ان دنوں ملک کی آخری بڑی عدالت سے بڑے فیصلے آرہے ہیں۔ کرۂ ارض پر آخری سانس لے کر دنیا سے اُٹھ جانے والے پرویز مشرف کو مرنے کے بعد پھر سے سزائے موت مل گئی۔ صدرِ پاکستان کو موت کی سزا دینے والے جج سیٹھ وقار بھی انتقال کر چکے۔ شاید یہ محاورہ کسی ایسے ہی موقع کے لیے بنا تھا ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘۔
دوسری جانب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے حیران و پریشان کُن خبریں سامنے آرہی ہیں۔ ایسی جن کی مثال ماضی ٔ مرحوم میں بھی نہیں مل سکتی۔ فوجداری قانون کے نامور وکیل اور پرویز مشرف کو سزائے موت کے مقدمے سے بری کرنے والے بینچ کے ہیڈ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم کورٹ کی جج شپ سے استعفیٰ دے دیا۔ جسٹس نقوی کے خلاف ملک کے معروف سیاسی کرداروں نے پہلے عدم اعتماد کی درخواستیں دلوائیں۔ پھر اُن کے خلاف جلسے اور مظاہرے منظم کیے۔ پھر آخر میں آئین کے آرٹیکل 209کے تحت اُنہیں سپریم کورٹ کی جج شپ سے ہٹانے کے لیے کارروائی شروع کروائی۔ اس کارروائی کے آغاز میں ہی جسٹس نقوی نے از خود عہدے سے ہٹنے کا فیصلہ کیا۔ ایسا فیصلہ سپریم کورٹ کی حد تک کم کم ملے گا۔ اور اتنا حوصلہ بھی۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ جسٹس نقوی‘ آپ اور ہم ایک ایسے سماج میں جیتے ہیں جہاں محلّے کا کونسلر بھی استعفیٰ نہیں دیتا۔ سیاست اور ریاست کے دوسرے اداروں میں بعض ایسے کردار‘ جن کی ناک بھی الزامات کے ڈھیر تلے دبی ہوئی ہے‘ استعفیٰ اُن کے لیے بھی شجرِ ممنوع ہے۔
جسٹس نقوی سے میری پہلی ملاقات سابق ڈی پی او گجرات راجہ منور کے مقدمے میں ہوئی۔ میں ملزم کا وکیل تھا اور سرگودھا سے تعلق رکھنے والے مدعی کی وکالت مظاہر علی نقوی ایڈووکیٹ کر رہے تھے۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج مجاہد مستقیم تھے جو بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔ مقدمہ سیالکوٹ کی جیل کے اندر 11سول ججوں کے دورے کے دوران مارے جانے کا تھا۔ پاکستان کی قانونی اور عدالتی تاریخ کا انتہائی ہائی پروفائل کیس۔ کچھ سال بعد ہم پھر کوئٹہ میں اکٹھے ہوئے۔ جہاں احتساب عدالت میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری میجر نادر ہزارہ کا مقدمہ چل رہا تھا۔ احتساب عدالت کے جج انور کاسی تھے۔ جو بعد میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ جسٹس کاسی کے خلاف بھی سیاسی مخالفین نے سپریم جوڈیشل کونسل میں آرٹیکل 209کی شکایات ڈالیں۔ ایک طویل کارروائی کے بعد جسٹس کاسی سرخرو ٹھہرے۔ اسی عرصے میں پوٹھوہار سے تعلق رکھنے والے جسٹس شوکت صدیقی کو گمشدہ افراد کے مقدمات اور عدلیہ میں مداخلت کاری پہ آواز اُٹھانے کے جرم میں اسلام آباد ہائی کور ٹ کی جج شپ سے ہٹا دیا گیا۔ جسٹس نقوی لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے اور پھر سپریم کورٹ تک پہنچے۔ اس دوران وکلا برادری اور سائلوں کی دنیا میں اُنہیں فوجداری قانون کا بہترین دماغ مانا جاتا ہے۔ اُن کے ساتھ کہوٹہ سے تعلق رکھنے والے جسٹس سردار طارق‘ جو کچھ دن پہلے قائم مقام چیف جسٹس بھی رہے‘ ان دونوں کے بینچ نے ہزاروں پیچیدہ کرمنل اپیلوں اور دوسرے مقدمات کو ہنر مندی اور تیز رفتاری سے نمٹانے کا اعزاز حاصل کیا۔ جسٹس نقوی کے استعفیٰ کی خبر سُن کر میں نے دیرینہ تعلقِ خاطر کی وجہ سے اُنہیں ٹیلی فون کیا۔ وہ پروفیشنل پریکٹس کے علاوہ ملکی معاملات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
جسٹس نقوی کے استعفیٰ کے 24گھنٹے کے اندر اندر سپریم کورٹ آف پاکستان کے اگلے چیف جسٹس‘ جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ با خبر وکالتی حلقوں میں جسٹس اعجاز الاحسن کے اس فیصلے کو برادر جج کے خلاف کارروائی پہ احتجاج سمجھا جا رہا ہے۔ ایسی مزید خبریں بھی گردش میں ہیں۔ استعفیٰ دینے سے صرف دو دن پہلے جسٹس اعجاز الاحسن نے جسٹس نقوی کے خلاف ہونے والی کارروائی کو غیر منصفانہ‘ رولز اور روایات کی نفی قرار دیا۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنے تحریری مؤقف کا کھل کر اظہار کیا۔ یہ ہماری جوڈیشل تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ ''اِن دی لائن آف چیف جسٹس‘‘ میں کھڑے کسی جج نے عہدہ سنبھالنے سے چند ماہ پہلے مستعفی ہونے کی تاریخ رقم کی۔ اس سلسلے کی بہت سی وجوہات ناقابلِ بیان و اشاعت بھی ہیں لیکن اس حوالے سے اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ میدانِ وکالت کے بعد ہمارے نظامِ عدالت میں بھی گہری گروپنگ اور کھلی پولرائزیشن موجود ہے۔
سپریم کورٹ سے تیسرا فیصلہ وہ سامنے آیا ہے جس سے 1973ء کا اسلامی دستور سیکولر اور لبرل تشریحات کی زد میں آگیا۔ ویسے بھی رجیم چینج کے بعد سے 1973ء کا دستور جس قدر بے حیثیت‘ بے توقیر اور بے وقعت کیا جا رہا ہے‘ اسے آپ دستور کے لیے اس دور کی کربلا کہہ لیں۔
اب چلئے مرے کو مارے شاہ مدار کیس کی طرف۔ پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1999ء کو آئین توڑ کر پاکستان کی پانچ پارلیمنٹ کے ایوانوں کو رخصت کر دیا۔ 12اکتوبر کے مارشل لاء کو ہمارے پوٹھو ہاری پارلیمنٹیرین سید ظفر علی شاہ نے چیلنج کیا تھا۔ (حوالے کے لیے ملاحظہ کریں PLD 2000سپریم کورٹ‘ صفحہ نمبر869)۔ اس رپورٹ شدہ مقدمے کا عنوان ہے ''ظفر علی شاہ بنام جنرل پرویز مشرف‘‘۔ اس غیر آئینی انقلاب کے بعد بھی‘ اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد بھی‘ (ن) لیگ کے منتخب کردہ صدر رفیق تارڑ نے مارشل لا ء کا طوقِ غلامی اپنے گلے میں ڈالے رکھا۔ پرویز مشرف نے جس پارلیمنٹ کو توڑا تھا‘ اس کی ڈیفینیشن اور کمپوزیشن آئین کے آرٹیکل نمبر 50میں کی گئی ہے‘ جس کے الفاظ یہ ہیں:
There shall be a Majis-e-Shoora (Parliament) of Pakistan consisting of the President and two Houses to be known respectively as the National Assembly and the Senate.
اوپر لکھے ہوئے آئین کے آرٹیکل نمبر50‘ جس کے تین حصے ہیں‘ ٹوٹنے والی پارلیمنٹ کا پہلا حصہ صدرِ پاکستان تھا۔ صدر مشرف کے نیچے بیٹھنے سے ووٹ کو عزت دینے والے نواز شریف نے اس عزت کا اپنے ہاتھوں سے جنازہ نکالا۔ وزیراعظم پاکستان کی چھ پارلیمانی ایوانوں میں سے ایک سے منتخب ہوتا ہے‘ جو قومی اسمبلی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی ریاست کا صدر چاروں صوبائی اسمبلیوں‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منتخب ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ ٹوٹ جائے‘ صدر ہاؤس پہ پرویز مشرف قبضہ کر لے‘ اس کے باوجود صدر تارڑ بیٹھا رہے۔ نہ اُسے پارٹی سے نکالا جائے‘ نہ اُسے جماعت شوکاز نوٹس کرے۔ پارٹی کا صدر پارٹی کی حکومتیں توڑنے والے پرویز مشرف کا سہولت کار بنے تو اس کا مطلب آپ خود نکال لیں۔ (جاری)