"SBA" (space) message & send to 7575

سرکاری مہمان اور ہماری تاریخ

آج کے وکالت نامے کا عنوان سمجھنے کے لیے تین واقعات پہ نظر ڈالنا کافی رہے گا۔ پہلا: سال تھا 1999ء‘ فروری کے مہینے کی 20 تاریخ‘ شہر تھا لاہور۔ یہ وہ دن تھا کہ جب مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں اقلیتوں کا جینا تنگ کیے جانے پر جماعت اسلامی نے احتجاج کیا‘ جو جائز تھا۔ حکومت تھی آلِ شریف کی۔ معلوم تاریخ کا اس قدر ظالمانہ کریک ڈاؤن ہوا جس پر فخریہ شریف حکومت کے وزیروں نے اعلان کیا کہ ہم نے ایک مسجد سے پوری جماعت اسلامی کی لیڈر شپ گرفتار کر لی۔ مسجد کی بے حرمتی کی تصاویر آج بھی آرکائیوز میں موجود ہیں۔ خالی ہاتھ پُرامن مظاہرین پر یہ ریاستی تشدد کا انتہائی شرمناک باب ہے۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ باہر سے مہمان آیا ہے۔ کون نہیں جانتا ساری دنیا میں مہمان آتے جاتے رہتے ہیں اور ساری دنیامیں ایسے احتجاج بھی ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً امریکہ کے کئی صدور اور دوسرے مغربی لیڈروں کے دوروں پر متاثرہ فریق اپنے مؤقف اور مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے بیرونِ ملک سے مہمان کے آنے پر احتجاج کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ آزاد ریاستیں اپنے شہریوں کو یہ حق دیتی ہیں۔ صرف احتجاجیوں کو بیرونِ ملک کے مہمان کے موٹر کیڈ والے راستے پر سکیورٹی اقدامات کے ذریعے سڑک کے اندر آنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ مظاہرین پوسٹر پکڑتے ہیں‘ بینر پکڑتے ہیں‘ مہمانوں کے خلاف بھی نعرے لگاتے ہیں۔ آج کے گلوبل وِلیج میں‘ معلومات کے سونامی میں اور آزاد خیال جمہوری معاشروں میں ہرطبقہ اپنے مسائل کے حوالے سے احتجاج کرتاہے۔ ایسے احتجاج کو آزادیٔ اظہارِ رائے کے زمرے میں عالمی قوانین اور مہذب ممالک شہریوں کا بنیادی حق سمجھ کر تسلیم بھی کرتے ہیں۔
دوسرا واقعہ دکھانے کے لیے وقت کا پہیہ آگے کو دوڑتا ہے۔ سال 2022ء‘ مہینہ مارچ کا ‘ہمارے دارالحکومت میں پاکستان کی میزبانی ہے اور او آئی سی کا ایسا اعلیٰ سطحی اجلاس ہے جس میں مختلف ممالک کے سربراہ شریک ہو رہے ہیں۔ آئیے ایک پریس کانفرنس میں چلتے ہیں جس کی وڈیوز آج کل سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ میڈیا نمائندوں سے بات کرنے والا پہلا سیاسی کردار وہی ہے جو مہمانوں کی آمد سے ڈیڑھ ہفتے پہلے پُرامن احتجاج کو پاکستان سے غداری‘ بغاوت اوردہشت گردی قرار دے رہا ہے۔ پی ڈی ایم کی دوسری بڑی پارٹی کے نوجوان لیڈر بلاول صاحب نے او آئی سی کانفرنس روکنے کی دھمکی دیتے ہوئے یہ نرم اور دل نشیں الفاظ بیرونی مہمانوں کی آمد پر اُلفت بھرے لہجے میں ادا کیے: ''دیکھتے ہیں اسمبلی ہال میں او آئی سی اجلاس کیسے ہوتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے پیر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ سپیکر پی ٹی آئی کے سپیکر نہ بنیں‘ ملک کا سوچیں۔ پیر کو تحریک نہیں پیش کرتے تو ایوان سے نہیں اٹھیں گے‘‘۔
پھر اس وقت کے قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن‘ شہباز شریف نے ایگزیکٹو اور اسلام آباد کی انتظامیہ کو ان الفاظ میں دھمکی لگائی: ''او آئی سی کانفرنس کی آڑ میں آئین شکنی نہ کی جائے۔ سپیکر کو وارننگ دیتا ہوں کہ آپ لوگ عمران خان کے آلہ کار نہ بنیں۔ اگر انتظامیہ نے ہمارے لیے رکاوٹ ڈالی تو وہ خود گرفت میں آجائے گی۔ سپیکر نے ضابطے کے مطابق کارروائی نہ چلائی تو ہم ہاؤس میں دھرنے پر مجبور ہو جائیں گے‘‘۔
اس موقع پر بلاول صاحب نے پھر مائیک لیا اور بولے: ''اگر سپیکر نیشنل اسمبلی پیر تک عدم اعتماد کا موشن پیش نہیں کرتا تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کی او آئی سی کانفرنس کیسے ہوتی ہے؟‘‘
شہباز شریف نے مائیک واپس لیتے ہوئے بیرونی مہمانوں کی نشست گاہ میں پھول بچھانے کا اعلان ان لفظوں میں کیا: ''ہمیں آپ مجبور نہ کریں کہ آپ اس کی آڑ میں آئین شکنی کرنا چاہیں‘ قانون توڑنا چاہیں اور مذاق بنانا چاہیں۔ ہم آپ کو اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم وہاں پر دھرنا دیں گے۔ عمران نیازی کو ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم آئین کا اور قانون کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں۔ میں سپیکر کو وارننگ دیتا ہوں کہ آپ سپیکر بن کر اپنا رول ادا کریں وگرنہ تاریخ میں آپ کا نام بہت ہی برے الفاظ میں لکھا جائے گا اور آپ کی عزت خدانخواستہ خاک میں مل جائے گی۔ اب بھی وقت ہے۔ آئینی اور قانونی راستے میں رکاوٹ ڈالی اور عمران نیازی کے اگر آپ آلہ کار بنے تو قانون اپنی گرفت میں آپ کو لے گا اور پھر آپ کو کٹہرے میں کھڑا کرے گا اور قانون اپنا راستہ بنائے گا‘ پھر ہم سے گلہ نہ کیجیے گا‘‘۔
تیسرا واقعہ اسی ماہ شہرِ اقتدار میں پیش آیا۔ جہاں خالی ہاتھ احتجاج کرنے کے لیے آنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے سندھ‘ کشمیر‘ پنجاب کی پولیس‘ فرنٹیئر کانسٹیبلری اور رینجرز لگائے گئے۔ سرکاری اعلان تھا کوئی مائی کا لعل ڈی چوک تک نہیں پہنچے گا۔ ان بڑھکوں کو مائی کے لعل اور مائیں بہنیں خود روند کر ڈی چوک تک ہزاروں کی تعداد میں جا پہنچیں۔ حکومت کی کانپیں ٹانگیں تو آرٹیکل 245 کا سہارا لے کر اسلام آباد میں فوج بلوا لی۔ اسے کہتے ہیں کھلے سے بھی کھلا تضاد۔
اسی تناظر میں تاریخ دیکھیں تو غلاموں کی دو قسمیں ملتی ہیں۔ ایک جو جبر کے ذریعے غلام بنے کیونکہ شکست خوردہ تھے۔ دوسرے وہ جنہوں نے غلامی سے محبت کی۔ مثلاً امریکہ میں کالے غلام دو قسموں میں تقسیم تھے۔ نمبر ایک‘ گھریلو غلام: یہ غلام اپنے آپ کو اعلیٰ تصور کرتے‘ انہیں مالک کے گھر رہائش ملتی۔ وہ آقا کا بچا ہوا کھانا کھاتے‘ اس کے پرانے کپڑے پہنتے۔ نمبر دو‘ فیلڈ کے غلام: یہ غلام کھیتوں میں دن رات سخت مشقت کرتے‘ کوڑے کھاتے‘ شام کو کھولی میں زنجیر سے باندھ کر ان سے جانوروں جیسا سلوک ہوتا۔ جب کبھی فیلڈ کے غلام آزادی کے لیے بغاوت کرتے تو گھریلو غلام ان کی مخبری کر کے مالک کے ساتھ مل جاتے‘ جو باغیوں کو طاقت سے کچل دیتا۔ زیادہ تر مارے جاتے‘ باقی سخت سزائیں پاتے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ گھریلو غلام اپنے ہم وطن کالوں کے ساتھ ایسا کیوں کرتے تھے؟ اس لیے گھریلو غلام ایسا کرتے تھے کیونکہ ان کے لیے بچا ہوا کھانا اور پرانے کپڑے آزادی سے زیادہ قیمتی تھے۔ ایسے گھریلو غلام ہر دور میں آزادی کے راستے کی رکاوٹ بنتے چلے آرہے ہیں۔
ایک اور مہمان عالمی مسلم سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب پاکستان آئے۔ صرف اتنا عرض ہے‘ ہمیں بہت زیادہ پڑھے لکھے عالم فاضل لوگ سننے کا مشورہ بلکہ سنتے رہنے کا مشورہ تو دیتے ہیں‘ بولنے کا نہیں۔
معاشرانِ خراباتِ حرفِ سادۂ مئے
زبانِ دل سے کبھی عارفانہ بھی سنتے
روایتِ ابدی پر یقین سے پہلے
حقیقتِ ازلی کا ترانہ بھی سنتے
اس انتہائے جلال و جمال سے آگے
خیال کا سبقِ ناصحانہ بھی سنتے
مصاحبوں نے بہت کچھ جنہیں بتایا ہے
زبانِ خلقِ خدا غائبانہ بھی سنتے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں