پیرکے روز شائع ہونے والے وکالت نامے کی پہلی قسط میں گزشتہ ہفتے اڈیالا جیل میں ہونے والی ملاقات کا احوال لکھا گیا۔ آج دوسری قسط میں دوسری ملاقات کا احوال پیشِ قارئین ہے‘ جو بدھ کے روز قیدی نمبر 804 سے ہوئی۔
خان صاحب کہنے لگے: دنیا تیزی سے بدل رہی ہے‘ اب پاکستان میں بھی تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ حضرتِ اقبال نے مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ہم سے بہت پہلے دیکھ لیا تھا‘ ہم اب اسے دیکھ رہے ہیں۔ آٹھ فروری 2024ء میرے نزدیک پاکستان میں نرم انقلاب کا دن تھا۔ اُس روز فاشزم کے طوفان کے باوجود پوری قوم آزادانہ فیصلے کیلئے ڈٹ گئی تھی جس کا لیڈر‘ اس کی پارٹی‘ پارٹی کا انتخابی نشان سب کچھ چھین لیا گیا۔ جلسہ نہ پوسٹر‘ امیدوار گھر سے باہر نہ نکل سکے۔ اس کے باوجود تبدیلی نے آنا تھا اور تبدیلی آگئی۔ میں خان کی یہ باتیں سن کر چونک گیا۔ پاکستان میں انقلاب کا ذکر کرنے سے سویلین اور نان سویلین مقتدرہ کا پیڈ کانٹینٹ سخت گھبراتا ہے۔ لیکن عمران خان کو قدرتِ کاملہ پر پورا یقین ہے کہ تبدیلی کی وہ ہوائیں‘ جو پاکستانی قوم نے آٹھ فروری کو گھٹن کے موسموں میں چلا کر دکھا دیں‘ وہ پاکستان کو بدل کر رہیں گی۔ وقت کس قدر تیزی سے تبدیل ہوتا ہے اور کس غیر محسوس طریقے سے آگے بڑھتا ہے۔ اس کی مثالیں عبرت والوں کیلئے ہمیشہ سے ہر دور میں موجود رہی ہیں۔ مارشلائی طاقت اور اس کی باقیات کے نشے میں دھت‘ پڑوسیوں کے دودھ پر پلنے والے بِلے اور باگڑ بِلے ناخنوں سے محروم ہوتے ہی بے حیثیت ہو جاتے ہیں۔ قانونِ قدرت کا یہ اصولِ اوّلین نہ کبھی بدلا ہے نہ اسے کوئی کبھی بدل سکے گا۔
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے
اِن دنوں میرے ایک دعا گو دوست‘ جو تب نوجوان کلائنٹ تھے‘ ان کی طرف سے لڑا گیا مقدمہ مِڈ نائٹ جیکالز پھر ہیڈ لائنز میں آگیا۔ کوئی مجھ سے پوچھ‘ کوئی آکر میری فائلوں میں دیکھے کہ نوجوان اور بے گناہ میجر عامر کو کس طرح روشن کیریئر سے محروم کرایا گیا تھا۔ اس فاشزم کی ابتدا جنرل اسکندر مرزا کے نافذکردہ پہلے مارشل لاء سے ہوئی تھی۔ اس سے لے کر اس کی جدید اور تازہ انتہاؤں تک‘ سید الشہدا امام حسینؓ کے صبر اور استقامت کے ساتھ ساتھ مختار ثقفی کی دادِ شجاعت ہر دور کے ظالموں اور جابروں کے انجام کا تسلسل ہے۔ اسی تسلسل کی زد میں تبدیلی کی ہوائیں مغرب اور مشرق کے بے شمار چھوٹے بڑے ملکوں میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ آوازوں کو اوپر لے آئی ہیں۔ تختِ بائیڈن کی چولیں ہل رہی ہیں۔ فرانس کے میکرون اور برطانیہ کے سوناک کو تبدیلی کی سپر سانک ہواؤں نے روند ڈالا۔ امریکہ‘ یورپ اور برطانیہ جیسے ملکوں میں Free Palestine کی آواز اٹھانے والے امیدواروں نے پرانے برج گرا کر پاش پاش کر دیے۔ امریکہ میں ریفارمسٹ امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کامیابی کے قریب ہیں۔ اور تو اور ہمارے پڑوس میں ایران کے اندر جدیدیت پسند تبدیلی نے ایشیا کو نہیں بلکہ ساری دنیا کو حیران کر کے رکھ دیا۔ اس لیے عمران خان درست کہہ رہے تھے۔ ہمارے مشرقی پڑوس میں انڈین نیشنل کانگریس عشروں بعد گیم میں پھر لوٹ آئی۔ ترکیہ کی مقتدر پارٹی لوکل الیکشن بری طرح ہار بیٹھی۔ جزائر مالدیپ میں پڑوسی طاقتوں کی موجودگی اور مداخلت کے باوجود بھی جدیدیت پسند نیشنلسٹ حیران کن طریقے سے آئے اور منظر نامے پر چھا گئے۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے چے گویرا کی تصویر کے ساتھ ساتھ اس کی پرچھائی ملکوں ملکوں پھر سے گھومنے نکلی ہے۔
عمران خان کا دوسرا کنسرن: پاکستان میں طبقاتی تقسیم اور اس بے رحم طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر تقسیمِ دولت میں دھاندلی اور بے ایمانی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ ایک طرف ملک کے وسائل پر قابض امیر طبقہ‘ ان کے حواری اور رشتہ داری والی ٹولیاں امیر سے امیر تر ہو رہی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کروڑوں لوگوں کا کُچلا اور مسلا ہوا بہت بڑا لشکر ہے۔ جو صرف دو وقت کی روٹی‘ ایک بجلی کے بلب کو جلانے اور ایک پنکھے کو چلانے والے بِل پر قربان کر دیے گئے۔ وسائل اور اقتدار پر قابض طبقات کا خیال ہے کہ پاکستان میں انقلاب کبھی نہیں آ سکتا۔ پاکستان میں اتنی بڑی سٹریٹ پاور کے باوجود عمران خان وہ پہلا لیڈر ہے جو لوگوں کو آئین کی پاسدار ی اور قانون کی چاردیواری کے اندر رہ کر جد وجہد کرنے کا درس دیتا ہے۔ سیاسی عمل کے اندر ایسی سٹرٹیجی کو کمزوری نہیں کہا جا سکتا۔ جو لوگ اسے اجتماعی شعور کی توہین کے ذریعے کمزوری کہہ رہے ہیں وہ دراصل لوگوں کو خونیں انقلاب کے طعنے دے رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ اس وقت طاقتور طبقات آئین اور غریبوں‘ دونوں پر چڑھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ قوم کی طاقت کو ایک چھوٹی سے اشرافیہ پس پشت مت ڈالے۔ ہم اس طاقت کو غریبوں کے حق میں استعمال کر کے دکھائیں گے۔ عمران خان نے وسائل کی منصفانہ تقسیم کے متعلق اپنے وژن پر بھی بات کی اور کہا کہ جبر کے ذریعے کوئی نظام نہیں چل سکتا۔ USSR کے ٹکڑے کرنے میں گھسٹاپو کے مظالم نے بڑا حصہ ڈالا۔ عمران خان نے عوام کی طاقت کے آگے جھکنے کے تازہ واقعے کا حوالہ دیا۔ کینیا میں عوامی طاقت کے آگے اشرافیہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔ امپورٹڈ بجٹ ہوا میں اُڑ گیا۔ مشرقی افریقی ملک میں مشیروں کی تعداد آدھی کر دی گئی۔ 37عیاش ادارے ختم کر دیے گئے جبکہ 60 سال کے سرکاری ملازمین کو بغیر کسی توسیع کے ریٹائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سرکاری گاڑیوں کی خریداری پر ایک سال تک پابندی لگا دی گئی اور ریاستی اہلکاروں کے ہر قسم کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی لگا دی گئی۔ کینیا میں نوجوانوں کے پاور پلے نے اضافی ٹیکسز پر مشتمل فنانس بِل ختم کروا کر دم لیا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ سب سے ضروری کام اپنی قوم کو مطمئن کرنا اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے اُمید دلانا ہے۔ یہ کام مینڈیٹ چور حکومت یا اس کے سہولت کار نہیں کر سکتے۔ اس لیے فوری طور پر الیکشن کمیشن تبدیل کر کے جوڈیشل افسروں کی نگرانی میں نئے انتخابات ہی سے ملک سنبھل سکتا ہے۔ عمران خان جیل کی چکی میں بیٹھ کر جو کچھ سوچتا ہے وہی کومل جوئیہ نے وقت کی دیوار پر لکھ ڈالا‘ جسے پڑھنے سے زیادہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
قلم‘ کاغذ‘ تخیل اور کتابیں بیچ سکتی ہوں
پڑی مشکل تو گھر کی ساری چیزیں بیچ سکتی ہوں
مجھے قسطوں میں اپنی زندگی نیلام کرنی ہے
میں بھر بھر کے غباروں میں یہ سانسیں بیچ سکتی ہوں
پرندوں سے مرا جھگڑا ہے‘ ان کے گھر اجاڑوں گی
اگر یہ پیڑ میرا ہے میں شاخیں بیچ سکتی ہوں
مرے کاسے میں بھی خیرات پڑ جائے محبت کی
سنو درویش کیا میں بھی دعائیں بیچ سکتی ہوں؟
تمہارے بعد اب کس کو بصارت کی طلب ہو گی؟
مناسب دام مل جائیں تو آنکھیں بیچ سکتی ہوں
بتائیں مفتیانِ علم و دانش میرے بچوں پر
اگر فاقہ مسلط ہو‘ میں غزلیں بیچ سکتی ہوں؟
آج کا عمران اپنے لیے ہر گز نہیں سوچتا۔ وہ آپ کے خواب پورے کرنے کے لیے سوچتا ہے۔