"SBA" (space) message & send to 7575

جاگدے رہنا‘ ٹرمپ تے نہ رہنا

آج پھر ایک فیلڈ مارشل کا ذکر آغاز میں آ گیا۔ یہ تھے جمہوریہ پاکستان کے فیلڈ مارشل ایوب خان جن کے ذکر کا سبب یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کے وائس پریذیڈنٹ James David Vance کا ایک تازہ ترین بیان ہے جو پاک بھارت جنگ کے پس منظر میں گزرے جمعہ سے قبل آفیشلی جاری کیا گیا۔ جے ڈی وینس کے اس بیان میں لفظ None کا استعمال ہوا ہے‘ جس کا سادہ اردو ترجمہ انکار ہے‘ جسے انگریزی میں Not بھی کہہ سکتے ہیں۔ پاکستانیوں اور امریکیوں‘ دونوں کیلئے Not کا ذکر آئے اور عمران خان کے Absolutely Not کو بھولا جا سکے ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ اسی طرح 1960ء کے عشرے میں ایوب خان کی کتاب Friends, Not Masters شائع ہوئی تھی۔ اگرچہ یہ تینوں حرفِ انکار علیحدہ‘ علیحدہ وقت پر علیحدہ‘ علیحدہ جگہ پر مختلف سالوں میں اپنے اپنے تناظرمیں بولے گئے مگر یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ناقابلِ تنسیخ حصہ بن چکے ہیں۔ سال1967ء کے ذکر سے ہمارے بڑے بازو مشرقی پاکستان کی یاد آ گئی جس کے پاپولر عوامی لیڈر شیخ مجیب الرحمن اور اس کے قریبی ساتھیوں تاج الدین احمد‘ ظل الرحمن اور مشتاق کھنڈکر وغیرہ کے خلاف پاکستانی تاریخ کے دوسرے مارشل لاء نے غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے ملٹری ٹرائل کورٹ بنائی تھی۔ عرفِ عام میں غداری کے اس مقدمہ کو اگرتلہ سازش کیس کا نام دیا گیا۔ اگرتلہ مشرقی پاکستان کے ایسٹرن بارڈر سے جڑا ہوا انڈین بنگال کا ایک مشہور شہر ہے جو اُس زمانے میں انڈین ریاست تری پورہ میں شامل تھا۔ اگرتلہ حالیہ بنگلہ دیش کے پڑوس میں ''ہارڈ بارڈر‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
گزشتہ ایک وکالت نامہ میں بھارت کے فیلڈ مارشل مانِک شاء اور اندرا گاندھی کے ڈائیلاگ پر بہت سے قارئین نے اصرار کیا کہ اسی دور کے مغربی پاکستان کے کرداروں پر بھی روشنی ڈالی جائے۔ ظاہر ہے اس زمانے کے سب سے معروف کرداروں کی جوڑی جنرل یحییٰ خان اور اقلیم اختر تھے۔ اسی تناظر میں حال ہی میں مجھے عمر ایوب خان کی خاندانی لائبریری سے کچھ استفادہ کرنے کا موقع ملا‘ جس کے دو واقعات آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ پہلا واقعہ ایوب خان کے استعفے کا ہے‘ جس کیلئے فیلڈ مارشل نے 25 مارچ 1969ء کو اسلام آباد میں اپنی کابینہ کا ایک خصوصی اجلاس بلایا جس میں فیلڈ مارشل نے مزاحمتی سیاست سے تنگ آ کر عہدہ ٔصدارت چھوڑنے اور استعفیٰ دینے کا فیصلہ سنایا۔ کابینہ کے کچھ ارکان نے فیلڈ مارشل کو منانے کی کوشش کی مگر وہ اپنا مختصر فیصلہ سنا کر کابینہ اجلاس برخاست کر کے اُٹھ گئے۔ ایوب حکومت کے خلاف چلنے والی اینٹی گورنمنٹ مہم کے دوران یحییٰ خان پہلے ہی تاحیات صدر بننے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ ایوب کابینہ سے جنرل یحییٰ کے مخبروں نے استعفے کی خبر سنائی تو اس کی رال ٹپک پڑی؛ چنانچہ یحییٰ خان نے جوانوں سے بھری گاڑیاں بھجوا کر کابینہ کے ارکان کو بتایا کہ وہ فوراً راولپنڈی جائیں گے۔ راولپنڈی صدر میں واقع تب منسٹری آف ڈیفنس کے دفتر میں کابینہ کے ارکان کو ایک الگ کمرے میں بٹھا دیا گیا جن کے ساتھ ایک فوٹو سیشن کے دوران ٹائپ شدہ کاغذ پڑھ کر جنرل یحییٰ نے اپنے آپ کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان بنانے کا اعلان کر دیا۔ اس کارروائی کی تکمیل کے دوران رات ہو گئی۔ یحییٰ خان نے کابینہ کے لوگوں کو وہیں بٹھائے رکھا اور پھر 26 مارچ 1969ء کے روز سرکاری ٹیلی ویژن پہ آ کر اقتدار سنبھالنے کی پہلے سے ریکارڈ شدہ ''خُشک خبری‘‘ مارشل لائوں سے تنگ آئے اور غصے سے بپھرے ہوئے عوام کو سنا دی گئی۔
اسی دور کا دوسرا واقعہ وہ ہے جس کا یحییٰ خان سرکار بڑی شدومد سے چرچا کرتی رہی لیکن سرکاری کاغذات سے اس کی موجودگی ٹریس نہیں ہوتی۔ وہ تھا امریکہ بہادرکا ساتواں بحری بیڑہ۔ اگر آپ پرنٹ میڈیا کے آرکائیو نکال کر دیکھیں تو اس وقت ساتویں بحری بیڑے کو پاکستان کا سب سے بڑا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا اور 'گودی میڈیا‘ سے یہ خبریں چلوائی گئیں کہ روس اور بھارت سے لڑنے کیلئے ساتواں بحری بیڑہ خلیجِ بنگال میں داخل ہو گیا ہے۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ تب تک یحییٰ خان مشرقی پاکستان کے سرنڈر کا فیصلہ کر چکا تھا۔ اس قومی سانحے کی ساری تفصیل جسٹس حمود الرحمن نے چشم دید گواہوں کے بیانات کی صورت میں لکھ کر محفوظ کر دی۔ پاکستانی قوم اور ریاست ایک بار پھر پوری قوت سے تازہ امتحان سے نبرد آزما ہے۔ یہ امتحان ہمارے روایتی دشمن بھارت کی جانب سے شروع کیا گیا‘ جس کے پہلے حملے کو اجتماعی قومی شعور نے پسپا کر کے کامیابی سے ناکام بنا دیا‘ مگر خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ پڑوسی نہ تبدیل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ٹرانسفر ہو سکتے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے جب تک پڑوس میں RSS ہے‘ خطرہ موجود ہے۔
ساتھ ہی زندہ قوم کی حیثیت سے ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ ہمارے خوش فہم اور قرض فہم کہہ رہے ہیں ٹرمپ انڈیا کو ٹکر گیا۔ کچھ دوسرے کم فہم خوش خیالی کی ہوائوں کے ساتویں آسمان تک پہنچ چکے ہیں۔ مگر دو سوال صاحبِ فہم لوگ مسلسل اٹھا رہے ہیں۔
پہلا اہم قومی سوال: کیا پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضے کی نئی قسط سارے مسائل کا حل ہے؟ ہماری معاشی صورتحال‘ بڑھتا ہوا زرعی بحران‘ آبی ذخیروں کی نایابی‘ بے روزگاری‘ پیپر منی‘ عوام کی قوتِ خرید میں کمی اور ملکی تاریخ کی سب سے بڑی مہنگائی کی لہر‘ سکولوں سے باہر بیٹھے ہوئے کروڑوں بچے‘ بیلنس آف پیمنٹ‘ فنانشل سائیڈ پر قومی خسارے کا گہرا گرداب۔ یہ سارے مسائل بھارت کو پسپا کر کے حل ہو گئے کیا؟ اس پر سوچ بچار کرنے کیلئے کیا کوئی تھِنک ٹینک موجود ہے؟ ہر سال مئی کے اسی ہفتے میں پچھلے پروجیکٹس اور اخراجات کو روک کر جون میں لایا جانے والا بجٹ بنایا جاتا ہے۔ اس بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار یا دو‘ اڑھائی ملین سرکاری ملازمت کرنے والوں کے علاوہ‘ عام آدمی‘ مڈل کلاس‘ لوئر مڈل کلاس کیلئے کوئی امید‘ کوئی خیر کی خبر یا کوئی ریلیف ہے؟ وفاقی کابینہ پوائنٹ سکورنگ کی اچھل کود میں مصروف ہے جبکہ شہباز سرکار قومی سرمائے پر اپنا امیج بنانے کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔
دوسرا اہم قومی سوال: کیا موجودہ نظام کے پاس اپنی کامیابیوں کی زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی شارٹ ٹرم‘ مڈ ٹرم یا لانگ ٹرم منصوبہ پبلک کیلئے بھی ہے؟ یا پھر بچے کھچے قومی اثاثے گروی رکھ کر امریکہ کی بے دام غلامی کو مستقل راہِ نجات سمجھ لیا گیا ہے۔ ذرا سا غور کریں تو پتا چلے گا‘ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ صاحب ساری دنیا سے تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو انٹرنیشنل تھانیدار بننے کا کوئی شوق نہیں۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں! صدرِ امریکہ کی مرضی کے بغیر جے ڈی وینس کہہ سکے: Fundamentally, It's none of our business۔ اس صدی کے موجودہ عشرے میں جو باتیں ننھے منے ٹک ٹاکر اور بلاگر سمجھ رہے ہیں‘ وہ اس گنجلک نظام کو سمجھ کیوں نہیں آ رہیں؟ ہر جھوٹے دعوے کی انتہائی جھوٹی دلیل ہے‘ آنے والا بجٹ سب اچھا کر دے گا‘ آنے والے حالات امن وخوشحالی لائیں گے‘ آنے والے دنوں میں بھائی پھیرو پیرس اور ڈونگی کھوئی شانزے لیزے بن جائیں گی۔
حیاتی تھک گئی گنجل کڈھدے
جیون دا ھلے وَل نئیں آیا
کل اَگے آج گروی رکھیا
کدے وی اوترا کل نئیں آیا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں