیدی عمران خان کے ووٹروں کو بڑی جیل میں بند رکھنے کا مقصد کیا ہے؟ الیکشن کمیشن والی جس میٹنگ کی بات ہوئی اُس میں جماعتِ اسلامی کے رہنما فرید پراچہ کے علاوہ باقی حضرات و خواتین نے لیول پلینگ فیلڈ پر زور نہیں دیا۔ نواز شریف کی واپسی کے بعد وہی پارٹیاں مسلسل لیول پلینگ فیلڈ مانگ رہی ہیں‘ما سوائے مسلم لیگ (ن) کے جسے لیول پلینگ فلائٹ ملی‘ لیول پلینگ جلسہ گفٹ ہوا‘ لیول پلینگ فیلڈ پر لمبے وڈّے پروٹوکول بھی ملے۔
اس سب کے باوجود نواز شریف پبلک میں جانے کے قابل نہ ہوئے۔جس کی بڑی وجہ سب جانتے ہیں لیکن چھوٹی وجہ چھوٹے بھائی نے واپسی سے چند ہفتے پہلے یوں بیان کی‘ بھائی صاحب کی واپسی کا فیصلہ اُن کے گورے ڈاکٹر کریں گے۔ اُن کی بیماری کا حال مریم نواز کو پتہ ہے جن کے اعلانات کے مطابق انسانی دل جس میں تین شریانیں(Arteries) ہیں وہاں نواز شریف کے چھ آپریشن ہوئے ہیں۔ ایک ایک شریان دو‘ دو بار کاٹی گئی۔ چوہتر سالہ بزرگوار باہر نکلنے کا انجام اچھی طرح جانتے ہیں‘اس لیے وہ اپنے دل کے ساتویں آپریشن کا رسک نہیں لے رہے‘ وہ بھی اپنے ملک میں۔برادرم ہارون الرشید صاحب ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں‘ سڑک پر لٹا کر سرجری کرنے والی۔
الیکشن کروانے کا تیسرا آئینی مرحلہ: آرٹیکل 218‘To conduct elections کا اختیار الیکشن کمیشن کو سونپتا ہے تا کہ الیکشن کے دن ووٹر آزادی سے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرے۔ الیکشن عملے کے علاوہ باقی محکموں کو ووٹوں کی گنتی سے باہر رکھنا‘ ووٹ وہ گننا جو ڈالا گیا‘ گنتی کے عمل میں دھاندلی کو روکنا‘ بیلٹ باکس‘ الیکشن کے نتائج اور ان پر مبنی فارم45‘46 کواللہ کو حاضر ناظر جان کر عوام کی امانت سمجھ کہ بغیر تبدیلی الیکشن رزلٹ Compilation اور پھر نوٹیفکیشن کے مرحلے تک لانا ہے۔
قارئینِ وکالت نامہ‘ یہ تو آئین میں لکھا ہے۔آئیے اپنی سرزمین پر دیکھیں‘ الیکشن کی تیاریوں کے تازہ ثبوت۔ ایک طرف سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم شروع ہے‘ دوسری طرف کل سابق فاٹا کے علاقوں‘ کے پی‘راولپنڈی اور لاہور میں پی ٹی آئی کے درجنوں سے زیادہ کارکن چُک چُکا کا شکار ہوئے۔ کچھ کا جرم غزہ میں فلسطینیوں پر گزرنے والی قیامت کے خلاف احتجاج پر جمع ہونا تھا۔ باقی نوجوان پاکستان تحریک ِانصاف ورکرز کنونشن کے لیے باہر نکلے۔ الیکشن کمیشن بتائے کیا یہی قانون کی حکمرانی‘ آئین کی بالادستی اور صاف و شفاف عمل ہے۔ بڑی ڈھٹائی اور انتہائی سنجیدہ منہ بنا کر وفاقی حکومت کے عہدیدار کہتے ہیں‘ ہم الیکشن میں سب کو برابر موقع دے رہے ہیں۔ جس دن یہ بیان آیا اُس کے اگلے دن مہینے‘ سالوں پہلے درج جھوٹی FIRsکی فہرست سامنے آئی جس میں سینکڑوں افراد کو اُٹھانے کے لیے بہادر پولیس دوڑ پڑی۔
کافی دنوں بعدشب گزشتہ مہربان اور علمی دوست پیر نصیر الدین نصیر صاحب کے سب سے چھوٹے صاحبزادے پیر شمس الدین شمس نے بلایا۔ اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں جہاں شمس المساجد کے نام سے ایجوکیشنل کمپلیکس بن رہاہے۔ پیر شمس الدین نے مجھے وہ کمپلیکس دکھایا‘ جہاں روایتی اسلامی علوم کے علاوہ عصری اور جدید علوم بھی نسل ِ نوکو پڑھائے جائیں گے۔ پیر شمس الدین کے کہنے پر میں نے حاضرین سے خطاب کیا۔ اس دوران پیر نصیر الدین نصیر‘ یاد بے حساب آئے۔
ہاں دوسرا اعلان یاد آیا۔سیکٹر جی سیون سے پی ٹی آئی کے ڈپٹی UCچیئرمین غائب ہوئے۔ تیسرے دن منظر عام پر آکر تاریخ ساز پریس کانفرنس کی۔ بولے‘ میرے پِتّے میں پتھریاں تھیں‘ دو دن وہ نکلواتا رہا۔ میں پاکستان تحریک ِ انصاف چھوڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔یہ ہے الیکشن تیاری کا تازہ ترین ثبوت ہے۔