"SBA" (space) message & send to 7575

اَج او منزل نیڑے دِسدی‘ کل سی جیہڑی دور …(2)

ان دنوں‘ جب ہم جمہوریت کی بحالی کی پہلی تحریک کا ذکر کر رہے ہیں‘ کچھ باتیں 1967ء اور 2025ء میں مشترک نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر لفظ انتشار اور اسے پسند کرنے والے انتشاری یا انتشار پسند کو لے لیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف سرکاری لیگ کے مارشلائی لیڈروں کا بیانیہ یہ تھا کہ فاطمہ جناح ایک بوڑھی اورکمزور دماغ والی خاتون ہیں‘ اگر آپ نے انہیں ووٹ دیا تو آپ پاکستان میں ''انتشار‘‘ کو ووٹ دیں گے۔ 1967ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیمیں بنانا‘ چلانا اور سٹوڈنٹ یونین کا الیکشن کروانا قانونی تقاضا اور ملکی سیاست کا لازمی جزو تھا۔ ملک بھر کے طلبہ کی تنظیموں کے زیادہ تر نمائندے محترمہ فاطمہ جناح کی الیکشن مہم چلانے کے لیے میدان میں اترے۔ ان پڑھے لکھے طالب علموں کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے کہا: تم شر پسند ہو‘ ہم تمہیں مسترد کرتے ہیں۔ اگر آپ آج کے حالات اور حکومتی پالیسیاں غور سے دیکھیں تو آپ کو ہر دورِ آمریت کا بیانیہ ایک ہی سکرپٹ کا رپیٹ ورژن (Repeat Version)نظر آئے گا۔
آئیے1967ء میں واپس چلتے ہیں۔ کراچی کے ایک مشہور عالمِ دین سے دارالافتاء‘ دارالعلوم کی مہر سے عورت کے صدرِ مملکت بننے کے خلاف فتویٰ جاری کروایا گیا۔ بعد میں محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں پبلک کا مُوڈ دیکھتے ہوئے یہ فتویٰ واپس لینا پڑ گیا۔ عین اسی قبیل کی تازہ حرکت شریف سے 25کروڑ لوگوں کو احتجاج‘ اجتماع‘ تحریر و تقریر کے ذریعے جابرانہ نظامِ حکومت کو چیلنج کرنے‘ آئین میں گارنٹی شدہ بنیادی حقوق مانگنے اور دستور میں دیے ہوئے حقِ حکمرانی سے دستبردار ہونے کے لیے غیرمنتخب پبلک سرونٹس کو عقلِ کُل اور فیصلہ ساز تسلیم کر لینے کے درباری فتوے جاری ہورہے ہیں۔ قوم کے آئینی بیانیے کے مقابلے میں اونچی دیواروں کے پیچھے سے سازشی سوچ کو جوابی بیانیہ (Counter Narrative) یا درباری بیانیہ مارکیٹ آئٹم بنانے کی مسلسل ناکام کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ملکی آبادی کی 70 فیصد کے قریب نوجوان نسل کو غلام بنانے کے لیے انٹرنیٹ‘ سوشل میڈیا‘ آزادیٔ تقریرو تحریر‘ انسٹا گرام‘ فیس بک‘ ایکس اکاؤنٹ پر پابندیوں سے جی نہیں بھرا تو وی پی این کو حرام قرار دینے کا درباری بیانیہ لانچ ہوا۔ درباری بیانیے کی بے توقیری کا عالم یہ ہے کہ فتویٰ دینے والے قوم کی اکثریتی آوازکے سامنے اپنی کمین گاہوں سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کچھ یہی حال محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں آنے والے نام نہاد ''اہلِ علم‘‘ کا تھا۔ جن میں ایک نمایاں نام مشرقی پاکستان سے تھا‘ مولانا عبدالحمید بھاشانی۔ جنہوں نے ابتدا میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ پھر اپنی قیمت 40 لاکھ روپے سکہ رائج الوقت لگوائی اور جوا بیانیے کے غلام ہو کر رہ گئے۔ نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت کے تین سرکردہ رہنماؤں کے سامنے مولانا بھاشانی نے اپنی غدارانہ ضمیر فروشی کا اعتراف کیا۔ یہ تین رہنما میاں محمود علی قصوری‘ خان عبدالولی خان اور ارباب سکندر خان تھے جو اس غداری کی تحقیقات کے لیے کراچی سے ڈھاکہ پہنچے اور پھر مولانا بھاشانی کا پیچھا کرتے ہوئے ان کے آبائی گاؤں پنج بی بی جا پہنچے تھے۔
المناک تاریخ کی تیسری جھلکی: کون نہیں جانتا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح کو حصولِ اقتدار کی ذرّہ بھر بھی خواہش ہوتی تو وہ اپنے بھائی حضرتِ قائداعظم کی کابینہ میں کوئی بڑا عہدہ آسانی سے لے لیتیں۔ یا پھر بانیٔ پاکستان کی اس دنیا سے رخصتی کے بعد وہ آسانی سے اقتدار میں شریک ہو سکتی تھیں۔ مگر وہ کسی بھی سرکاری عہدے سے بے نیاز تھیں۔ لیکن اُس دور کی جو تاریخ عام پاکستانیوں سے چھپائی گئی‘ اس کے مطابق مادرِ ملت کو دستور سازی اور عوامی حقوق کی بالادستی میں خاصی دلچسپی تھی۔ قوم کے لیے اسی دردمندی کی وجہ سے محترمہ فاطمہ جناح اقتدار سے الگ تھلگ رہنے کے باوجود وقتاً فوقتاً اس وقت کی قیادت کو ان کی غلطیوں سے آگاہ کرتی رہیں۔ جن سرکاری ملازموں نے جمہوریت کے نام پر عوام کے حقوق غصب کر رکھے تھے‘ مادرِ ملت نے ان پر ہمیشہ سخت تنقید کی۔ وہ قائداعظم کی ہمشیرہ اور عوام دوست شخصیت ہونے کے باعث اس وقت بولیں جب ملک آمریت کے چنگل میں پھنس گیا تھا۔ محترمہ نے آمریت کے نتیجے میں ملک کو لاحق ہونے والے خطرات سے قوم کو بڑی دلیری سے آگاہ کیا۔ ان کے لیے قائداعظم اور پاکستان سے محبت رکھنے والے رہنما حضرتِ رومی کا یہ شعر پڑھتے:
دستِ ہر نااہل بیمارت کند
سُوئے مادر آ کہ تیمارت کند
جس کا مطلب ہے وطن اور اہلِ وطن کو نااہلوں کے ٹولے نے مریض بنا ڈالا ہے۔ لوگو! اپنی ماں کے ساتھ چلو تاکہ تمہاری بیماریوں کا علاج ہو سکے۔ المیہ یہ ہوا کہ وقت کے یزیدوں نے مادرِ ملت کی قومی خدمات پر مستقل سنسر شپ عائد رکھی‘ جبکہ اندھیر فروشوں کی ٹولیوں کے خوب پھلنے پھولنے کے لیے سرکاری وسائل اور قومی خزانے کے منہ کھول دیے۔
المناک تاریخ کی چوتھی جھلکی: جس طرح 2023ء کے جنرل الیکشن طے شدہ وقت پر نہیں ہوئے‘ اسی طرح دورِ آمریت میں محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخاب کی طے شدہ وقت سے تقریباً تین مہینے پہلے دو جنوری کو پولنگ کروا دی گئی۔ یہ ایسی تاریخی دھاندلی تھی جس کی کوئی مثال جمہوری تاریخ سے نہیں ملتی۔ مشرقی پاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح کے پولنگ ایجنٹ شیخ مجیب الرحمن تھے۔ جنہوں نے ڈھاکہ اور چٹاگانگ کے علاقوں میں مادرِ ملت کو بھاری اکثریت سے الیکشن جتوا دیا۔ حقیقی جمہوریت کی بحالی کے آغازِ سفر میں برسر اقتدار جرنیل اور سیاسی عہدوں پر مسلط اس کے ہمراہی کولیگز نے الیکشن پراسیس میں پولیٹکل انجینئرنگ کا آغاز کیا جس پر محترمہ کے حامی‘ عوامی شاعر حبیب جالب نے یوں حقیقتِ حال بیان کی:
دھاندلی‘ دھونس‘ دھن سے جیت گیا
ظلم! پھر مکرو فن سے جیت گیا
اس وقت کے مارشلائی سربراہ نے پولیٹکل انجینئرنگ سے حاصل ہونے والی جیت کی خبر پر سرکاری میڈیا سے بیان داغا ''خدا کا شکر ہے ملک بچ گیا‘‘۔ مشرقی پاکستان کے پاپولر ترین عوامی لیڈروں نے کہا: اب ملک نہیں بچ سکتا۔ اور پھر تاریخ کا فیصلہ ہمارے سامنے آ گیا۔ مارشلائی کابینہ کا کہنا تھا: فاطمہ جناح اور ان کے ساتھی نظریۂ پاکستان کے دشمن تھے جنہیں شکست ہوگئی۔
المناک تاریخ کی پانچویں جھلکی: المناک تاریخ کا یہ باب بتاتا ہے کہ لاہورمیں میاں معراج الدین اور میاں شریف‘ ایوب خان کے سب سے بڑے فنانسر اور حامی تھے۔ منیر نیازی‘ حبیب جالب‘ احمد مشتاق‘ سید قاسم محمود‘ محمود شام‘ ابراہیم جلیس‘ میاں بشیر اور دیگر نے محترمہ کے حق میں ملک گیر ادبی مہم چلائی۔ اس فارم 47 نما کامیابی کے اگلے روز ڈھاکہ میں حکومت مخالف لوگوں پر حملے ہوئے۔ خطۂ پوٹھوہار میں محترمہ کی انتخابی مہم کے انچارج چودھری امیر اور ملک نواب خان کو الیکشن کے دو دن بعد قتل کر دیا گیا۔ لیاقت آباد‘ کراچی میں اپوزیشن کارکنوں کی دکانیں لوٹی گئیں‘ گھروں کو آگ لگائی گئی۔ 33 شہری مارے گئے‘ 300 زخمی اور دو ہزار سے زائد بے گھر ہوئے۔ فیض احمد فیض نے اس بربریت پر لکھا:
نہ مدعی‘ نہ شہادت‘ حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزقِ خاک ہوا
26نومبر 2024ء کی رات پھر خاک نشینوں کا خون رزقِ خاک ہوا۔ آج بھی المناک تاریخ کی جھلکیاں مسلسل سامنے آرہی ہیں۔ (ختم)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں