"SBA" (space) message & send to 7575

موت کو دیکھ کر مسکرانے والے کا مستقبل

قانون و انصاف کی دنیا کا انصاف کی فراہمی کے حوالے سے بنیادی نظریہ یہ ہے: Justice rushed is justice crushed۔ یعنی انصاف کرنے کے نام پر تیزی کرنے کا مطلب انصاف کو کچل کر رکھ دینا ہے۔ 18ویں صدی کے آخر سے آج تک انصاف کو بلڈوز کرنے کے بہت سے واقعات ہوئے۔ اس طرح کے مقدمات میں انصاف کے نام پر جلد باز‘ بے انصافی کرنے والے اپنی زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی اپنے کردار پر لگے کالے داغ نہ دھو سکے۔ جیسا کہ 20ویں صدی کے وسط میں جسٹس کو کرش کرنے والا جج محمد منیر‘ یا پھر دو صدیوں کے سنگم پر انصاف کے نام پر دھبہ لگانے والے جج ملک قیوم۔ منصفوں کی یہ قبیل مسلسل تاریخ کے دروں کی زد میں رہتی ہے کیونکہ تاریخ کبھی نہ ریٹائر ہونے والا ایسا منصف ہے جسے بے لاگ اور دلیرانہ انصاف کرنے کے لیے کسی منشی‘ مشدی‘ فرنٹ مین اور پی آر او کی ضرورت نہیں پڑتی۔ تاریخ اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ بڑے لیڈروں کے ٹرائل اور ان کو ملنے والی سزائیں‘ جن کے فیصلے جج صرف پڑھتا ہے‘ کو لکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ ایسے سب حقائق‘ ساری تفصیلات ڈھونڈ نکالنے والے سب سے بڑے کھوجی کا نام ''تاریخ‘‘ ہے۔ آپ اسے موجودہ دور کا جولین اسانج (Julian Assange) فیکٹر کہہ سکتے ہیں۔
تقسیمِ ہند کے بعد برصغیر کا جو حصہ پاکستان بنا تھا‘ اس خطے میں آج تک اس طرح کے کئی کینگرو کورٹ ٹرائل مسلسل تاریخ کا حصہ بنے ہوئے ہیں‘ جن میں سے ایک ٹرائل بمبئی کی ریذیڈنسی میں ہوا۔ دورِ غلامی کا شہرِ قائد کراچی تب بمبئی ریزیڈنسی کا حصہ تھا۔ تاریخی خالق دینا ہال کو آزادی پسندوں کے خلاف جھوٹے مقدموں میں ٹرائل کے لیے کینگرو کورٹ روم بنایا گیا۔ بیسیوں صدی کے پہلے دو عشروں میں پہلا ٹرائل ابوالکلام آزاد (11نومبر 1888ء تا 22فروری 1958ء) اور دوسرا ٹرائل شوکت علی کا ہوا تھا۔ ابو الکلام آزاد تین مرتبہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر رہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران تقریباً ایک عشرے تک مرکزی کابینہ کے وزیر بھی رہے۔ ان سے ذرا پہلے خلافتِ عثمانیہ کی بحالی کے لیے مولانا محمد علی جوہر (10 دسمبر 1878ء تا 4 جنوری1931ء) انڈین نیشنل کانگریس کے کچھ عرصے تک کے لیے صدر منتخب ہوئے تھے جن کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی (10مارچ 1873ء تا 26 نومبر 1938ء) ہیں۔ ان دونوں بھائیوں نے مل کر اُردو ہفت روزہ ہمدرد اور انگلش ویکلی کامریڈ کے نام سے اخبارات جاری کیے۔ 1915ء میں علی برادران نے تاجِ برطانیہ کے خلاف ترک عثمانیوں کی جنگ کو جائز اور برحق قرار دیا جس کے نتیجے میں انہیں 1919ء میں غداری کے ایک غیر منصفانہ اور انسانیت سوز قانون کے تحت 1921ء تک اور پھر 1923ء میں دوبارہ پابندِ سلاسل رکھا گیا۔
1947ء میں آزاد ملک پاکستان معرضِ وجود میں آنے کے بعد دورِ غلامی کے مقدمات اور جابرانہ آدابِ حکمرانی صرف 4‘ 5 سال کے مختصر عرصے کے اندر اندر واپس دَر آئے۔ سیاسی انتقام‘ آرڈر آف دی ڈے ٹھہرا جس کے لیے ماورائے آئین طریقے سے پاور کاریڈور میں گھسنے والے حکمرانوں نے اپنے کالے کرتوتوں پرملک کے جوڈیشل سسٹم کو بطور شیلڈ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس عہدِ ستم در ستم کی انتہا عہدِ ضیا میں ہوئی جب ایک انتہائی متعصب اور سیاسی جج مولوی مشتاق نے وَن مین وَن ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے پاکستان کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ وہ بھی ایک ایسے مقدمے میں جس میں عدالتی مقتول وزیراعظم بھٹو شہید کے خلاف محض سازش جیسی دفعہ PPC109 کا بے ہودہ الزام لگایا گیا تھا۔
میں نے 2011ء میں وفاقی وزیر قانون کی حیثیت سے اس عدالتی قتل کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت چیلنج کرنے کا صدارتی ریفرنس تیار کیا۔ ساتھ ہی اس تاریخی ناانصافی کا داغ دھونے کے لیے وزارت کے منصب سے سپریم کورٹ کے بنچ نمبر ایک میں کھڑے ہو کر فُل کورٹ کے روبرو وفاقی وزیر قانون کی حیثیت سے مستعفی ہو کر بطور پروفیشنل وکیل بھٹو شہید کا مقدمہ لڑنا شروع کر دیا۔ نظمِ شاہی کی شان میں اس گستاخی کے نتیجے میں میرے ساتھ کیا ہوا‘ یہ ایک الگ سے معلوم تاریخ ہے۔ شکر ہے وہی مقدمہ ان دنوں نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا نیا بنچ سن رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا مقدمہ براہِ راست ٹی وی سکرینوں اور سوشل میڈیا پر بھی نشر ہو رہا ہے۔
اسی دوران پاپولر ووٹ سے منتخب ہونے والے ملک کے وزیراعظم نے امریکہ کی شان میں گستاخی کر دی۔ افغانستان پر پھر سے حملہ آور ہونے کے لیے امریکہ کو اڈے دینے کے سوال پر Absolutely Not والی گستاخی۔ ''رجیم چینج‘‘ کی اندرونی تفصیلات پر آپ میری پانچویں کتاب ''رجیم چینج اور توہینِ ریاست‘‘ پڑھ لیں۔ اسے جمہوری پبلیکیشن نے شائع کیا جس میں روزنامہ دنیا میں چھپے کالم اور دوسرے چشم کشا واقعات شامل ہیں۔ یہ تحریر لکھتے وقت Justice rushed فارمولا کے تحت بانی پی ٹی آئی کو تین مقدموں میں 27 سال قیدِ بامشقت کی سزا دی جا چکی ہے‘ جن میں آئین کے آرٹیکل 10 اور آرٹیکل 10-A میں دیے گئے فیئر ٹرائل اور ڈِیو پراسیس جیسے بنیادی انسانی حقوق کی گارنٹیاں بلڈوز کر دی گئیں۔ تفصیلات آپ دیکھ رہے ہیں‘ سن رہے ہیں اور پڑھ بھی رہے ہیں مگر دو اَن کہی باتیں یہاں پڑھ لیں۔
پہلی اَن کہی بات: ضابطہ فوجداری کی دفعہ 371 کے تحت ٹرائل کورٹ کا جج لکھا ہوا فیصلہ عدالت میں پڑھ کر اس کی تصدیق شدہ کاپی ملزم کو اسی وقت پکڑانے کا پابند ہے۔ سائفر کیس کا فیصلہ تین دن بعد جمعرات کے روز سامنے آیا۔ سیدھی بات ہے کہ سزا دیتے وقت فیصلہ ہوتا تو اس کی کاپی ملزم کو مل جاتی۔ اب اپیل اور درخواست ضمانت سوموار پر چلی گئی۔ توشہ خانہ کیس میں پہلی سزا جج دلاور نے دی اور دوسری سزا جج بشیر نے دی‘ دونوں سزائیں آئین کے آرٹیکل 13کی کھلی توہین ہیں۔
Article 13: Protection against double punishment and self incrimination
No person--
(a) shall be prosecuted or punished for the same offence more than once
دوسری اَن کہی بات: ملٹری ٹرائل کورٹ‘ انسدادِ دہشت گردی عدالت‘ سیشن ججز پہلے ہی جن واقعات کے مقدمے سُن رہے ہیں ان پر کابینہ کمیٹی بنانے کا مطلب PTI پر پابندی لگانے کا ریفرنس تیار کرنا ہے۔ عبوری حکومت کس آئینی اختیار سے ایسا کر سکتی ہے؟
اقوامِ عالم اور اس کی تاریخ صرف اس بطلِ حریت کو یاد رکھتی ہے جو موت کو دیکھ کر مسکرانے کی ہمت رکھے۔ جیسے حیدر کا بیٹا شیرِ میسور ٹیپو سلطان۔ دوسری چوائس غلام وظیفہ خوار کی حیثیت سے چند مزید سانسیں جینے والے بہادر شاہ ظفر والی ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ٹیپو سلطان چوائس نہیں پاگل پن ہے۔ ہو سکتا ہے عہدِ ستم کے مسلسل وظیفہ خواروں کو یہ تحریر بھی پاگل پن کا دورہ نظر آئے۔ جان لو مستقبل اور آنے والا وقت موت کو دیکھ کر مسکرانے والے کا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں