"SBA" (space) message & send to 7575

لیول پلیئنگ ’’فیلڈ‘‘ کی سیر

فُٹ بال فیلڈ‘ والی بال فیلڈ‘ ہاکی فیلڈ ویران ہو گئے۔ اُن ناگزیر بزرگ ہستیوں کی مہربانی اور خصوصی توجہ کی وجہ سے‘ جو عمرکے اس حصے میں ہیں جو اپنے نجی‘ ذاتی اور شخصی کام بھی کسی بیرونی ہاتھ‘ جسے قانون کی زبان میں فرینڈلی ہینڈ کہتے ہیں‘ کے بغیر نئے محاورے کے طور پر ''گنّا‘‘ بھی نہیں توڑ سکتے۔ گنّا بہت لمبا ہوتا ہے چلیں اخروٹ کہہ لیتے ہیں۔ البتہ دو ایسے فیلڈ باقی بچے ہیں جن کا آج کے منظر نامے پر دور دورہ ہے۔ یہ ہیں کرکٹ فیلڈ اور لیول پلیئنگ فیلڈ۔ کرکٹ ورلڈکپ 2023ء کے حتمی نتائج نے کرکٹ فیلڈ پر چاند گرہن لگا دیا۔ باقی بچتا ہے 8فروری 2024ء کے جنرل الیکشن والا لیول پلیئنگ فیلڈ‘ آئیے! ایک ساتھ اس فیلڈ میں قدم رکھتے ہیں۔
لیول پلیئنگ فیلڈ میں پہلا قدم: پارلیمانی سیاسیات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے اوّلین قدم پہ سیاسی پارٹیاں آتی ہیں۔ جو ساری کی ساری اپنی لیڈر شپ سمیت خیر و عافیت سے ہیں۔ ہاں البتہ صرف ایک سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے لیڈر کو اس فیلڈ میں اگلے دروازے‘ زمینی راستے یا فضائی راستے سے بھی داخل ہونے کی اجازت تک نہیں۔ عملی سیاست میں حصہ لینا تو بہت بعد کی بات ہے۔ اس ہفتے عمران خان سے تازہ ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے خلاف درج ہونیوالے فوجداری سے لے کر اُن مقدمات کی تفصیل بتائی جن کے بارے میں عمران خان کو معلوم ہے‘ جو صرف 183 ایف آئی آر بنتی ہیں۔ دوسری جانب ملک کی 176سیاسی جماعتوں میں سے صرف پی ٹی آئی کے الیکشن پر الیکشن کمیشن بار بار کہہ رہا ہے کہ میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا۔ پہلا انٹرا پارٹی الیکشن ہو یا الیکشن کمیشن کی ضد کی وجہ سے اندرونِ پارٹی کا دوسرا الیکشن‘ اُن دونوں پہ دو درجن اعتراضات لگائے گئے۔ ان اعتراضات کو دور کیا گیا تو پھر آواز آ گئی‘ میں نہیں مانتا۔ الیکشن کمیشن کی تسلی ایسے اَڑی ہوئی ہے کہ وہ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ بالکل سال 2023ء کے موسمِ سرما والی بارش کی طرح لہٰذا اب 40مزید اعتراضات کی فہرست لیول پلیئنگ فیلڈ کو یقینی بنانے کیلئے بڑی محنت سے تیار ہوئی ہے۔ اس محنت پر لیول پلیئنگ فیلڈ میں آپ سب کا مسکرانا بنتا ہے۔ لہٰذا کھل کر مسکرائیے۔ امید ہے آپ کی مسکراہٹ سے ملک میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے اندر فری اور فیئر پلے کا اکلوتا ریگولیٹر الیکشن کمیشن بھی ضرور ووٹرز کے چہرے پرمسکراہٹ دیکھنا چاہے گا۔
لیول پلیئنگ فیلڈ میں دوسرا قدم: اس قدم پر میرے اپنے بھائی بند فیلڈ میں آچکے ہیں۔ پاکستان بار کونسل‘ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن‘ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پنجاب بار کونسل نے موجودہ الیکشن کمیشن کی طرف سے حلقہ بندیوں کو مسترد کر دیا ہے۔ یہ اپنی طرز کا پہلا انتخابی ریکارڈ ہے جو پاکستان میں بناجس میں وکلاء برادری کی چار بڑی نمائندہ تنظیمیں کُھل کر سامنے آ چکی ہیں۔ اس سے پہلے انتخابی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں قانون دان‘ الیکشن کمیشن کی کارگزاریوں پر کبھی سراپا احتجاج نہیں ہوئے۔ یہاں میں اسلام آباد کے حلقہ NA-47کی حلقہ بندی کو اسلام آباد کے ووٹرز کی طرف سے اسی صف میں شامل کرنے پر مجبور ہوں جس کا اظہار وکلاء برادری نے کیا ہے۔
لیول پلیئنگ فیلڈ میں تیسرا قدم: ان دنوں پاکستان تحریکِ انصاف کے نام سے ملتی جلتی مختلف وَن مین نئی سیاسی پارٹیاں الیکشن کمیشن میں آ جا رہی ہیں۔ ان پارٹیوں کو بھی پی ٹی آئی لکھا گیا ہے۔ چند دن بعد ہو سکتا ہے سفید بلّا‘ سبز بلّا‘ سب رنگ بلّا کے انتخابی نشان بھی منظرِ سیاست پر نمودار ہو جائیں۔ ہر حال میں یہ تو مذاق ہے اس لیے اسے آوارہ مذاقی سمجھ کر یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کا تیسرا قدم وہ ہے جب پاکستان تحریکِ انصاف نے ملکی تاریخ کا پہلا ورچوئل جلسہ کیا۔ اس جلسے کو ڈیڑھ ملین سے زیادہ لوگوں نے معلوم سوشل میڈیا سائٹس پر دیکھا۔ لائیو سٹریم کے دوسرے ذرائع سمیت جلسے میں آٹھ ملین لوگ شریک ہوئے۔ جلسہ جیسا بھی ہو جلسہ ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں جلسہ ہوتا ہے وہاں پابندی بھی ہوتی ہے۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں جلسے کے وقت انٹرنیٹ سروسز کونظر بند کر دیا گیا۔ مجھ سے ایک صاحب کہنے لگے کہ عمران خان کو کہیں وہ ہفتے میں دو دن وِرچوئل جلسہ کیا کریں۔ میں نے جواب دیا کہ اگر وہ یہ اعلان کر دیں تو پنجاب پولیس فوری طور پر ٹائم لائن پہ کریک ڈاؤن کر کے آن لائن گرفتاریاں شروع کر دے گی۔ پولیس کے مختلف دستے یہ جلسہ روکنے کیلئے ٹویٹر پر آنسو گیس کی شدید شیلنگ کریں گے اور پھر انٹرنیٹ کی فائبر آپٹکس لائنوں پر لاٹھی چارج کرنے کیلئے سمندر میں کود جائیں گے۔
لیول پلئنگ فیلڈ میں چوتھا قدم: پی ٹی آئی کو کاغذاتِ نامزدگی حاصل کرنے‘ جمع کروانے اور امیدوار کھڑے کرنے کیلئے جو لیول پلیئنگ فیلڈ مل رہا ہے وہ آپ میڈیا‘ سوشل میڈیا پر براہِ راست دیکھ رہے ہیں۔ آزادانہ‘ منصفانہ اور قانون کی ''ق‘‘ دستور کی ''د‘‘ کے عین مطابق کھل کر پولیس اور سرکار استعمال ہو رہی ہے۔ ایسے میں الیکشن کمیشن نے ابھی تک کسی جگہ کوئی نوٹس نہیں لیا کہ پولیس کس اختیار کے نیچے بڑے بڑے پارلیمانی اور سیاسی لوگوں سے نامزدگی کے کاغذات چھین رہی ہے۔ شریف برادران کی عادت رہی ہے کہ وہ کوئی میچ خواہ وہ کرکٹ ہو یا پہلوانی‘ ریفری اور امپائر کی حمایت کے بغیر کبھی نہیں کھیلے۔ اب کی بار وہ چاہتے ہیں کہ فیلڈ میں دوسری ٹیم اترنے ہی نہ پائے۔ لیکن 25کروڑ لوگوں کی موجودگی میں ان کا یہ خواب‘ خواب ہی رہے گا۔ کالم کا یہ حصہ لکھنے سے چند گھنٹے پہلے چوہدری پرویز الٰہی سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ وہ دل کے مریض ہیں‘ دو بار شدید انجائنا کا اٹیک اُنہیں جیل میں ہوا۔ لیکن انہیں اڈیالہ سے چند کلو میٹر دور راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں چیک اَپ کیلئے بھی نہ لے جایا جا سکا۔ اس کے باوجود چوہدری پرویز الٰہی پوری ہمت سے عمران خان کیساتھ کھڑے ہیں۔ 8فروری 2024ء کے الیکشن کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ تیار ہو رہی ہے۔ ایسی فیلڈ جس پہ جاوید اختر نے چار سال پہلے نیا حکم نامہ یوں لکھ چھوڑا تھا:
کسی کا حکم ہے دریا کی لہریں
ذرا یہ سرکشی کم کر لیں اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا پھر بکھرنا اور بکھر کر پھر ابھرنا
غلط ہے یہ ان کا ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا
تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا
کسی کا حکم ہے
اس گلستاں میں بس اک رنگ کے ہی پھول ہوں گے
کچھ افسر ہوں گے جو یہ طے کریں گے
گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا
یقینا پھول تو یک رنگی ہوں گے
مگر یہ رنگ ہوگا کتنا گہرا کتنا ہلکا
یہ افسر طے کریں گے
کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں
ہوائیں حاکموں کی مٹھیوں میں ہتھکڑی میں
قید خانوں میں نہیں رکتیں
یہ لہریں روکی جاتی ہیں تو دریا کتنا بھی ہو پُر سکوں بیتاب ہوتا ہے
اور اس بیتابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں