پوٹھوہاریہ پروفیسر اور ہندوؤں کی قدیم و جدید تاریخ میں راج نیتی کا سب سے بڑا دیوتا کوٹلیہ چانکیہ اپنی ارتھی کی راکھ میں تڑپ رہا ہے۔ اسی طرح سے مارکسزم کا بانی ولادیمیر لینن اپنی آخری آرام گاہ میں بے چین ہے جبکہ ویسٹ منسٹر ماڈل ڈیموکریسی والے سر پیٹ رہے ہیں۔ امریکہ کے تھنک ٹینک اور افریقہ کے آدم خور جنگلی قبیلے کے سردار بھی پریشان ہیں۔ اس عالمی حیرانی و پریشانی کا سبب یہ ہے کہ یہ سارے مل کر اپنے لوگوں کے لیے وہ کیوں نہ کر سکے جو پنجاب کی ایک خاتون نے اپنے گھر کی سیٹ پر الیکشن ہارنے کے بعد کر دکھایا۔ یہی نہیں بلکہ بقلم خود اپنی سیٹ ہارنے والے اس کے عم نے اس سے اگلا کمال کیا۔ آتے ہی قوم کو خوشخبری سنائی کہ مقامی اسیمبل گاڑیوں پر 25 فیصد GST گُڈ گورننس کی نقاب کشائی کے طور پر پیشِ خدمت ہے۔ ماہِ رمضان میں گیس کی قیمتوں میں تین بار اضافے کا تحفہ اس کے علاوہ۔ وفاق میں آلِ شریف کو پانچویں مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھایا گیا ہے۔ اتنا اقتدار پاکستان بنانے والے قائداعظم‘ علامہ اقبال اوراُن کی اولاد‘ لیاقت علی خان‘ سردار عبدالرب نشتر کی آل‘ پاکستان کے لیے جانیں لڑانے والے بزرگوں‘ بچوں اور ماؤں کے خاندانوں نے مل کر بھی نہیں دیکھا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ وطنِ عزیز میں جو جتنا زیادہ کھاتا ہے اور اُس میں سے کچھ لگاتا ہے‘ وہی ہمیشہ اقتدار پاتا ہے۔ دوسری جانب جو جتنا زیادہ بولتا ہے اور وطن کو لٹتے دیکھ کر جس کا خون کھولتا ہے‘ وہ اُٹھایا جاتا ہے‘ گنوایا جاتا ہے اور سلاخوں کے پیچھے پھینکوایا جاتا ہے۔
پنجاب کی تاریخ میں برسرِ میدان ہارے ہوئے لشکر کی موجودہ حکومت راج نیتی کے گیم چینجرکا ماسٹر سٹروک ہے جس کیلئے دو تین درجن گاڑیاں‘ پانچ چھ درجن قومی خزانے کے بل پر پلنے والے پبلک سرونٹ‘ سرکاری میڈیا‘ چند سہیلیاں‘ ایک دو ہیلی کاپٹر‘ بند راستے پر روٹ لگانے کیلئے پولیس فورس‘ مقامی تھانوں کی نفری کے علاوہ کارِ خاص شامل کرکے اور کچھ نہیں چاہیے۔ گورننس کے اس جدید ترین ماڈل میں عام آدمی کیلئے ہر روز ایک نیا ٹِک ٹاک نکلتا ہے جس پہ پنجاب حکومت کے جری جوان اپنا خون پسینہ ایک کر رہے ہیں۔ دنیا بھرکے کنزیومر پروٹیکشن ادارے‘ پرائس کنٹرول کے جدید ترین میکانزم اور پبلک سرونٹ گُڈ گورننس کے اس نئے باب پر حیران ہیں۔ Objectiveبات یہ ہے کہ پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف راج نیتی بربادیوں کی گہرائیوں میں جا گری۔ دوسری جانب دربار کا مشورہ ہے کہ لوگ احتجاج کے بجائے کھلی مینڈیٹ چوری کا احترام کریں۔
حقِ اظہار و احتجاج پہ مرحوم و مغفور سکالر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے ان الفاظ میں کمال تبصرہ کیا:الیکشن تو جب بھی کراؤ گے وہی آئیں گے۔ تیسری قوت بننے کی امید میں ایئر مارشل (ر) اصغر خان بوڑھے ہو گئے۔ قاضی حسین احمد صاحب تیسری قوت بننے کی فکر میں آئے تھے۔ کبھی وہ طاہر القادری صاحب تیسری قوت بننے کی فکر میں آئے تھے۔ جب تک یہاں جاگیردارانہ نظام ہے‘ کون سی تیسری قوت آسکتی ہے۔ مت ماری گئی ہے‘ عقلیں بیچ کھائی ہیں۔ یہ کیا ہوا ہے‘ کبھی تو آخر ہوش آنا چاہیے۔ ہمیشہ وہی آئیں گے‘ ایک لغاری نہیں تو دوسرا لغاری۔ ایک مزاری نہیں تو دوسرا مزاری‘ یہ تو وہی آئیں گے۔ انہی کا کھیل ہے۔ ایک بہت بڑا تُمندار سر جمال خان لغاری‘ اُس کا پوتا آج آپ کا صدر ہے۔ ایک اور بہت بڑا تُمندار دونوں سر تھے۔ سر شاہنواز بھٹو اس کی پوتی وزیراعظم۔ یہ تو میوزیکل چیئرز کا گیم ہے۔ تم نے خواہ مخواہ جا کر اپنے آپ سے اپنی عزت کا دھیلا کرایا۔ اپنی اوقات ظاہر کی ہے۔ اس کے بجائے کرنا کیا ہے: نہی عن المنکر۔ برائی سے روکو۔ جب تک طاقت نہیں ہے کافی طاقت فراہم کرتے رہو‘ جمع کرو۔ اپنی نفری بڑھاؤ‘ تربیت بڑھاؤ‘ ایثار اور قربانی کا مادہ بڑھاؤ‘ نظم کی پابندی کا جذبہ بڑھاؤ‘ بڑھاتے رہو‘ بڑھاتے رہو۔
بانشہِ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خودرا بر سلطنتِ جم زن
جب طاقت کافی ہو جائے اب میدان میں آو‘ للکارو! کہو اب نہیں چلنے دیں گے اس حرام کام کو۔ نہیں چلنے دیں گے اس ملک میں سود کے نظام کو۔ نہیں چلنے دیں گے اس ملک میں جاگیرداری کو۔ نہیں چلنے دیں گے یہاں بے حیائی اور فحاشی کو۔ گھیراؤ کریں گے‘ پکٹنگ کریں گے‘ کسی کی جان اور مال کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اداروں کا گھیراؤ ہو گا۔ ان تمام چیزوں کی برائیوں کا استحصال ہوگا۔ پھر گولیاں چلیں تو سینوں پر کھائیں گے۔ اللہ وہ دن لائے اور ہمیں اس کا‘ اس کے لیے اہل بنائے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ اس کے بغیر جو بھی خواب دیکھتا ہے احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ یا اپنے آپ کو دھوکا دے رہا ہے یا دوسروں کو۔ ایک ہی راستہ ہے اگر محمد رسول اللہﷺ اور ان کے ساتھیوں کو بھی انہی وادیوں سے گزرنا پڑا‘ اگر طائف کا پتھراؤ محمد رسول اللہﷺ کو اپنے جسمِ اطہر پر جھیلنا پڑا‘ دندانِ مبارک محمد رسول اللہﷺ کے شہید ہوئے۔ خون کا فوارہ ان کا چھوٹا۔ سینکڑوں صحابہ جن میں حضرت حمزہؓ جیسے بھی ہیں‘ اسداللہ و اسد الرسول۔ جن کی لاش کا نقشہ ابھی آپ نے سنا۔ ناک کٹی ہوئی ہے‘ کان کٹا ہوا ہے اور پیٹ کاٹ کر کے کلیجہ چبایا گیا ہے۔
حضورﷺ کو جو صدمہ ہوا ہے‘ مدینے جب واپس گئے ہیں۔ انصار کے گھروں سے عورتوں کے بین کرنے کی آوازیں آئیں۔ اس وقت تک حرمت نہیں ہوئی تھی اور عربوں کا رواج تھا جیسے ہمارے ہاں دیہات میں جس طرح خواتین نوحے کرتی ہیں‘ بین کرتی ہیں۔ اُس وقت تک وہاں ان کے ہاں بھی رواج تھا۔ تو وہاں بین ہو رہا تھا۔ 70صحابہ کرام شہید ہوئے تھے‘ ہر شہید کسی کا بیٹا تھا‘ کسی کا شوہر تھا‘ کسی کا بھائی تھا‘ کسی کے ساتھ کوئی اور رشتہ تھا۔ پورا مدینہ جو ہے ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔ اس وقت حضورﷺ کی زبان سے بھی الفاظ نکل گئے :ہائے حمزہ کے لیے تو کوئی رونے والیاں بھی نہیں ہیں۔ جب انصار نے اپنے گھروں سے بھیجا خواتین کو حضرت صفیہؓ کے ہاں جاؤ اور تعزیت کرو۔ یہ ساری وادیاں ہیں جو طے کی ہیں۔ سفرِ تبوک ہوا ہے‘ جسے جیش العسرۃ کہا گیا ہے۔ ایسا مرحلہ بھی آیا ہے۔ تین‘ تین مجاہدین کو 24گھنٹے کے راشن میں ایک کھجور ملی۔ ایک کھجور 24گھنٹے کا راشن۔ لوگوں نے یہ قربانیاں دی ہیں۔ اس کے بغیر نہیں ہو گا۔
تو پختہ ہو جائیں‘ تب ٹکر مول لو۔ آگے بڑھو‘ للکارو‘ آنکھوں میں آنکھیں ڈالو۔ باطل کا مقابلہ کرو‘ اس کے استحصال کے لیے اپنی جانیں قربان کر دینے کو سب سے بڑی کامیابی سمجھو۔ یہی واحد راستہ ہے اس کے سوا جب وہ مرحلہ آجائے گا اللہ کرے کہ وہ آئے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ معاملہ زیادہ دور کا نہیں بلکہ ہمارے لیے تو نہ دور کا ہے نہ دیر کا ہے۔ ان شاء اللہ یہیں سے ہوگا‘ بس صرف یہ ہے کہ فریم کردہ شاہی اور بھٹکا ہوا آہو جو ہے‘ اسے پھر اپنی منزل یاد آجائے۔
کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
اس کے لیے وہ رہنمائی درکار ہے‘ آپ میں سے ہر شخص رہنما بن کر اُٹھے۔ اس دعوت کا مبلغ بن کر اُٹھے۔ جیسا کہ حضورﷺ نے اپنے خطبے کے آخر میں فرمایا تھا کہ اب جو یہاں موجود ہیں وہ اپنا فرض سمجھیں کہ دوسروں کو پہنچائیں گے۔
آپس کی بات ہے کہ ٹک ٹاک راج احتجاج سے خوفزدہ ہے مگر اسے آئین سے حذف نہیں کر سکتا۔