اِس وقت جو انگریزی کتاب میرے سامنے کُھلی پڑی ہے‘ اُس کا عنوان ہے ''دنیا کے آئین‘‘۔ کتاب میں شامل مختلف براعظموں کے مختلف ملکوں کے ہر آئین میں دو باتیں قدرِ مشترک ہیں‘ 1973ء کے پاکستانی دستور سمیت۔ ہمارے دستور میں دساتیرِ عالم کی پہلی قدرِ مشترک یہ ہے کہ ہم اپنی قومی اور سیاسی وحدت کو ہر طرح سے محفوظ بنائیں گے جس کے لیے مختلف الخیال سوسائٹی (Egalitarian) اور New Order قائم کیا جائے گا۔ 1973ء کے آئین کے الفاظ یہ ہیں:
Inspired by the resolve to protect our national and political unity and solidarity by creating an egalitarian society through a new order.
بانیٔ پاکستان حضرتِ قائداعظمؒ کے دیے ہوئے قومی ایجنڈے کا نقطۂ اول بھی ہوبہو یہی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں نیشنل یونٹی ایک سرکاری نعرہ سمجھا جاتا ہے۔ اُس کی مسلسل وجوہات ہیں جن میں پاکستان کے عوام کا کوئی قصور نہیں۔ دراصل ہوا کچھ یوں کہ پچھلے 76 سال میں جب جب‘ جس جس نے آئین توڑا اور ماورائے آئین اقدام کے ذریعے پولیٹکل یونٹی یعنی سیاسی وحدت کے پرخچے اُڑائے‘ اُس نے پولیٹکل یونٹی کے قتلِ عام کے لیے نیشنل یونٹی کا نعرہ لگایا‘ وہ بھی شخصی اقتدار کے قیام و دوام کے لیے۔
دوسری قدرِ مشترک یہ ہے کہ دنیا کی ہر ریاست اپنے عوام کو مقتدرِ اعلیٰ بناتی ہے۔ پاکستان کے آئین میں بھی عوام کو الٹیمیٹ Sovereign لکھا جاتا ہے۔ اس لکھے ہوئے حرفِ تقدیس کو پاکستان کی مقتدرہ اور اشرافیہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ پاکستان کے شہریوں اور ریاست کے درمیان بداعتمادی کی جو فضا پائی جاتی ہے اس کی وجہ طاقتور طبقات کی طرف سے کمزور طبقوں کو طاقت کا سرچشمہ ماننے سے مسلسل کُھلا انکار ہے جس کی گھنائونی مثال دو سال پہلے رجیم چینج سے سامنے آئی تھی۔ پھر رجیم چینج نے اکثریتی پارلیمانی طاقت کو غیر پارلیمانی قوت سے حصے بخرے کر کے PDMحکومتوں کے سیزن وَن کو زبردستی مسلط کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دو سال تک پاکستان سرزمینِ بے آئین بنا رہا۔ مگر وقت آنے پر قوم کے اجتماعی شعور نے اس طرزِ سیاست پر زبردستی چلنے سے انکار کر دیا۔ دوسری جانب ریاست کی ساری طاقت نے اقلیت کو اکثریت پر حاوی کرنے کے لیے زور لگائے رکھا۔ عوام اور مقتدرہ کی اس شدید کشمکش کے دوران سال 2024ء طلوع ہوا۔ جنرل الیکشن کے نام پر سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس‘ جناب جسٹس عقیل احمد عباسی کے بقول: ڈرائنگ روم میں بٹھا کر عہدے بانٹے گئے‘ ایسے الیکشن کی کیا ضرورت تھی؟ قومی درد سے بھرپور یہ ریمارکس سندھ ہائیکورٹ میں ملک بھر میں انٹرنیٹ کی بندش کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران جاری ہوئے۔ اس ڈویژن بنچ میں چیف جسٹس عقیل احمد عباسی اور جسٹس مبین لاکھو شامل تھے۔ جنہوں نے ایکس (ٹویٹر) سمیت انٹرنیٹ کی دیگر ایپس بحال کرنے کا حکم دیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے آزادیٔ اظہارِ رائے اور فریڈم آف پریس کے حوالے سے کمال کا پیرائیہ اپنایا۔ چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس میں پاکستان کے عوام کو سمجھدار قرار دیتے ہوئے کہا: لوگ خوب جانتے ہیں‘ کون کیا کروا رہا ہے۔ ساتھ ہی کہا: پریشر کُکَر کی ہلکی سیٹی بجتی ہے تو اسے بجنے دیں‘ کہیں ایسا نہ ہو دھماکا ہو جائے۔ دساتیرِ عالم کے اسی تیسرے نکتے پر ان کا کہنا تھا: یوں لگ رہا ہے جیسے سارے ادارے بے وقعت ہو چکے ہیں۔ PDM ٹو کی حکومت کا سیزن ٹو شروع کرانے کے لیے قومی وسائل پر چلنے اور پلنے والے ادارے اس وقت کہاں کھڑے ہیں‘ یہ حقیقت چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے بڑی دردمندی سے بیان کر ڈالی۔ ایسے میں پاکستان کے شہریوں اور ریاست کے مابین جو عمرانی معاہدہ 12 اپریل‘ سال 1973ء کے روز ہوا تھا‘ اس کی حیثیت اَب کیا رہ گئی ہے؟ آئیے اسے قومی منظر نامے میں تلاش کرتے ہیں۔
سوشل کنٹریکٹ کی پہلی تلاشِ گمشدہ: الیکشن کمیشن‘ عدالت عظمٰی آئینی طور پر موجودہ قومی منظر نامے میں سب سے زیادہ سپاٹ لائٹ میں ہیں۔ اِن دونوں دستوری اداروں سے ابھی تک کوئی ایسا امید افضا اقدام سامنے نہیں آیا جس کے ذریعے سے چوری شدہ مینڈیٹ 2024ء کی بازیابی کا اشارہ ملتا ہو۔ فریادیوں سے ہونے والا سلوک بھی مثالی نہیں۔ اِس بے اعتنائی کے نتیجے میں مینڈیٹ کی چوری کے متاثرین اور ان کے ووٹرز‘ دونوں کو مسلسل احساسِ ندامت دِلا دِلا کر غم و غصے کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ 2024ء کا الیکشن جیتنے والی سب سے بڑی پارٹی پاکستان تحریک انصاف اور قیدی نمبر 804 سے کُھلے عام پارلیمانی سیٹیں چھینی جا رہی ہیں۔ لیکن آئینی ادارے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے پہ بھی تیار نہیں۔ ایسے میں بجا طور پر یہ آوازیں زور پکڑ رہی ہیں کہ پاکستان کو ایک نئے دستور کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ اسے 1970ء کے عشرے میں زبردستی جینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔
سوشل کنٹریکٹ کی دوسری تلاشِ گمشدہ: عوام نے 8 فروری کو اپنے ووٹ کی طاقت سے جو فیصلہ کیا تھا اسے 9 فروری کو بدل ڈالا گیا بلکہ عوامی فیصلے کو بدلنے کے لیے غیر عوامی طاقتیں ہارے ہوئے لشکر کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ بے تحاشا‘ بے اندازہ‘ بے رحمانہ اور کھلی سرپرستی۔ آزادیٔ اظہار‘ آواز اور احتجاج جیسے بنیادی انسانی حقوق کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ آئین میں انسانی اور بنیادی حقوق کے باب پر عملی طور پہ تالے پڑے ہیں۔ ہم ایک ایسا سماج بنا دیے گئے جہاں بنیادی انسانی حقوق مانگنا اور ان کا نافذ کرانا شجرِ ممنوعہ کا میوہ ہے۔ ایسا میوہ جسے چکھنے کی خواہش رکھنے والا بندی خانے کی ہوا کھاتا ہے۔ ظاہر ہے اس زمینی صورتحال میں حالات بدلنے کے لیے دستور بدلنا ہو گا۔ حبیب جالب نے سچ کہا:
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو‘ صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر‘ کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا