اسلامک ریپبلک میں شاہی طرزِ حکومت کا تذکرہ آتے آتے انقلابِ فرانس کا باعث بننے والے جنرل روہان کا ملتا جلتا کردار سامنے آیا۔ وکالت نامہ کی پچھلی قسط پڑھنے والے کئی قارئین نے اصرار کیا کہ انقلابِ فرانس والے بادشاہ King Louis XVIاور ملکہ Marie Antoinette کی عوام دشمنی کا ذکر بھی کیا جائے۔ اس دوران لاہور کے گلو بادشاہ کی ری لانچنگ بیچ میں آگئی۔ 28مئی کو بچوں کے سالانہ امتحان اور طے شدہ پرچے 27مئی کی شام کے بعد کینسل ہوئے جس سے لاکھوں بچے‘ بچیاں متاثر ہوئے۔ حیران کن طور پہ سپریم کورٹ اور ملک کے پانچ ہائی کورٹس میں بڑی مشکل سے فکس ہونے والے لاتعداد کیسز ایک بار پھر شاہی طرزِ حکومت کی وجہ سے کینسل ہو گئے۔ جو لوگ جھڈو‘ میرپور خاص سے کراچی‘ تفتان سے کوئٹہ‘ کالا ڈھاکہ سے پشاور اور بھکر سے مقدمات کی شنوائی کے لیے لاہور پہنچے انہیں بھی نظامِ پادشاہی کے ہاتھوں منہ کی کھانا پڑی۔ اس دن کو سستی سیاست کاری کے لیے استعمال کرنے کا لیٹ پروگرام بنا جس کے ذریعے یہ وطن تمہارا ہے پر مبنی تین پیغام سامنے آئے۔
نظامِ پادشاہی کا ایکٹ وَن: اصل مقصد نواز شریف کو ایئر کنڈیشنڈ روم میں سے دوسری بار لانچ کرنا تھا۔ اس موقع پر دونوں ڈپٹیوں کی تقریر‘ ہم ہمارا خاندان‘ ہمارے بچے اور ہمارے سمدھی کا بیانہ دہرانے سے آگے نہ بڑھی۔ اس خستہ حال ہانپتے کانپتے بیانیے میں عمران خان کا خوف نمایاں ترین پہلو رہا جس کی ایڈوانس خبر یہ ہے کہ قیدی نمبر 804کو نئے مقدمات کی سینچری نمبر تین کے لیے اڈیالہ سے شفٹ کرنے کا پروگرام بنا ہے۔ دونوں ڈپٹیوں کو لگتا ہے کہ عمران بھی عجیب آدمی ہے‘ وہ معافیاں جو ڈپٹی روزانہ کی بنیاد پر بار بار مانگتے ہیں‘ وہ قیدی نمبر804 پوری زندگی میں ایک بار مانگنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ نواز شریف کی تقریر ہارے ہوئے شخص والا شور و غل تھا جبکہ شہباز شریف کی تقریر پالش سے لش پش ہو رہی تھی۔ پاکستانی نوے کے عشرے سے عشروں پہلے آگے نکل گئے۔ اب نیا زمانہ ہے‘ نئے لوگ‘ نئی سوچ‘ نئی ہمتیں ہیں‘ نئی جرأتیں اسی لیے دو سال کے ستم بالائے ستم کے باوجود لیڈر تو کیا‘ قوم کا شاعر احمد فرہاد بھی ٹوٹنے کوتیار نہیں۔
نظامِ پادشاہی کا دوسرا ایکٹ: 2013ء میں شریف خاندان کی آدھی رات کو تخت نشینی جاری تھی۔ نواز شریف نے اندھیرے میں جاتی امرا کی بالکونی سے فارم 47والوں کو پکارا کہ مجھے دو تہائی اکثریت دینا۔ ووٹرز شام پانچ بجے پولنگ سٹیشنوں سے ووٹ ڈال کرگھر جا چکے تھے۔ اسی ''اُدھاریہ‘‘ حکومت نے الیکشن ایکٹ 2017ء بنایا۔ اسمبلی میں ساری اپوزیشن اورالیکشن کمیشن کے ساتھ بیٹھ کر انتخابی ایکٹ کا مسودہ بنا۔ ایکٹ بنانے والی پارلیمانی قوتوں کو متفقہ اعتراض تھا کہ ہمیشہ حکومتیں الیکشن کمیشن سے ساز باز کرکے اپنی مرضی کے ریٹائرڈ جج الیکشن ٹربیونل میں لگاتی ہیں جو اگلی حکومت آنے تک الیکشن پٹیشن کا فیصلہ نہیں کرتے بس اُنہیں لٹکائے رکھتے ہیں۔ فارم 47والوں نے چوری پکڑے جانے کے خوف سے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 140کو حذف کرکے پرویز مشرف دورکا قانون بحال کر دیا تاکہ ریٹائرڈ‘ پنشن یافتہ نئی نوکری کے خواہشمند سیشن جج اور ہائی کورٹ کے جج مثبت نتائج کے لیے بٹھائے جائیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے دلیرانہ فیصلے میں نئی دھاندلی کا راستہ روکنے کا حکم جاری کیا اور چیف جسٹس کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد کی ہدایت بھی۔
نظامِ پادشاہی کا تیسرا ایکٹ: عمران دور کی تمام پارلیمانی پارٹیوں کی موجودگی میں ایک اجلاس میں میری شکایت کی گئی کہ میں نیب قانون کی تبدیلی کا راستہ روکتا ہوں حالانکہ میں وزیرِ قانون نہیں تھا۔ رجیم چینج کے بعد وہی تبدیلی شہباز حکومت نے دو منٹ میں کروا دی۔ نعرہ یہ تھا کہ قتل و دہشت گردی کے مقدمے میں ملزم کا جسمانی ریمانڈ 14دن ہے‘ پھر نیب کیس میں ریمانڈ 30دن کیوں دیا جائے۔ اب وہی ریمانڈ 14 دن سے 40دن کر دیا گیا۔ نیب آرڈیننس میں دوسری ترمیم کے ذریعے تفتیش میں بے ایمانی کرنے والے اہلکار کی سزا پانچ سال سے کم کرکے دو سال کر دی گئی۔ پس ثابت ہوا کہ یہ وطن تمہارا ہے مگر دبئی‘ لندن اور بلجیم کے بینک اکاؤنٹس ہمارے ہیں۔ دبئی میں پاکستان سے لوٹے اربوں کھربوں کی پراپرٹی لیکس آئیں‘ جن پر کوئی ادارہ‘ کوئی تفتیشی تحقیق کرنے پہ تیار نہیں۔
یہ وطن تمہارا ہے اس لیے آپ سڑک پر کھڑے ہو جائیں اور کسی سے پوچھیں وہ پاکستان میں اس طرح کا نظام چاہتا ہے؟ تو جواب ملے گا: بالکل بھی نہیں‘ مجھے دھاندلی‘ چوری چکاری سے پاک وطن چاہیے۔ اس وقت ملکی رائے عامہ ایک طرف کھڑی ہے جبکہ چند افراد طاقت کے زور سے اس رائے عامہ کی مسلسل توہین کرنے پر تُلے ہیں۔ فرانس میں بھی انقلاب سے پہلے بالکل ایسا ہی ہوا۔ فرانسیسی عوام احتجاج کر رہے تھے اور اشرافیہ کا چھوٹا سا ٹولہ احتجاجیوں کو ملک دشمن‘ شرپسند‘ بیرونی ایجنٹ اور باغی قرار دے کر پکڑ دھکڑ‘ مار دھاڑ میں مصروف تھا۔ آج بجلی کے بلوں کے خلاف احتجاج کرنے والے کے خلاف پرچہ کٹتا ہے۔ عام آدمی کے خلاف مظالم آخری حد سے آگے گزر گئے۔
مغرب کے مشہور فلسفی تاریخ دان وِل ڈیورنٹ نے اپنی کتاب 'ہیروز آف ہسٹری‘ میں اسی طرح کے حالات پر فرانس پہ قابض اشرافیہ کا احوال لکھا۔ ڈیورنٹ لکھتے ہیں کہ ملکۂ فرانس پیرس سے 23میل دُور خوبصورت محل میں رہتی تھی۔ غریب مہنگائی اور حکومتی ٹیکسوں سے تنگ آگئے اور روٹی روٹی کے نعرے لگانے لگے جس پہ ملکہ نے اپنی قوم کی توہین میں ہتک آمیزی کی ریڈ لائن کراس کر دی۔ ملکہ میری بولی ''اگر ان کو روٹی نہیں ملتی تو یہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے‘‘۔ جب فرنچ انقلابیوں کا بپھرا ہوا ہجوم اس خوبصورت محل میں پہنچا تو پہلے اس کے شوہر کنگ لوئی پھر ملکہ کو سرکاری گاڑی میں بٹھا کر قتل گاہ لایا گا۔ گلوٹین پر انقلابیوں کا اژدہام تھا۔ کنگ لوئی کو دیکھ کر لوگوں نے جو ہاتھ میں آیا دے مارا۔ ملکہ نے مرنے سے پہلے فرمائش کی کہ مجھے ماتمی لباس پہناؤ۔ فرانسیسیوں نے اُسے غبار آلود کپڑے دے کر کہا کہ پہرے داروں کے سامنے شاہی کپڑے اتار کر عام عورتوں والے کپڑے پہنو۔ پھر ہاتھ پیچھے باندھے گئے۔ ملکہ کے سر کے بال کاٹ دیے گئے۔ گھاس لے جانے والی گھوڑ ا گاڑی کے اوپر جلاّد کے ساتھ بٹھا کر ملکہ عوام کے سامنے لائی گئی۔ 16اکتوبر 1793ء‘ 12بج کر 15منٹ پر ملکہ میری کو گلوٹین کے نیچے لٹایا گیا۔ موت سامنے پا کر گڑگڑائی‘ معافیا ں مانگیں مگر اس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ لاش گندگی کے ایک گڑھے میں پھینکی گئی جس کا کوئی نام ونشان نہیں ملا۔ اسی ملکہ اور بادشاہ نے نوجوان انقلابیوں‘ انقلابی خواتین‘ بزرگوں‘ شاعروں اور دانشوروں کو مار مارکر فرانس کے قبرستان بھر دیے تھے۔ کنگ لوئی کے سر کا فٹبال بنایا گیا اور کئی گھنٹے تک لوگ اس کے سر سے فٹبال کھیلتے رہے۔
فیض کہہ گئے‘ ہم دیکھیں گے۔