پھر وہی ہوا جو بار کونسل آف انڈیا کے ساتھ ساتھ آل انڈیا بار ایسوسی ایشن کے کئی سینئر وکلا کہہ رہے تھے۔ بھارتی آئین سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا ''مودی ججمنٹ‘‘ بھارتی سپریم کورٹ نے کنفرم کر ڈالا۔ بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ہر قانون دان مسترد کرے گا۔ بالکل ایسا ہی ہماری وزارتِ خارجہ نے بھی کیا‘ لیکن بہت بنیادی سوال یہ ہے کیا پاکستان کے ریاستی اداروں اور پاکستانی قوم کو استرداد کے اعلان پر رک جانا چاہیے؟ ذرا گہری نظر سے سپریم کورٹ آف انڈیا کا فیصلہ دیکھا جائے تو میرا جواب ہوگا‘ نہیں ہر گز نہیں۔ ہمیں اس کا تین سطحوں پر لازماً جواب دینا ہو گا۔ آج کے تیز رفتار زمانے میں یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ بیانات کے ذریعے دیے جانے والے میڈیائی جواب ہوا میں اُڑ جاتے ہیں۔ اصل جواب وہ ہوتا ہے جو فریقِ مخالف کے کیس کو سمجھ کر‘ سٹرٹیجک گہرائی میں جاکر اُس کے اثرات زائل کرنے والا ہو۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا ایسا ہی جواب دینا ضروری ہے۔ اس فیصلے پر سرسری نظر ڈالنے سے تین بڑے سٹرٹیجک اہداف سامنے آتے ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ صرف اکیلے سپریم کورٹ آف انڈیا کی تخلیق نہیں‘ اس کے پیچھے گہری منصوبہ بندی اور ہندوتوا کا نظریہ بھی کار فرما ہے۔ یہی نہیں بلکہ بھارت نے مڈل ایسٹ کی تازہ جنگ اور اسرائیل کی توسیع پسندانہ ہلاکت خیز یلغار Ex Pensionist Genocideکے ساتھ فیصلے کی ٹائمنگز کو سوچ سمجھ کر ہم آہنگ کیا۔
بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا پہلا ہدف: 11دسمبر 2023ء کے فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کا Integral Partیعنی مستقل حصہ قرار دیا۔ حالانکہ15اگست 1947ء سے لے کر پلوامہ فالس فلیگ آپریشن تک ریاستِ جموں و کشمیر کی علیحدہ دستوری اور انتظامی حیثیت تسلیم شدہ تھی۔ اسی لیے بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے مسئلہ کشمیر کو خود اپنی طرف سے اقوامِ متحدہ میں حل کرنے کے لیے بھجوایا تھا۔ مسئلہ کشمیر پر درجن بھر سے زیادہ قراردادیں اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل اور ورکنگ گروپس میں منظور شدہ ہیں۔ ان قراردادوں کے ذریعے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر لائن کی عارضی حد بندی قائم ہوئی۔ ان قراردادوں کے تحت ہی اقوامِ متحدہ کے مختلف مشنز نے آزاد ریاستِ کشمیر اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کے دورے کیے۔ اقوامِ متحدہ کے ریکارڈ کے مطابق آج بھی یہ مسئلہ Plebiscite‘ یعنی عوام کے ووٹ پر مبنی رائے شماری کروائے جانے کا منتظر ہے۔ جب جب پاکستان کی ریاست اپنے اندرونی مسائل میں اُلجھ کر کمزور ہوئی‘ ایسے ہر موقع پہ بھارت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں Deadwood ڈکلیئر کروا دے۔ یعنی ایسا مسئلہ جس کے حل کی اب کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ہمارے فیصلہ سازوں کو بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو اسی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا دوسرا ہدف: گزرے سوموار کے دن بھارتی سپریم کورٹ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے 2019ء کے اقدام کو عدالتی کور فراہم کیا جس کے ذریعے بھارتی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے سپیشل سٹیٹس اور سیمی اٹانمس ریجن‘ اپنا ایک علیحدہ آئین جس کے تحت سرزمین جموں و کشمیر میں صرف کشمیری ہی اپنی لینڈ اور اپنے وسائل اور نوکریوں کے استعمال کی دستوری گارنٹی/ حفاظت رکھتے تھے۔ اس ساری آئینی رجیم کو سپریم کورٹ آف انڈیا کے پانچ رکنی بینچ نے آئین سے حتمی طور پر خارج قرار دیا۔ یہ ہر لحاظ سے ایک غیرمعمولی فیصلہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے دستور میں لکھی ہوئی دو اکائیوں‘ لداخ اور جموں و کشمیر کو بھارتی تاریخ میں پہلی دفعہ FATیعنی فیڈرل ایڈمنسٹرڈ ٹریٹری کے درجے تک گرا دیا گیا۔ اس طرح جموں و کشمیر کی مقبوضہ مسلم ریاست کا اپنا سرکاری جھنڈا‘ کریمنل کوڈ اور تحریری دستور نئے کشمیر کا بینر لگا کر اُڑا دیے گئے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی بھی ریاست کو کوئی متنازع علاقہ Compulsory Annexation کے ذریعے ہڑپ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بھارت کے اندر آزاد ماہرینِ قانون نے بھی کشمیر کو دو ٹکڑے کرنے کے عدالتی فیصلے کو بین الااقوامی قوانین سے انحراف کے مترادف قرار دیا۔
بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تیسرا ہدف: بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوراً بعد مقبوضہ جموں و کشمیر نئی دہلی کے براہِ راست کنٹرول میں دے دیا گیا۔ فیصلے کی رات بڑے پیمانے پر گرفتاریاں‘ مکمل کریک ڈاؤن اور مواصلاتی بلیک آؤٹ کو اگلے لیول تک پہنچایا گیا تا کہ باہر کی دنیا تک کوئی احتجاجی آواز نہ جا سکے۔ یہاں کچھ غداروں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے مقبوضہ کشمیر میں میر جعفر اور میر صادق کا کردار دہرایا۔ ان میں مقبوضہ کشمیر کی پرو انڈیا سیاسی جماعتیں‘ مقامی بار ایسوسی ایشن اور کچھ نام نہاد NGOs کے نمائندے بھی شامل تھے۔ جبکہ مسلم سوادِ اعظم کی نمائندہ آل پارٹیز حریت کونسل نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس فیصلے کے وقت بالکل وہی کردار ادا کیا جو ہماری سپریم کورٹ نے ماضی میں پرویز مشرف کو ظفر علی شاہ کیس میں تین سال کے عرصے کے لیے بغیر مانگے حکومت عطیہ کرتے ہوئے ادا کیا تھا۔ انڈین سپریم کورٹ نے مودی سرکار سے کہا کہ وہ 30 ستمبر 2024ء تک مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی الیکشن کروانے کا بندو بست کرے۔ بھارتی جنتا پارٹی کی کولیشن پارٹنر جماعت کی سربراہ اور مقبوضہ ریاستِ جموں و کشمیر کی سابق چیف منسٹر محبوبہ مفتی نے‘ جو خود بھی سپریم کورٹ میں فریق تھیں‘ اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے سب سے دلیرانہ تبصرہ کیا۔ محبوبہ مفتی کے الفاظ یہ ہیں: "SCOI's Judgement is death sentence not only for Jammu and Kashmir but also for the very idea of India"۔ انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے سمیت کسی قومی یا بین الاقوامی ایشو پرزمینی حقائق پَرے رکھ کر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔ واہگہ کے اس طرف جب بھارتی سپریم کورٹ مقبوضہ جموں وکشمیر کے مقدر کا فیصلہ سنا رہی تھی۔ عین اسی وقت پاکستان کے نظامِ عدل میں عدّت کی مدّت پر زور دار بحث چل رہی تھی۔
انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے کو پورے ہندوستان میں اکثریتی ہندو آبادی نے جشن کے طور پر Celebrateکیا۔ لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب مظلوم کشمیری‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔اس اُمید کے ساتھ کہ کیاان کے لیے بھی کسی Suo motoکی گنجائش ہے؟؟ سو موٹو سے ''ضمیر کے قیدیوں‘‘ کی یاد بھی آتی ہے۔