آج دنیا کی مشہور ترین نجومی خاتون جین ڈکسن (Jeane Dixon) سے بات شروع کرنا چاہتا تھا لیکن حُب الوطنی آڑے آرہی ہے۔ کیا ہوا کہ نجومی جین ڈکسن کی ساری پیش گوئیاں درست ثابت ہوتی ہیں لیکن وہ ہے تو غیر اور اہلِ افرنگ میں سے ایک۔ ویسے بھی اپنے ہاں اس طرح کے ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ایک ہوں جن سے ہر تیسرے دن کوئی نہ کوئی نجومی ملنے کے لیے رابطہ کرتا ہے۔ یا کوئی روحانی شخصیت بچ کر رہنے اور ترقی کی چھلانگیں لگانے کے ٹوٹکے بتا رہی ہوتی ہے۔ یہ سن کر آپ حیران بھی ہو سکتے ہیں کہ اب پیش گوئی کا سیکٹر بھی مکمل طور پر کارپوریٹ ہوگیا ہے اور قوم کی خوش بختی سمجھ لیں کہ اس Enterprisingشعبے میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ شریک ہو گئی ہیں۔
اس لیے لیڈیز فرسٹ۔ چلیے مریم نواز صاحب کی اُس مشہورِ زمانہ پیش گوئی والی وڈیو کلپ سے بات شروع کرتے ہیں جس میں وہ بڑے پُرجوش اور انتہائی پُرعزم لہجے میں پبلک کو یقین دلا رہی ہیں کہ ''یہ ہو ہی نہیں سکتا‘ باپ کی اجازت کے بغیر بلوچستان عوامی پارٹی(BAP) والے عمران خان کی حمایت کر سکیں۔ میں بہت اچھی طرح سے جانتی ہوں‘ BAP والے باپ کی اجازت کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے۔ اس لیے میں آپ کو پورے یقین سے کہتی ہوں کہ کوئی مجھے غلط ثابت کرکے دکھا دے کہ BAP نے پی ٹی آئی کی حکومت میں شمولیت کا فیصلہ باپ کی اجازت کے بغیر کیا ہے۔ میں جو بھی آپ کو بتا رہی ہوں‘ تاریخ مجھے سچا ثابت کرے گی‘‘۔ ایک اور میڈیا ٹاک کلپ میں مریم نوازکہہ رہی ہیں کہ ''جب کوئی سیاستدان اَن پاپولر ہو جائے‘ عوام میں جانے سے ڈرے تو ایسے میں اسے BAP کے ترلے کرنا پڑتے ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ عوام میں جس کی پذیرائی ختم ہو جائے وہ ایسے لوگوں کو ساتھ بٹھاتا ہے‘‘۔ پھر سیاسی معجزہ ہو گیا۔ 100فیصد نہیں بلکہ 102فیصد‘ مریم نواز کی پیش گوئی سچ ثابت ہو گئی۔ وہ بھی دو دن کے مختصر ترین عرصے میں۔
اب آئیے آپ کی توجہ گزرے ہوئے ان دو دنوں کے دو عدد واقعات کی طرف دلائیں‘ جن میں سے پہلا واقعہ پاکستان کی آدھی ٹوٹی ہوئی پارلیمنٹ کے اندر پیش آیا۔ جہاں ایک آزاد سینیٹر کی قرار داد اچانک پیش ہوئی‘ جس کی حمایت BAP نے کی جبکہ اس قرارداد کو میاں نواز شریف کی تائیدِ مزید بھی حاصل تھی۔ اس کے براہِ راست ثبوت اردو اخبارات میں‘ قرار داد ایوان میں آنے سے پہلے‘ پچھلے ہفتے کے مخصوص کالم نکال کر پڑھ لیں۔ ان کالموں میں قرار داد کی ایڈوانس حمایت والی ایڈوانس بکنگ کی مشتہری موجود ہے۔ اس قرار داد کے وقت ووٹ کو عزت دینے کے خصوصی انتظامات بھی کیے گئے تھے۔ قرار داد ایوان میں ایسے وقت میں پیش کی گئی جب وہاں گِن کر ڈیڑھ درجن محبِ وطن موجود تھے اور باقی کا سارا ایوان غائب۔ ایسی گمشدگی کو انٹرنیشنل لا کی زبان میں Enforced Disappearanceکہا جاتا ہے۔
اس سے کچھ ملتا جلتا دوسرا وقوعہ کوئٹہ میں ہوا جہاں BAP نے میاں نواز شریف کو خصوصی دورے پر بلایا اور BAP کی سابق کابینہ برائے صوبائی حکومت بلوچستان کے سارے نامزد لوگوں نے BAP اُٹھا کر میاں نواز شریف کی جھولی میں ڈال دی۔ اس وقت میاں نواز شریف کے دوروں اور شمولیتی تقریبات سے ثابت ہو رہا ہے کہ میاں نواز شریف کو خدمت کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ پور ے ملک سے وہ لوگ‘ جو ہر الیکشن سے پہلے اس طرح کی تقریبات کے میزبان ہوتے ہیں‘ وہ الیکشن کی تاریخ آٹھ فروری 2024ء مقرر ہونے کے بعد اپنی روٹین کی ڈیوٹی پر آگئے ہیں۔ کوئٹہ والی تقریب میں ان لوگوں نے 75سال میں 76ویں دفعہ بلوچستان کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ صادر فرمایا۔ بالکل ویسے ہی جیسے اس موقع پر میاں نواز شریف نے اپنے مسلسل انقلاب کو بس کوئی نویں‘ دسویں مرتبہ پھر سے ایڑ لگائی۔ اس سچ میں پاکستان کے 25میں سے 27‘ 28کروڑ لوگ میاں نواز شریف کے حامی ہیں کہ انہیں پاکستان کی خدمت کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔
عمران خان اور پاکستان کی نوجوان نسل تو خالص گمراہی اور کُھلے پروپیگنڈا کا شکار ہے جو یہ کہتی ہے کہ سال 1981ء میں میاں نواز شریف ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ لگائے گئے تھے۔ زیادتی کی انتہا دیکھیے‘ ساتھ یہ جھوٹا الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف کو سال 1985ء میں الیکٹ ایبلز کی طاقت سے وزیراعلیٰ لگایا گیا تھا۔ نوجوان نسل کا گمراہ سوشل میڈیا 1988ء کے بارے میں بھی ایسی ہی بے بنیاد خبریں شیرِ پاکستان کے بارے میں پھیلا رہا ہے۔ میاں نواز شریف کے ساتھ تیسرا ظلم 1990ء میں ہوا جب وہ صرف چوتھی بار اقتدار کی کُرسی پر بیٹھے تھے اور پاکستان کو تقریباً جاپان بنا چکے تھے مگر کسی ظالم نے ان کی کرسی کی ٹانگ کھینچ لی۔ 1997ء میں سرور پیلس اور مے فیئر وغیرہ سے گھوم کر میاں نواز شریف کو پھر وزیر اعظم بنایا گیا لیکن انہیں قوم کی خدمت کرنے کا ایک دن بھی موقع نہیں دیا گیا۔ اس لیے وہ اپنی خدمت میں جُت گئے۔ سال 2008ء سے پھر میاں نواز شریف سے زیادتیوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا جب ان کے چھوٹا بھائی 1997ء کی طرح پنجاب کے وزیراعلیٰ بنا دیے گئے۔ پی ٹی آئی کے یوتھ بریگیڈ کے غلط پروپیگنڈا کا اندازہ لگانے کے لیے یہ الزام کافی سے بھی تھوڑا زیادہ ہے کہ میاں نواز شریف کو 2013ء میں پھر وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھایا گیا۔ ساتھ ہی زبردستی ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو پنجاب کی لازوال خدمت پر لگا دیا گیا۔ یہ بھی محض بہتان ہے کہ میاں نواز شریف کے تسلسل میں مسلم لیگ (ن) کو میرے گرائیں‘ شاہد خاقان کو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھانے کا موقع دیا گیا۔ اسی دوران سچی بات یہ ہے کہ13اگست 2018ء سے9اپریل 2023ء تک ایک ہزار 700دن کے طویل عرصے کے لیے عمران خان وزیراعظم رہے ۔ جسے بنیادی Mathematicsآتا ہے وہ خود حساب لگا کر دیکھ لے کہ سال 1981ء سے سال 2023ء تک میاں نواز شریف کو خدمت کا کوئی موقع نہ دینا واقعی اس قوم اور آلِ شریف سے بہت بڑی زیادتی ہے۔
عمران خان ایک ایسے سماج کا آزاد شخص ہے جس کے 25کروڑ لوگ بڑی جیل میں بند ہیں۔ جیل میں بیٹھا اکیلا آزاد آدمی پسِ دیوارِ زندان رہ کے بڑی جیل کے قیدیوں کے لیے پورے قد سے کھڑا ہے۔ آج کے دن سمیت اس کی تصویر‘ اس کی تقریر‘ اس کی تشہیر پر پابندی ہے۔ باپ رے باپ۔ بھلا تصویر بھی کوئی ڈرانے والی چیز ہے۔