جو کچھ میں نے شہرِ اقتدار میں ہمیشہ سے دیکھا‘ جو سنا بلکہ گاہے بھگتا بھی‘ اس کی روشنی میں اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ نواز شریف کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ بالکل ویسا ہی ہاتھ جیسے صوبۂ سندھ کے بڑے اتحادی کے ساتھ 18ماہ کے اقتدار کے بعد شریف برادران نے کر دکھایا۔ آئیے اس ہاتھ کے بڑے اشارے ملاحظہ کریں۔
نواز شریف کے ساتھ ہاتھ کا پہلا بڑا اشارہ: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت آج کل آئین کی پاسداری کا ''ہاتو‘‘ بنی ہوئی ہے۔ اتنے ناتواں کندھوں پہ اتنا بڑا بوجھ اٹھانے کی وجہ بھاری مزدوری نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ اس ہفتے نواز شریف کے ذاتی اور سرکاری‘ ہر دو طرح کے ترجمان کھل کر کہتے پائے گئے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں‘ ہم انتخابات میں تاخیر برداشت نہیں کریں گے۔ اصل میں یہ ووٹ کو عزت دو کے گمشدہ بیانیے کو تلاش کرنے کی ایک ناکام کوشش کے علاوہ کچھ نہیں۔ وہ بیانیہ جس کا پرچہ کہیں ہائیڈ پارک وَن اور مے فیئر کے درمیان مٹرگشت کرتے ہوئے نواز شریف کی جیب سے گر گیا ہے۔ اب پوری کوشش کے باوجود وہ پرچہ نواز شریف کے ہاتھ نہیں آرہا۔ ایسی زیاں کار تلاشِ گمشدہ پر میرے کالج دورکے عزیز دوست مجتبیٰ حیدر شیرازی ایڈووکیٹ نے ان لفظوں میں سندیسہ دے رکھا ہے۔
کوئی امکان جو حدِ بصارت میں نہیں ہے
اُسے پہچان جو حدِ بصارت میں نہیں ہے
ترے ذوقِ نظر کی خیر لیکن! چشمِ بینا
اُدھر بھی دھیان جو حدِ بصارت میں نہیں ہے
ترجمانانِ شریفاں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) انتخابات کی تاخیر کو غیر آئینی سمجھتی ہے اور اس غیر آئینی الیکشنی تاخیر کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے‘ سپریم کورٹ نے مرکز اور پنجاب میں طے شدہ وقت کے اندر الیکشن کروانے کے احکامات جاری کیے تھے۔ اُس وقت نواز اینڈ کمپنی کا مؤقف تھا کہ آئین میں طے شدہ وقت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اس لیے میرا الیکشن میری مرضی۔ آج کا ووٹر ان شعبدہ بازیوں کو نہ صرف جان گیا ہے بلکہ پہچان بھی چکا ہے۔ اس لیے سوال یہ بنتا ہے کیا پاکستان مسلم لیگ (ن) غیر آئینی نگران حکومتوں کو مسترد کرنے کی ہمت رکھتی ہے۔ خاص طور سے پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور مرکز میں؟ کیا وہ اپنے وزیروں اور مشیروں کو ان حکومتوں سے واپس نکالنے کی اجازت رکھتی ہے؟ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ جس لندن پلان اور NROکے بعد نواز شریف کو ریلیف پر ریلیف ملتے جا رہے ہیں‘ اس کے باوجود وہ کون سے خدشات ہیں جو (ن) لیگ کو اتنا تڑپا رہے ہیں کہ وہ الیکشن کے التوا پر ایڈوانس احتجاجی بیان دینا شروع ہو گئی؟ نواز شریف کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے احتجاجی بیان دلوانے کی وجہ قوم کے سامنے کھول کر رکھ دیں۔ یہ سترنگی بر وزنِ دو رنگی کی آخری انتہا ہے۔ ایک طرف آلِ شریف‘ بڑا چھوٹا بھائی‘ بھتیجا‘ سمدھی دونوں ہاتھوں سے NROکے پھل فروٹ سمیٹ رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر اس NROکی برکت سے اربوں روپے کی کرپشن کے ثبوت عدالت کے سامنے کھول ہی نہیں رہے۔
ادھر کیس لگا اُدھر سرکار آلِ شریف کے ریسکیو پر آگئی۔ بیان دیا ہم مقدمہ نہیں چلانا چاہتے۔ مقدمہ چلانے کے لیے عدالت کا ہرکارہ کاز لِسٹ سے جو آواز لگاتا ہے‘ وہ The Stateبنام Nawaz Sharifوغیرہ ہے۔ اگر کسی جگہ سٹیٹ سمجھے کہ کرپشن کوئی قابلِ دست اندازی یا قابلِ مواخذہ جرم نہیں تو پھر عدالت یا جج کا کیا قصور؟ قانون کی نظر میں عدالتیں ریفری کا کردار ادا کرتی ہیں‘ فریق کا نہیں۔ بہر حال ان دنوں جو ہو رہا ہے اسے آپ کریمنل جسٹِس سسٹم پر منی لاندرنگ اور کرپشن پر ٹڈی دَل کا حملہ کہہ سکتے ہیں۔
ان دنوں کی دستیاب واقعاتی شہادتوں اور تازہ ترین لنگر گَپ کے مطابق بے اعتمادی کی آگ آنے والے اور لانے والے ہر دو جانب برابر لگی ہوئی ہے۔ نواز شریف جب بھی بیان بازی پر آئیں‘ اپنے دکھڑے کھولنے کے بعد ایک آدھ پٹاخہ پھوڑنا نہیں بھولتے۔ اس ہفتے ایسا ہی ایک بیانِ جدید سامنے آیا‘ جو فرسٹریشن اور شکوک کا مربہ ہے۔ امیدِ پاکستان کی اپنی ٹوٹتی ہوئی امید اس بیان کے اندر سے صاف پھوٹتی ہوئی سامنے نکل آئی۔ اسی لیے نواز شریف لاہور میں کبوتر باز جلسے کے بعد سے کسی اور جلسے میں جانے سے باز آگئے۔
نواز شریف کے ساتھ ہاتھ کا دوسرا بڑا اشارہ: یہ اشارہ سمجھنے کے لیے ہمیں ذرا پیچھے جانا ہو گا۔ مقام تھا پنجاب ہائوس اسلام آباد کا چیف منسٹر بلاک میں ڈرائنگ روم‘ جہاں 29جولائی 2017ء کو نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا۔ جس میں شہباز شریف کو پارلیمانی پارٹی نے متفقہ طور پر لیڈر آف دی ہائوس یعنی وزیراعظم کے عہدے کے لیے واحد امیدوار نامزدکر دیا لیکن جب وزارتِ عظمیٰ کے لیے کاغذاتِ نامزدگی داخل ہونے لگے تو (ن) لیگی امیدوار ہی بدل گیا۔ باقی سب کچھ ایک طرف چھوڑ کر حالات کے اندر جھانکا جائے تو ایک خدشہ جس کا اظہار ان سائیڈر بھی کر رہے ہیں‘ وہ یہ کہ نواز شریف کی واپسی کو عوامی غم و غصے سے صرف توجہ ہٹانے کے لیے Decoyکے طور پر استعمال کیا گیا۔
اب جب الیکشن ہوگا تو ضروری نہیں نواز شریف ہی (ن) لیگ کے پھر سے قائد بنیں۔ بات ذرا باریک ہے مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بڑی واضح‘ جو PLDسال 2018ء سپریم کورٹ میں صفحہ نمبر 405‘ سمیع اللہ بلوچ بنام عبدالکریم نوشیروانی پر رپورٹ شدہ ہے‘ جس کے ذریعے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے رکھا ہے۔ لندن پلان اور NROکی برکتوں سے اگر سارے مقدمات میں نواز شریف کے خلاف حکومت بھاگتی چلی جائے تب بھی تاحیات نااہلی ان کا پیچھا کرتی رہے گی۔ جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے‘ کوئی ایڈیشنل سیشن جج ریٹرننگ آفیسر ہو یا ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریٹرننگ آفیسر ہو‘ اس کے پاس اختیار ہے نہ جرأت کہ وہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کی موجودگی میں‘ جس کی ریویو پٹیشن بھی خارج ہو چکی ہے‘ کہے کہ میں ملک کی آخری عدالت کی طرف سے جاری کردہ تاحیات نااہلی کے اس آرڈر کو مسترد کرتا ہوں۔
قارئینِ وکالت نامہ! شہرِ اقتدار کے فیصلہ ساز اگر آپ ہوں تو آپ پالش پر پٹاخے کو کبھی ترجیح نہیں دیں گے۔ اسی ہفتے سپریم کورٹ کا ایک تازہ فیصلہ بھی آیا ہے جس میں سال 2019ء کے ایک فیصلے میں ایک معتبر لینڈ ڈویلپرکی جانب سے تازہ درخواست مسترد کر دی گئی۔ اس مقدمے میں بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ فائنل ہو چکا تھا جسے کھولنے کے لیے مشرقی بینک اور برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی دستاویزات کا سہارا لیا گیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے Past and Closed Transactionکے آفاقی اصولِ قانون کی بنیاد پر پچھلا فیصلہ بدلنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ درخواست گزار کو عدالت کا وقت ضائع کرنے پر 10لاکھ روپے جرمانہ بھی کر دیا۔ اسی اصولِ قانون کی بنیاد پر سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا فیصلہ ابھی تک تبدیل نہ کیا۔ ہاتھ تو ہو گیا ہے۔