ہم پڑھ رہے تھے دل میں اُتر جانے والی ایک ایسی گفتگو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد ابراہیم خان نے صوبے کے وکلا سے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے اکٹھ میں کی۔ درمیان میں انصاف سے متعلقہ بہت سے اہم ایشوز سامنے آگئے ہیں۔ مثال کے طور پرجس تیزی سے ریٹرننگ آفیسرز نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کئے تھے اُسی تیزی سے ملک کے پانچ ہائی کورٹس کے ججز پر مشتمل الیکشن ٹربیونلز نے ان فیصلوں کی اکثریت کو مسترد کر ڈالا۔
پی ٹی آئی سے بلا پھر چھین لیا گیا۔ اس طرح فری اینڈ فیئر الیکشن کروانے کے ذامہ دار ادارے کی پھرتی نے انتخابی عمل کو نہ فیئر رہنے دیا اور نہ ہی فری الیکشن کا کوئی تاثر باقی بچ سکا۔ ہلکا سا بھی نہیں۔وجہ صاف ظاہر ہے نواز شریف جس قدر تیز رفتاری سے پانامہ کرپشن کی سزا سمیت ملک سے بھاگے تھے اتنی ہی سپر سپیڈ کے ساتھ نواز شریف کے خلاف مقدمے بنانے والے ادارے ریورس گیئر لگا کر اپنے مقدموں سے پچھلے پائوں پہ بھاگ نکلے۔
پی ٹی آئی اپنابلّے کا نشان واپس لینے کے لیے گزشتہ جمعہ کے روز سپریم کورٹ جا پہنچی۔ اس ساری گمبھیرتا پہ سرکاری ٹی وی نے بازی جیت لی۔ جہاں سے سپریم کورٹ کے لیول پلینگ فیلڈ والے فیصلے کے الفاظ کے سامنے سوالیہ نشان لگاکر نشریات ہوئیں۔اس مرحلے پر جمہوریت ‘ رول آف لاء اور آئین کی بالادستی کے میدان میں ہم نے بے مثال ترقی کر دکھائی کیونکہ کبھی پاکستان کے انتخابات پہ شب خون مارنے والے یہ کام چھپ چھپا کر کیا کرتے تھے ‘اب ٹیکنالوجی آف پری پول دھاندلی اگلے لیول پر پہنچ چکی ہے۔ جہاں سرزمینِ بے آئین میں قانون کا حال جنم جلّی بیوہ جیسا ہے۔جس پہ جو چاہے ہاتھ اُٹھائے ‘ دست درازی کرے اُسے صرف دو حق مل سکتے ہیں۔ عارفِ کھڑی شریف میاں محمد بخشؒ کے بقول ‘ لِسے دا کی زور محمد‘رونڑاں یا نَس جانڑاں۔1973ء کے آئین کا المیہ یہ بھی ہے کہ وہ چاہنے کے باوجود بھاگنے سے عاری ہے۔اس قدر بے بس کی کئی بار کچلے جانے کے باوجود ایک آنسو بھی نہ بہاسکا۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جس طرح جسٹس کے اصولوں کی پاسداری کی ‘اُس کی وجہ اُنہوں نے خود بتائی۔وکلا کے ایک اجتماع کو بتایا کہ میں نے جج بن کر خانہ ٔخدا میں حاضری دی‘سجدے میں گیا اور حرمِ کعبہ کے روبرو اپنے مالک سے یہ عہد کیا ‘ اگر میں اس منصب پر پہنچا تو بغیر کسی خوف اور لالچ کے صرف اور صرف انصاف کو سربلند رکھوں گا۔
بات ہورہی تھی‘ ایک خاتون کو انصاف دینے کی۔ایسے میں قبل از طلوعِ اسلام کے ایران کا ایک مفکر'' شیوانا‘‘ یاد آگیا جس کے پاس ایک چھوٹا لڑکا بھاگتا ہوا آیا ۔ کہنے لگا: آپ میری چھوٹی معصوم بہن کی جان بچائیں ۔میری ماں عبادت کدّے کے بڑے کاھن کے کہنے پر بڑے بت کے قدموں میں اُسے قربان کر رہی ہے۔لڑکا اور شیوانا بت کے پاس پہنچے‘ سامنے معصوم بچی کی ماں ہاتھ میں چھرا پکڑے بند آنکھوں سے کچھ پڑھ رہی تھی۔ارد گرد لوگ جمع تھے ‘ بڑے بت کے ساتھ بھاری بتھر پر کاہن موجود تھا۔ ماں بیٹی کو گلے لگا کر والہانہ چوم رہی تھی۔ شیوانا نے پوچھا :بیٹی کیوں قربان کرنا چاہتی ہو؟عورت نے جواب دیا:کاہن نے بتایا ہے زندگی کی مشکلات ختم کرنے کے لیے سب سے عظیم ترین ہستی کو بت پر بلّی چڑھا دو۔ شیوانا نے قہقہہ لگایا اور کہا: تم بچی کا گلہ کاٹ رہی ہو ‘ یہ تمہارے لیے عزیز ترین کیسے ہوئی۔ تمہارا عزیز ترین پتھر پہ بیٹھا یہ کاہن ہے جس کے کہنے پر تم پھو ل سی بچی کی جان لینا چاہتی ہو۔پھر شیوانا نے بڑے بت کی طرف اشارہ کر کے عورت سے کہا: اُدھر دیکھو‘ یہ بت احمق نہیں ہے اُسے تمہاری سب سے عزیز ترین ہستی کی قربانی چاہیے۔تم بچی کا گلا کاٹنے کی غلطی مت کرنا۔ایسا نہ ہو کہ بڑا بت تم سے مزید ناراض ہو جائے کیونکہ کاہن تمہاری عزیز ترین ہستی ہے ‘جس کے کہنے پر تم اپنی بیٹی کا گلا تک کاٹنے پر تیارہو۔ناراض بت تمہاری زندگی کوجہنم بنا دے گا۔شیوانا کی یہ باتیں سُن کر عورت گہری سوچ میں پڑ گئی۔پھراچانک اُس نے بچی کے ہاتھ پائوں کھول دیے اور چھری ہاتھ میں لے کر کاہن کی طرف دوڑ پڑی مگر کاہن پہلے ہی وہاں سے جا چکا تھا۔اس کہانی کا مورال یہ ہے کہ دنیامیں صرف آگہی کو فضیلت حاصل ہے۔ اس لیے کہ آگاہ شخص اپنے کاہن کو پہچان سکتا ہے۔آج بھی کاہن دوسرو ں کوبلّی چڑھا کر اپنی نسلوں کو بت بنانا چاہتے ہیں۔جس نظام میں یہ بنیادی نا انصافی ہو ‘ اُس کے معصوم بچے اور اُن کی مائیں آگہی سے ہمکنار ہو کر کر جہالت سے انکار کر دیتی ہیں۔
اس دوران ایک اور واقعہ شکارپور سندھ میں بھی رونما ہوا۔یہ ایک مسلح ڈکیتی کی واردات تھی۔جو سندھ کے سول جج صاحب کے ساتھ ہوئی۔سول جج شکار پور کے نواح میں پہنچے تو اُن کو گن پوائنٹ پر لوٹ لیا گیا۔ڈاکو جج صاحب کا موبائل فون اور نقدی چھین کر بڑی آسانی سے فرار ہوگئے ۔ خبر کے مطابق جج نے لوٹنے والوں سے کہا ‘میں سیشن کورٹ کا جج ہوں ‘میرا خیال کریں۔ڈاکوئوں نے جواب دیا ‘جنابِ والا ہمارا قانون سب کے لیے برابر ہے۔ زہرہ نگاہ نے شاید کچّے کے جنگل کے ان ڈاکوئوں کے لیے ہی کہہ رکھا ہے۔
سنا ہے! جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے بار ایسو سی ایشن ہری پور میں وکلا کی دعوت پر خطاب کیا‘اس موقع پہ کچھ پبلک سرونٹ اور ججز بھی موجود تھے۔رول آف لاء کی موجودہ صورتحال بیان کرتے ہوئے اُن کے خطاب کا ایک حصہ پڑھنے ‘سننے کے قابل ہے۔
''رول آف لاء کے لیے کوئی ایسے آرڈرزآ جاتے ہیں ۔اُن کا ٹھیک ٹھاک معائنہ کر کے اگر واقعی کوئی ایسا کیس بنتا ہے کہ جو رول آف لاء کے لیے ضروری ہو تو بے شک وہ کیسز بھی بنایا کریں کیونکہ آج کل ہمارے ملک میں ایک روایت بن چکی ہے ۔ پورے پاکستان میں تو بہت زیادہ ہے لیکن ہمارے ہاں کسی حد تک یہ کوشش ہم کرتے ہیں کہ رول آف لاء اور Supremacy آف لاء کے لیے ہم اپنا کردار ادا کریں ۔ اگر رول آف لاء اور سپرمیسی آف لاء قائم رہتی ہے ۔تو انشاء اللہ ہم سب سروائیو کریں گے اور اگر خدانخواستہ رول آف لاء اور سپرمیسی آف لا ء نہ ہو تو سروائیول بڑا مشکل ہو جائے گا ۔ ڈپٹی کمشنر صاحب سے بھی یہ عرض ہے چونکہ یہاں پہ بیٹھے ہیں‘ ڈی پی او صاحب بھی بیٹھے ہیں کہ بے شک اپنے طریقے سے deviate مت کریں لیکن جہاں پہ آپ کو پتہ چل جائے کہ یہاں پہ کوئی بے گناہ آدمی ہے‘ اُس کی مدد کرنا فرض سمجھ کر ادا کریں۔‘‘ مصطفی زیدی نے رول آف لاء پہ کمال کا منظر نامہ کھینچا:
اے وطن کیسے یہ دھبے در و دیوار پہ ہیں
کس شقی کے یہ تماچے ترے رخسار پہ ہیں
اے وطن یہ ترا اُترا ہوا چہرا کیوں ہے
غُرفہ وبامِ شبستان میں اندھیرا کیوں ہے
درد پلکوں سے لہو بن کے چھلکتا کیوں ہے
ایک اک سانس پہ تنقید کا پہرہ کیوں ہے
کس نے ماں باپ کی سی آنکھ اُٹھا لی تجھ سے
چھین لی کس نے ترے کان کی بالی تجھ سے