جنوب مشرقی ایشیا کی سیاسی تاریخ گواہ ہے‘ بلکہ کسی حد تک دنیا بھر کی پارلیمانی تاریخ میں ایسا کچھ بھی کبھی نہیں ہوا جو 2024ء کے پاکستان میں آج ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پہ کسی جگہ‘ کسی بھی عدالت میں‘ کبھی یہ سیاسی Claim نہیں مانا گیا کہ آپ اُس سیاسی جماعت کے پکے ممبر ہیں جو آپ کو سرے سے ممبر ہی نہیں تسلیم کرتی۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی ممبرشپ کے کچھ کلیمنٹ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ بلّے کا نشان واپس لینے کے لیے جن کو مقدمہ بازی میں آپ نے کھل کھیلتے دیکھا تھا۔ مگر حیران کن بات یہ ہے‘ قیدی نمبر 804 سے بلّا چھیننے کے بعد اُن سارے پکّے ممبران میں سے کسی ایک کو بھی کسی نے الیکشن 2024ء میں امیدوار بنتے نہیں دیکھا۔ نہ تو قومی اسمبلی کے الیکشن میں اُن حضرات میں سے کوئی امیدوار بنا اور نہ ہی صوبائی اسمبلی میں اصلی تے وڈی ممبرشپ والوں کی طرف سے‘ قیدی اور زنجیروں میں جکڑی ہوئی PTI کے خلاف کوئی امیدوار بننے کی ہمت کر سکا۔ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ یہ بھی بھلا کوئی کہنے والی بات ہے۔ یہ سب PDM ٹو کے سیزن ٹو کا فرمائشی پروگرام تھا‘ جسے آپ قیدی نمبر 804 کے لیے آزمائشی پروگرام بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک ایسی آزمائش جس میں شیر دل قیدی نے سب زور آوروں کے چھکے چھڑا کر دکھا دیے۔ سارا پروگرام یہ تھا کہ الیکشن 2024ء یکطرفہ بنا دیا جائے۔ نہ مقابلے میں پارٹی‘ نہ انتخابی نشان اور نہ ہی امیدوار ہوں؛ چنانچہ ہماری انتخابی تاریخ میں یہ الیکشن ایک ایسی میراتھون دوڑ تھی جس میں صرف ایک رنر‘ نواز شریف نے دوڑنا تھا۔ اُس کی دوڑ‘ دوڑنے کی ایکٹنگ سے آگے نہ بڑھ سکی اور اکیلا رنر اپنے آپ سے ہار بیٹھا۔
8 فروری کے الیکشن کے بعد جمعہ کے دن میں نے قیدی نمبر 804 سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی۔ شیر دل قیدی نے پوچھا: بابر الیکشن پہ آپ کے کمنٹس۔ ہماری باقی گفتگو کو چھوڑ کر میں نے کہا: ہماری تاریخ کے تین سیاسی معجزے آپ کو بتانے کے قابل ہیں۔ آئیے یہ معجزے آپ سے بھی شیئر کر لیں۔
سیاسی تاریخ کا پہلا معجزہ: پچھلے 76 سال سے ایک بات طے کر دی گئی تھی۔ پاکستان میں کچلے ہوئے طبقات اور روٹی کے مارے ہوئے عوام‘ انقلاب کبھی نہیں لا سکتے۔ 8 فروری کے دن بے آسرا اور تنہا لوگوں نے ملک کے طول و عرض میں صرف اپنی طاقت سے سافٹ ریولیوشن برپا کر کے دکھا دیا۔ ساتھ یہ بھی ثابت ہوا کہ پاکستانی ووٹرز کا اجتماعی شعور میچورٹی کے اُس لیول پر چلا گیا ہے جہاں کوئی پروپیگنڈا‘ کسی قسم کا لالچ‘ تشدد‘ بے عزتی اور دھمکی اس شعور کو شکست نہیں دے سکتے۔ الیکشن کے دن اور انتخابی مہم میں‘ قیدی نمبر804 اُس کا سب سے بڑا سیاسی ہتھیار بلّا‘ اشتہاری مہم میں سے غائب تھے‘ لیکن قیدی نمبر 804 کے اشتہار کو بین کر کے یہ سمجھنے والے کہ اُس کے دیے ہوئے سیاسی شعور کو وہ شکست سے دوچار کر لیں گے‘سب کے سب شکست کھا گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قیدی نمبر 804 نے پہلی بار بیلٹ سے بُلٹ جیسا کام لیا‘ جو عین نشانے پر لگی۔ میں نے شیر دل قیدی کو بتایا: تصور کریں اگلا الیکشن ہے‘ آپ ساتھ ہیں‘ قوم کا اجتماعی شعور ہے‘ الیکشن مہم کی آزادی ہے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہے‘ وہی مشین جس سے بھارت اور امریکہ جیسے بڑے ملکوں میں جمہوری الیکشن ہوتے ہیں۔ مجھے یقین ہے ایسا الیکشن جلد ہو گا اور قیدی نمبر 804 کا لایا ہوا سافٹ انقلاب ریاست اور شہریوں کے درمیان ایک نئے عمرانی معاہدے کا نقطہ آغاز بنے گا۔ جس میں خلقِ خدا راج کرے گی‘ ووٹ کی پرچی کو تکریم ملے گی اور طبقاتی تقسیم ختم کرنے کے لیے نئے سفر کا آغاز ہو گا۔ دستور سب پہ بھاری ہو گا۔ سیاست کاروبار نہیں بن سکے گی اور عوامی شعور کو لاٹھی‘ گولی کی سرکار سے دبانے کا مکروہ دھندہ بند ہو گا۔
سیاسی تاریخ کا دوسرا معجزہ: یہ بھی 76 سال سے کہا گیا اور ہوتا رہا کہ الیکشن پیسے کے بغیر نہیں لڑا جا سکتا۔ پیسے سے میری مراد Big Money تھا۔ اس دفعہ MPA کی سیٹ 15‘ 20 کروڑ کا خرچہ اور MNA کی سیٹ 25‘ 30کروڑ کے خرچے کا مارکیٹ ریٹ نکلا تھا۔ اسی تناظر میں مَیں نے قیدی نمبر 804 کو یاد دلایا‘ جس پر ہم دیر تک ہنستے رہے۔ بات یہ ہوئی کہ آپ نے کہا تھا‘ میں جیل میں بیٹھ کر کھمبے کو ٹکٹ دوں گا تو کھمبا بھی جیت جائے گا؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ PTI کے امیدواروں نے الیکشن 2024ء میں ایک آنے کا خرچہ نہیں کیا۔ نہ پولنگ کیمپ‘ نہ ووٹرز ٹرانسپورٹ‘ نہ جلسے کا خرچہ‘ نہ کارنر میٹنگ‘ نہ الیکشن آفس‘ نہ کسی کو چائے کا پوچھا نہ پانی‘ بریانی تو بڑی دور کی کہانی ہے۔ قیدی نمبر804 کے ووٹر خود پولنگ سٹیشن پہنچے۔ جہاں پہنچ کر پوچھا اس حلقے میں PTI کا امیدوار کون ہے اور اُس کا انتخابی نشان کیا ہے۔ میرے کالج کے دوست نواب اسلم رئیسانی کی زبان میں‘ کھمبا کھمبا ہوتا ہے‘ نہ وہ چلتا پھرتا ہے‘ نہ وہ خرچہ کرتا ہے۔ دوسری جانب اربوں اشتہاروں پر لگے اور کروڑوں کھابوں پر۔
سیاسی تاریخ کا تیسرا معجزہ: پیر سید مردان شاہ پگارا کی گدی تاریخِ آزادی کا اہم ترین لینڈ مارک اور سنگِ میل ہے جہاں انگریزی استعمار کے خلاف لازوال داستانیں رقم ہوئیں۔ اُس گدی کے موجودہ پیر پگارا صبغت اللہ شاہ راشدی نے ایک سرمست اعلان کیا۔ وہ دو نشستیں‘ جو اُنہیں بھیک کی طرح بھیجی گئیں‘ وہ واپس کرنے کے لیے بڑا جلسہ منعقد کیا۔ جس میں سندھ کے باسیوں کو بتایا کہ قیدی نمبر 804 فرشتہ نہیں‘ انسان ہے۔ اُس پر چوری کے الزام کو پیر پگارا نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ کہا: اگر عمران خان چور ہے تو پھر ہم سب چور ہیں۔ یہ بھی قومی شعور کی ایک نئی لہر کا ثبوت ہے کہ جیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ سیٹ مجھے Balancing Act کے طور پہ دی گئی‘ اس لیے میں اسے جوتی کی نوک پہ رکھتا ہوں۔ محمود خان اچکزئی سے لے کر اویس نورانی تک سب PTI کے جیتے ہوئے الیکشن کی ڈکیتی پر بولے اور مینڈیٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کیا۔ اس بڑے پیمانے پر پارٹی لائن سے اوپر اُٹھ کر پاکستانی سیاست لائن میں کبھی مشکوک انتخابی عمل کو یوں ایکسپوز نہیں کیا گیا۔ یہ اس بات کا حتمی ثبوت ہے کہ قوم جاگ رہی ہے اور تاریکی بھاگ رہی ہے۔ جلد یا بدیر‘ پاکستان جمہوریہ بنے گا‘ خالص جمہوریہ! جس کے بغیر نہ کوئی مستقبل ہے جمہوریت کا اور نہ ہی کوئی چانس ہے معاشی بحالی کا۔ اس معجزاتی ماحول سے ریاست کے منیجروں کو فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ قوم کے اجتماعی شعور کو چند سکوں کے عوض بکنے والے خود فروشوں کی حمایت کے بجائے اس شعور کو اونرشپ دینا ہو گی۔ الیکشن 2024ء میں قوم کا دو سطری فیصلہ یہ ہے: Prisoner 804 is banned but is not beaten۔