تین سوالوں کا جواب دیے بغیر ہمارے پاکستان کی معیشت کو کھائی سے باہر نہیں نکالا جا سکتا۔ ان میں سے پہلا سوال یہ کہ اس وقت پاکستان کی زمینیں سرکارِ پاکستان کے پاس کتنی ہیں‘ قابض وڈیروں کے پاس کتنی ہیں اور سرکاری ملازمین کی بننے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز یا رہائشی کالونیوں کے پاس کتنی ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ سرکاری ملازموں کی مختلف کیٹیگریز کے نام پر تقریباً مفت ہتھیائی گئی ان زمینوں پر لاتعداد محل‘ اَن گنت بنگلے‘ بے شمار عالی شان گھر اور لاکھوں کوٹھیاں تعمیر ہو گئیں‘ ان کی ٹرانسفر‘ لینڈ ٹرانسفر اور بعد از تعمیر قومی خزانے کے اکاؤنٹ نمبر وَن میں کتنا ٹیکس جاتا ہے؟ تیسرا سوال یہ نہیں کہ دبئی لیکس‘ پاناما لیکس‘ فرانس لیکس‘ برطانیہ لیکس‘ کینیڈا لیکس اور امریکہ لیکس میں ریاست کے کاموں سے جڑے ہوئے جن ملازموں یا عہدیداروں کی جائیدادیں‘ ٹاور اور پیلس سب کے سامنے ہیں‘ وہ انتخابی اور ٹیکس اثاثو ں میں ڈکلیئر شدہ ہیں یا اَن ڈکلیئرڈ۔ اصل سوال یہ ہے کہ یہ جائیدادیں بنانے والے پاکستان سے کس ذریعے سے پیسہ باہر لے کر گئے؟ پاکستان میں ان کے پاس اتنا بڑا پیسہ بنانے کے ذرائع کی رسیدیں ہیں یا نہیں؟
اگر کسی کو یہ شک ہے کہ ان سوالوں کا ہماری معیشت‘ سالانہ بجٹ‘ قومی ذرائع اور وسائل سے کوئی تعلق نہیں تو ایسا شخص یقینا نہ پاکستان میں پیدا ہوا‘ نہ پاکستان میں پلا بڑھا اور نہ ہی پاکستان میں رہتا ہو گا۔
اس بجٹ میں عوام دوستی اور قومی خود مختاری کی انتہا دیکھیے‘ فارم 47 والی رجیم کہہ رہی ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف کی ساری تمنائیں پوری کر دیں۔ سیدھا مطلب یہ ہوا کہ 25 کروڑ لوگوں کی آشائیں جائیں بھاڑ میں۔ جن شرائط کو مانا گیا انہیں تمام ملکی اور غیرملکی معاشی ماہرین یا میرے جیسے معاشیات کے طالب علم Recipe of Disaster سمجھتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط قرض دینے اور انتہائی وزنی سود سمیت انہیں واپس لے جانے سے متعلقہ ہیں۔ ان شرائط کا پاکستان کے غریبوں‘ مزدوروں اور کسانوں کے مسائل کے حل کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں‘ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پچھلے چھ عشروں میں جو قرض آیا‘ اس سے ہمارے سیاستدان‘ جج‘ جرنیل اور چنیدہ صحافی دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں اثاثے بنانے میں تو کامیاب ہو گئے‘ لیکن پاکستان کی معاشی حالت اور ٹیکس دینے والے خواتین و حضرات کی زندگی میں ان کی وجہ سے کوئی نام کی آسانی یا سہولت نہیں پیدا ہوئی۔
اسی تناظر میں مَیں اپنے ریجن اور پڑوسیوں کے طرزِ حکمرانی اور ترقی کے لیے سوچ کی راہ کا جائزہ لے رہا تھا۔ ایسے میں 11دسمبر 1950ء کے روز اپنے وقت کے مشہور انگلش ڈیلی‘ پاکستان ٹائمز میں شائع ہونے والا کارٹون میرے سامنے آگیا۔ یہ تب کی بات ہے جب ہمارے ایلیٹ مافیا کے وڈے نمبردار امریکہ بہادر نے ساڑھے تین سال عمر کی ریپبلک آف پاکستان کو چھ لاکھ امریکی ڈالر کی امداد دی‘ وہ بھی مُفتا مُفتی۔ میں اس کارٹون کو سپیکنگ کارٹون کہہ رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 74 سال گزر جانے کے باوجود بھی کارٹونسٹ کے ہاتھ سے بنائے گئے خاکے زندہ کرداروں سے بھی بڑھ کر بول رہے ہیں۔ کارٹون کو یہاں کٹ اینڈ پیسٹ کر کے لگایا نہیں جا سکتا‘ اس لیے اسے لفظوں میں بیان کرنا پڑ رہا ہے۔ کارٹون کے منظر نامے میں ایک لنگڑے آدمی کو امریکی دفتر سے بیساکھیوں کے سہارے چل کر باہر نکلتے ہوئے دکھایا گیا ہے‘ جس کے پیچھے کھڑکی میں کھڑے دو امریکی اسے دیکھ کر آپس میں بات کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے امریکی امداد وصول کر لی ہے‘ اَب پاکستان کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا۔
اسی نفسِ مضمون پر دوسری گفتگو انڈیا میں تب ہوئی جب نوزائیدہ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو برسرِ اقتدار تھے۔ پاکستان کو امریکی قرض ملنے کی خبر بھارتی صحافی نے وزیراعظم جواہر لال نہرو کو سوال کی صورت میں پہنچائی گئی۔ سر! پاکستان کو چھ لاکھ ڈالر امریکی امداد ملی ہے‘ اس پہ آپ کا ردِعمل کیا ہے؟ جواہر لال نے طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر بکھیری اور کہا ''جو امریکی مونگ پھلی پاکستان نے کھا لی ہے وہ پاکستان کو بہت مہنگی پڑے گی‘‘۔ کیا یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ آئی ایم ایف بینک کس کے کہنے پر بنا اور کس کے کہنے پہ چلتا ہے؟
اب چلیے اس عظیم وژن کی طرف جس کے لیے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک بینکار کو نیا پاسپورٹ دے کر پاکستان بلایا گیا۔ قیامِ پاکستان سے بہت پہلے ٹیک سنگھ نے لائل پور کے نواح میں انسانوں‘ جانوروں‘ چرند پرند اور ماحولیات کے لیے ٹوبہ (پانی کا تالاب) بنا کر شہرت کمائی۔ نئے وزیر خزانہ نے جو کمانا تھا‘ وہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں صحافیوں نے انہیں نقد پیش کر دکھایا۔ عوام کے لیے ظالمانہ بجٹ کا جواز گھڑنے کے لیے فنانس منسٹر اور فنانس ٹیم کے پاس کسی سوال کا جواب نہ تھا۔
مثال کے طور پر!
رپورٹرز کا پہلا سوال: آپ نے وزیراعظم ہاؤس کا خرچہ 30 فیصد بڑھا دیا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا بجٹ بھی 30 فیصد زیادہ کر ڈالا۔ آپ نے وزیراعظم ہاؤس کی تزئین و آرائش کے لیے لمبا مال رکھا۔ 75 ارب روپے آپ نے اراکینِ پارلیمنٹ کو بانٹنے کے لیے رکھ دیے۔
رپورٹرز کا دوسرا سوال: جو پاکستانی ٹیکس دیتے ہیں آپ نے ان پر ٹیکس بڑھا دیا‘ وی وی آئی پی کو پانچ ہزار یونٹ بجلی فری کر دی۔ دو ہزار یونٹ گیس بھی مفت میں دے دی۔ قوم انہیں فری پٹرول دیتی ہے فری گاڑیاں۔ آپ نے صدر‘ وزرا‘ ریاستی اہلکاروں اور عہدیداروں کو ایگزیمپشن دے دی۔ انہیں جو مراعات ملتی ہیں اس پر انکم ٹیکس کیوں لاگو نہیں ہوتا؟ آپ یہ ساری ایگزیمپشن ختم کریں‘ لوگوں کو میسج دیں کہ آپ عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔
کوئی سرسری نظر سے دیکھے تب بھی آئی ایم ایف کے تازہ بجٹ میں دو قومی نظریہ صاف نظر آیا۔ ایک فائلر قوم اور ایک نان فائلر قوم۔ فائلر قوم بیرونِ ملک جا سکتی ہے‘ اس کی سم بند نہیں ہو گی۔ اس کے لیے سرکاری ہسپتال مفت ہیں۔ ٹرانسپورٹ فری ہے‘ رہائشگاہ بھی مفت۔ نان فائلر کے لیے ماچس کی ڈبی‘ نسوار کی پُڑیا‘ پان اور سگریٹ سمیت قبرستان پر بھی ٹیکس۔ ویسے پوچھنے والا ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا وزیر خزانہ قوم کو اپنا NTNنمبر بتائیں گے؟ یہ کب لیا‘ اس سال پاکستان کو کتنا ٹیکس دیا؟
صاحبانِ شبِ دیجور سحر مانگتے ہیں
پیٹ کے زمزمہ خواں دردِ جگر مانگتے ہیں
کور دل خیر سے شاہیں کی نظر مانگتے ہیں
آکسیجن کے تلے‘ عُمرِ خضر مانگے ہیں
اپنے کشکول میں ایوانِ گُہر ڈھونڈتے ہیں
اپنے شانوں پہ کسی اور کا سر ڈھونڈتے ہیں