تو چلیے بغیر تسلیم کیے فرض کر لیتے ہیں 'چور تہائی‘ سرکار کے ترجمانوں نے سچ کہا۔ پہلا سچ یہ تھا کہ لاہور میں PTI کے تازہ جلسے میں تین درجن کرسیاں بھی نہ بھری جا سکیں۔ دوسرا بولا: پورے پنجاب سے گن کر تین ہزار لوگ جلسے میں آئے تھے۔ ساتھ ہی کہا: ہم نے کسی کو آنے سے نہیں روکا‘ نہ ہی جلسہ منعقد کرنے میں کوئی رکاوٹ ڈالی۔ چلیے اسے بھی فرضی طور پر سچ مان لیتے ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے سرکاری سچ۔
پنجاب حکومت کی سرکاری ترجمان نے جلسے کے شرکا کے جو اعداد وشمار اور نمبرز سرکاری طور پر بتائے اُن کے مطابق ''لاہور سے 1500 سے 1600 لوگ جلسے میں پہنچے‘ شیخو پورہ سے 245 ‘ گوجرانوالہ سے 65‘ پنڈی سے 116 سے 140‘ فیصل آباد سے 77‘ سرگودھا سے 241‘ زرتاج گُل کے ساتھ 100 لوگ آئے ‘ عالیہ حمزہ کے ساتھ 150‘ لطیف کھوسہ 20 سے 25 لوگ لے کر آئے‘‘۔ جبکہ اسی سرکار نے صرف چھ ہزار پولیس اہلکار‘ تین ہزار کے جلسے کی سکیورٹی کے لیے لگا دیے۔
کرکٹ کی زبان میں کہتے ہیں Well Left‘ یعنی ہر گیند اس قابل نہیں ہوتی کہ اُسے کھیلا جائے۔ فارم 47 کے پورے ٹبّر نے جو کہا اُس نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا۔ مثال کے طور پر:کیا جلسہ آزادانہ ماحول میں ہوا؟ تحریک انصاف کا یہ جلسہ ایک ایسے دورِ حکومت میں ہوا جہاں جھوٹ بولنے کے لیے سرکاری لائوڈ سپیکرز مہیا کیے جاتے ہیں۔ جلسے کے لیے کسی سے نہیں کہا جاتا اجازت نامہ لو‘ NOC مانگو‘ 43 شرائط پہ عملدرآمد کرو۔ بلکہ ادھر جلسہ یا دھرنا انائونس ہوا اُدھر رینٹ اے کرائوڈ معززین اڑھائی‘ تین گھنٹوں میں لاہور سے فیض آباد انٹرچینج اسلام آباد پہنچا دیے جاتے ہیں۔ جہاں اُن کی تواضع کے لیے لفافے لفافیاں حاضر۔ لائیوکوریج کے لیے60‘ 70 گاڑیاں‘ انتظامی امور میں معاونت کے لیے خوش گفتار اور برق رفتار باوردی‘ بے وردی‘ معلوم اور نامعلوم‘ سرکار ی ودرباری اہلکار خلائی مخلوق کی طرح نجانے کہاں سے نازل ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سچ بولنے کے لیے پاکستان کی سب سے بڑی جمہوری تحریک‘ PTI کو جلسے کے لیے NOC جلسے کے مقررہ دن اور وقت سے محض چند گھنٹے پہلے دیا جاتا ہے۔ جبکہ سرکاری سچ بردار جلسہ کرنے والے کبھی NOC نہیں مانگتے‘ صرف سکیورٹی مانگے ہیں۔ PTI نے جلسہ کرنے کے لیے مینارِ پاکستان پر گریٹر اقبال پارک مانگا تھا۔ جس کو لٹکا لٹکا کر آخری دن کے پچھلے پہر لاہور ہائیکورٹ کے تین رُکنی بنچ کے فیصلے کے بعد‘ DCO کو شرائط نامہ دے کر NOC جاری کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس اجازت نامے کے بعد پنجاب کے لوگوں کو کنفیوز کرنے کے لیے لاہور جلسے کے مختلف مقامات زیر غور لانے کی خبریں چلوائی گئیں۔ کبھی گجومتہ ‘ کبھی جلو پارک کے جعلی نوٹیفکیشن چلوائے گئے۔ اس کے باوجود پورا لاہور اور پنجاب جاگتا رہا اور صبح سویرے مائیں معصوم بچوں کو سینے سے لگا کر‘ خاوندوں اور بھائیوں کے ساتھ جلسہ گاہ کی طرف چل پڑیں۔ نوجوان‘ بزرگ‘ مزدور اور عام آدمی‘ جنہیں دھمکیاں دے کرسچ کے لیے نکلنے پر شناخت چھپانے کا درس دیا جا رہا تھا‘ اُنہوں نے اپنے چہروں پر PTI کے جھنڈے کے رنگ پینٹ کیے۔ ہاتھوں میں قیدی نمبر 804 کے پوسٹر اور تحریک انصاف کے جھنڈے پکڑے۔ وہ جلسہ جو شروع کر کے ختم کرنے کے لیے صرف تین گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا‘ اُس کی طرف جانے والی ساری سڑکیں اور تمام راستے بھر گئے۔ پھر یہ خبریں چلیں کہ PTI کے پنڈال سے 12 اشتہاری ملزم پکڑ لیے گئے۔
آج کی تاریخ میں لاہور کا کوئی رپورٹر چیک کر لے اس سرکاری سچ کا پول بھی کُھل جائے گا۔ جلسے کی جگہ وہاں دی گئی جہاں پورے لاہور کا گند پھینکا جاتا ہے۔ جو فیصلہ سازوں کی ذہنیت کا مظاہرہ ہے۔ بلاگروں اور وی لاگروں نے اس کو سوشل میڈیا پر خوب ایکسپوز کیا۔
جلسہ خالصتاً لاہوری تھا؟: لاہور سے پہلے ہزارہ‘ اٹک اور ٹیکسلا سے ملنے والے اسلام آباد کے آخری گائوں سنگجانی کی منڈی مویشیاں میں PTI نے جلسہ کیا تھا۔ اُس کے بارے میں 'کتنے آدمی تھے‘ کے سوال پر ٹبّر کا کہنا تھا: یہ جلسہ اسلام آبادیوں اور پوٹھوہایوں کا نہیں بلکہ KP سے آئے ہوئے پشتونوں پر مشتمل تھا۔ پہلے تو وہ فرضی وزیر‘ جو اٹک کے اِس پار اور اُس پار والے نعرے لگا رہے ہیں‘ اُنہیں شرم آنی چاہیے۔ یہ ملک وفاق ہے جہاں پورا ملک ہر شہری کا ہے۔ تین چار سفارشی مقتدر خاندانوں کے باپ کی جاگیر نہیں۔ اس پروپیگنڈے کا جواب پنجاب کی سرکارنے خود دے دیا‘ علی امین گنڈاپور‘ عمر ایوب خان کے قافلے جلسہ گاہ میں پہنچنے سے پہلے ہی سائونڈ سسٹم اور لائٹس بند کرانے کے ذریعے۔ جو جوش اور ولولہ‘ جذبہ اور جنون لاہوریوں نے عمران خان کے لیے 2011ء کے جلسے میں دکھایا تھا‘ وہ جذبہ پہلے ہر سال آگے بڑھتا تھا‘ اب ہر روز آگے بڑھ رہا ہے۔ 2011ء میں جن بچوں کی عمر 5 سال تھی ‘آج وہ عمران خان کے ووٹرز بن چکے ہیں۔ نہ یہ لیبیا ہے‘ نہ عراق‘ نہ شام‘ نہ ہی افغانستان۔ یہ پاکستان ہے جو حضرتِ قائداعظم نے اپنے وژن‘ آہنی ارادے اور مسلمان قوم کی حمایت سے بنایا تھا۔ پاکستان کی آبادی 25 کروڑ ہے جس کے مالک 18کروڑ سے زیادہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں۔ 18کروڑ کو پے لوڈ والے پروپیگنڈا مافیا کہاں فتح کر سکتے ہیں۔ لاہور‘ لاہور ہے ۔ یہ شہرِ اقبال ہے‘ شہرِ قراردادِ پاکستان ہے اور شہرِ عمران خان ہے۔
لاہور جلسے کا مورال آف دی سٹوری کیا ہے؟: تشدد‘ فاشزم‘ کنٹینرازم‘ سنسرازم‘ سب مل کر بھی خوف کے بُت کو ٹوٹنے سے نہ بچا سکے۔ عمران خان وہ قیدی ہے جس پر مقدموں کے پہاڑ توڑے گئے۔ فائر آرمز کے منہ کھولے گئے۔ پھر بھی یہ آزاد منش قیدی پاکستانیوں سے کہتا ہے: بھاگنا نہیں‘ ڈٹے رہو۔ باقیوں کی تاریخ سامنے ہے‘ پہلے بھاگ جائو‘ پھر NRO لے کر اقتدار میں واپس بیٹھو اور پھر دوبارہ بھاگنے کی تیاری کے لیے بیرونِ ملک مزید جائیدادیں بنائو۔ لاہور جلسے کا مہمانِ خصوصی اڈیالہ جیل میں پابندِ سلاسل ہے۔ جس دن عمران خان باہر آئے گا‘ اُس دن پوچھنا کتنے آدمی تھے...؟
شکریہ لاہور! پی ٹی آئی کو مبارکباد۔ عوام نے لاہور میں 'دفعہ 804‘ لگا کر خوف کے سارے بُت‘ تمام پابندیاں پیروں تلے روند ڈالیں۔ کنٹینرز‘ سنسرشپ‘ ڈکٹیٹر شپ‘ فاشزم‘ عمران خان کی محبت عوام کے دلوں سے نکالنے میں ناکام۔
تمہیں یہ کہہ دیا کس نے کہ بازی ہار بیٹھے ہیں
ابھی خان پہ لٹانے کو ہماری جان باقی ہے