اکتوبر680 بمطابق عیسوی‘ اور محرم الحرام 61ھ کے پہلے عشرے نے تاریخِ انسانی پر اس قدر اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ میرے لیے سید الشہداء حضرت امام حسین اور اہلِ بیت‘ آلِ رسول اور اصحابِ امام حسین رضی اللہ عنہم کی شہادتوں کے المیے سے بڑا کوئی موضوع نہیں۔ اگرچہ عمران خان سے ایک اور ملاقات‘ سپریم کورٹ اور عدت کیس کے فیصلے‘ صنم جاوید کے مقدمے کی وکالت‘ اُس کی رہائی اور 14ویں بار گرفتاری پر بھی نظر تھی۔ لیکن آلِ رسولﷺ کو عشرۂ محرم کے لہو کے آنسوئو ں میں گندھا ہوا‘ صبا اکبر آبادی کا لفظِ خراج میرے بیٹے عبداللہ نے بھجوایا‘ جو حال ہی میں رحلت کرنے والے حرف وصوت کی دنیا کے شاہ‘ طلعت حسین مرحوم نے تحت اللفظ میں پڑھ رکھا ہے۔ صبا اکبر آبادی کے اس شاہکار کا مقدمہ ان لفظوں میں ہے:
کارواں بھی لفظ ہے‘ جادہ بھی اور منزل بھی لفظ؍ حال بھی اک لفظ ہے‘ ماضی و مستقبل بھی لفظ؍ قتل بھی ایک لفظ ہے‘ مقتول اور قاتل بھی لفظ؍ ایک لفظِ حق ہے اُس کے سامنے باطل بھی لفظ؍ آشنائے حق جو ہو باطل سے وہ ڈرتا نہیں؍ جو سمجھ لے لفظ کے معنی کبھی مرتا نہیں
لفظِ کربلا اور تاریخِ وفا میں اس کی تکریم بیان کرتے ہوئے اکبر آبادی کہتے ہیں:
کربلا بھی لفظِ حق کی مستقل تفسیر ہے
خونِ اہلِ بیت سے لکھی ہوئی تحریر ہے
کربلا جو اک حریم صبر کی تعمیر ہے
اِس زمیں پر گلشنِ فردوس کی تصویر ہے
پانچ حرفوں میں نہاں قرآن کی علیم ہے
ایک لفظِ کربلا منزل گہہِ تعظیم ہے
قافلۂ کربلا کے ہمقدم ہو کر اکبر آبادی نے دل چیر دینے والا اگلا نوحہ یوں ترتیب دیا:
تیری خاموشی ترے ماتم کی ہے آئینہ دار
کس قدر برسہا برس سے ہے مسلسل سوگوار
ہاں بہتر چاند تارے ہیں ترے زیرِ کنار
تیرا سرمایہ نبیؐ کے باغ کی زندہ بہار
جنتِ گنجِ شہیداں ہے ترے آغوش میں
کیسے کیسے لفظ ہیں تیرے لبِ خاموش میں
صبا اکبر آبادی نے چشمِ تصور سے سفرِ کربلا بھی طے کیا۔ اِس سفرکے یہ سوگوار راہی مقتول جفا کے دربار میں عزادار بن کر حاضر ہوتے ہیں۔
آئیے بزمِ عزا سے کربلا چلتے ہیں ہم
خاک برسر‘ دست بر دل‘ اے صبا ؔچلتے ہیں ہم
اپنی آنکھوں میں لیے اشکِ عزا چلتے ہیں ہم
جانبِ دربارِ مقتول جفا چلتے ہیں ہم
ہیں گلِ باغِ نبی جس میں‘ وہ گلشن دیکھ لیں
فاطمہؓ کے لال کا پُرنور مدفن دیکھ لیں
مجھے یہ معلوم نہیں کہ شاعرِ مشرق سے پہلے یا حضرتِ اقبا ل کے بعد‘ مگر طے ہے کہ صبا صاحب نے حضرت اسماعیلؑ اور امامِ حسینؓ کی قربانی میں کیا خوب تسلسل ترتیب دیا۔
کربلا‘ ہر ذرّہ جس کا ہے جوابِ آفتاب
کربلا‘ خوابِ خلیل اللہ کی تعبیرِ خواب
کربلا‘ حق کی بلندی کا نشاں رفعت مآب
کربلا‘ گنجینۂ انوارِ ابنِ بوترابؓ
کربلا مختص ہے‘ شبیر گرامی کے لیے
کربلا جس پر فلک خم ہے سلامی کے لیے
کربلا کے وقت اور سانحۂ کربلا کے بعد کے دو زمانوں کا تقابل کرتے ہوئے صبااکبر آبادی کمال کر گئے
ایک سناٹا تھا وہ‘ اب جو ہے معمورِ نوا
پتھروں کو جس کی قدرت نے سکھایا بولنا
دوست کی آہٹ سی ہوتی ہے جو چلتی ہے ہوا
جابجا فانوس روشن کر دیے الفاظ کے
بے زبانی میں خزانے بھر دیے الفاظ کے
تخلیق کائنات کا موضوع بھی صبا اکبر آبادی نے علم الاعداد کی ہمراہی میں یوں سمجھایا :
پہلا لفظ کُن تھا‘ یہ دنیا ہے جس کی بازگشت
ہیں اُسی کی گونج یہ کوہ و دمن دریا و دشت
عالمِ وحدانیت میں کیا ہو بحث ہفت و ہشت
حرف دو تھے‘ لفظِ واحد بن کے‘ ہے یہ سر گزشت
اس کی قدرت ہے نمایاں عالمِ ایجاد سے
ذاتِ واحد ہے‘ مبّرا ہے مگر اعداد سے
کربلا میں روزہِ سبطِ نبیؐ اور اولادِ علیؓ کی روداد پڑھنے والے پر سحر طاری کر دیتی ہے۔
آج تک پھیلی ہے تجھ میں چار سُو اِک روشنی
روکشِ اوجِ فلک ہے روضۂ سبطِ نبی
اک اک ذرے میں لہریں لے رہی ہے زندگی
استراحت کر رہی ہے تجھ میں اولادِ علیؓ
دامن دریا پہ خاک آستیں جھاڑے ہوئے
شیر اک ساحل پہ سوتا ہے علم گاڑے ہوئے
قافلۂ آلِ نبی کے صبر ورضا کا مرحلہ صبا اکبر آبادی کے قلم نے اَمر کر ڈالا:
تجھ میں اُترا تھا کبھی آلِ نبی کا قاقلہ
تھا مدینے سے یہاں تک نور کا اک سلسلہ
یاد تو ہو گا تجھے صبر و رضا کا مرحلہ
حق و باطل کا ہوا تھا تیرے گھر میں فیصلہ
تو نے دیکھے ہیں کرشمے گردشِ ایّام کے
تیرے ہی صحرا پہ گھر آئے تھے بادل شام کے
سید الشہداء حضرتِ امام حسینؓ اور اُن کے خانوادہ پاک کے روح پرور بیان کا خلاصہ یہ لکھا:
وہ علیؓ کا لاڈلا‘ وہ فاطمہؓ کا نورِ عین
قلبِ عالم کی تسلّی خاطر زینبؓ کا چین
وہ حُسینِ لالہ رُخ‘ منبر کی جس سے زیب و زین
وہ علیؓ کا نقشِ ثانی‘ نام تھا جس کا حسین
حُسن جس کے روئے روشن کی بلائیں لیتا تھا
خود جسے اِسلام جینے کی دعائیں دیتا تھا
مطلق العنان جابر حکمرانوں اور کوفیوں کی بے وفائی پر صبا اکبر آبادی نے تاریخی بند لکھا۔ ہم سب نے لفظ کی حرمت کے بارے میں سُن رکھا ہے لیکن لفظ کی یہ تشریح کم اَز کم میں نے پہلی بار پڑھی ہے۔
لفظ کیا ہے فکرِ انسانی کا اک سادہ لباس ؍ باوجودِ سادگی ہیں رنگ جس کے بے قیاس؍ لفظ‘ بنیادِ تخیل‘ لفظ خطبوں کی اساس؍ لفظ اظہار تکبر‘ لفظ اندازِ سپاس؍ لفظ پتھر بھی ہے‘ موتی بھی‘ ثمر بھی‘ پھول بھی؍ لفظ ہی مردود بھی ہے‘ لفظ ہی مقتول بھی؍ لفظ تھے اپنے کھلونے‘ لفظ اپنے مشغلے؍ زندگی لفظوں میں گزری اُن کے سائے میں پلے؍ ہر قدم پر سامنے الفاظ کے تھے مرحلے؍ لفظ ہر جانب ہمیں انگلی پکڑ کر چلے؍ گردشیں کرتی رہی لفظوں پہ ساری زندگی؍ہم نے لفظوں کے مکانوں میں گزاری زندگی
سلام یا شہیدِ اعظم! کربلا کے مظلوم مسافروں کو سلام۔ جنہوں نے لفظِ وفا کو نئے معنی پہنا دیے۔