"SBA" (space) message & send to 7575

یہ فیصلہ تو محفوظ ہے‘ لیکن انصاف…؟؟

آخر ہوا کیا‘ جب دیش کے پردھان منتری سے پولیس والوں نے رپٹ لکھنے کے بدلے 35 روپے سکہ رائج الوقت کی نقدی مانگی۔ یہ سال ہے 1979ء کا۔ ملک کا راج سنگھاسن ایسے پرائم منسٹر کے پاس تھا جو غریب لوگوں میں کسان راج نیتا کہلائے۔ یہ تھے بھارت کے پانچویں پردھان منتری چودھری چرن سنگھ۔ یہ وہی دور تھا جب انڈین سٹیٹ آف اُترپردیش کے لاتعداد کسان پولیس والوں اور ٹھیکیداروں کی رشوت سے تنگ آ کر پردھان منتری چودھری چرن سنگھ کو پتّر لکھ لکھ کر بھیج رہے تھے۔ ان شکایات پر ایئر کنڈیشنڈ پی ایم آفس میں بیٹھ کر دل ہی دل میں کڑھنے کے بجائے چرن سنگھ نے کسانوں والی پگڑی اور لباس پہنا‘ پھر بغیر کسی پروٹوکول کے تنِ تنہا یو پی کے ضلع اُوٹاوہ کے تھانہ اُسرہار میں جا پہنچے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ عین اُسی سال واہگہ بارڈر کے اس جانب ایک دن پنڈی کینٹ سے لے کر اسلام آباد سیکرٹریٹ تک کی تمام ٹریفک پولیس اور سکیورٹی اہلکار‘ کارِ خاص کے سفید پوش سمیت‘ اکٹھے لائن حاضر ہوئے۔ ان سب کو راولپنڈی صدر کے ہاتھی چوک سے اسلام آباد جانے والی شاہراہِ پہلوی المعروف مری روڈ کے دونوں جانب ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونے کا حکم جاری ہوا۔ سرکاری ٹی وی نے صبح سپیشل ٹرانسمیشن شروع کر دی‘ جس سے پتا چلا کہ جنرل ضیاء الحق فُل یونیفارم میں ملبوس سائیکل چلاتے ہوئے گھر سے اسلام آباد جانے کے لیے نکلے ہیں۔ مری روڈ اور اُس کی تمام ذیلی سڑکیں عام ٹریفک کے لیے مکمل طور پر بند تھیں۔ سرکاری ملازمین کی تالیوں کی گونج میں جنرل ضیا الحق کالی شاہ کالی بائیسکل پر گھنٹی کی ٹن ٹن بجاتے ہوئے مریڑ چوک جا پہنچے۔ اسی دوران اچانک انٹرنیشنل میڈیا پر اسلام آباد کے بارے میں خبریں بریک ہونا شروع ہو گئیں‘ جن کے مطابق شہرِ اقتدار میں سٹوڈنٹس اور عوام کی بھاری تعداد سیکٹر G-6 میں واقع آبپارہ چوک سے امریکی سفارتخانے کی جانب سیکٹر G-5 چل پڑی ہے۔ اس دن کی باقی تفصیل پڑھنے کے لیے The Siege of Mecca پڑھ لیں۔ یہ مشہورِ زمانہ کتاب یوکرین سے تعلق رکھنے والے سکالر مصنف Yaroslav Trofimov نے لکھی ہے۔
واپس چلتے ہیں انڈین تھانے کی طرف‘ جہاں وزیراعظم چودھری چرن سنگھ رشوت خوری کے ناگ کو پکڑنے کے لیے بذاتِ خود کھڑے ہیں۔ داروغہ جی نے موٹی عینک کے پیچھے سے اس خستہ حال کسان سے پوچھا: یہاں کیا کر رہے ہو میاں؟ چرن سنگھ نے جواب دیا: داروغہ صاحب میرا بیل چوری ہو گیا۔ میں برباد ہو جائوں گا۔ ابھی پورا کھیت فصل سے خالی ہے۔ بیل کے بغیر کیا کروں گا۔ داروغہ کی منت کرتے ہوئے چرن سنگھ نے کہا: پائی پائی جوڑ کر وہ بیل خریدا تھا۔ آپ کی بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ میرا بیل واپس کروا دیں۔ داروغہ نے چرن سنگھ کی باتوں کو نظر اندازکرتے ہوئے چوری کی رپٹ لکھنے سے انکار کر دیا۔ اس پہ بیزار ہوکر چرن سنگھ نے اُٹھ کر باہر جانے کے لیے چلنا شروع کیا کہ اچانک پیچھے سے کسی کانسٹیبل کی آواز آئی: ٹھہرو دادا! اگر کوئی خرچہ پانی دے دو تو شکایت لکھ دی جائے گی۔ بھارتی وزیراعظم اور تھانے کے سپاہی کے مابین تھوڑی دیر بات چیت ہوئی اور طے پایا کہ 35 روپے ایڈوانس نقدی دینے پر رپٹ درج ہو گی۔ داروغہ نے رپورٹ لکھنے کے بعد فریادی سے سوال کیا: دادا! دستخط کرو گے یا انگوٹھا لگانا ہے‘ جس پر پی ایم چودھری چرن سنگھ نے کہا: داروغہ جی دستخط کرنے ہیں۔ یہ سُن کر داروغہ نے شکایت والا کاغذ آگے بڑھا دیا۔ چودھری چرن سنگھ نے بڑھ کر داروغہ کے آگے سے قلم اور ساتھ ہی انگوٹھا لگانے والا پیڈ بھی اُٹھا لیا۔‘جب دستخط کرنے کے بعد چودھری چرن سنگھ نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک مُہر نکالی اور سیاہی والے پیڈ پر رکھی‘ پھر پیڈ سے روشنائی لگانے کے بعد دستخط کے پاس ہی مُہر بھی ٹھوک دی‘ تب داروغہ نے دھیان سے مُہر کی طرف دیکھا تو اُس پر لکھا تھا 'پردھان منتری بھارتی سرکار۔ یہ دیکھ کر تھانے میں بھونچال آ گیا اور پھر تھانوں کے تھانے معطل ہونا شروع ہو گئے۔ ہمارے ہاں بھی ایک وزیراعظم انسپکشن ٹیم ہے‘ جس کا باقاعدہ سیکرٹریٹ ہے اور اُس کا چیئرمین پورے سرکاری پروٹوکول سے گھومتا ہے۔ وہاں جو بھی شکایت جاتی ہے اُس پر فیصلہ محفوظ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ہماری ریاست کے منیجر ہر روز یہ منترا دہراتے ہیں کہ 25 کروڑ لوگوں کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
ابھی کچھ دن پہلے‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک لارجر بینچ نے ملٹری عدالتوں میں سول شہریوں کے ٹرائل کے بارے میں فیصلہ محفوظ کر لیا تاکہ پاکستان کے شہری محفوظ ہاتھوں میں رہیں۔ اس فیصلے کا پس منظر سب جانتے ہیں‘ جسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ہاں البتہ تین قانونی حقائق قارئین کے لیے حاضر ہیں۔ پہلا: سپریم کورٹ آف پاکستان کا پانچ رکنی بنچ 90ء کے عشرے کی نواز شریف سرکار کا ملٹری ٹرائل کورٹس والا قانون کالعدم قرار دے چکا ہے۔ پھر فارم 47 سرکار کے ذریعے 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے سپریم کورٹ کے دوسرے بینچ نے بھی سویلین کے ملٹری ٹریبونلز کے ذریعے ٹرائل کو مسترد کیا۔ اب جو تازہ فیصلہ محفوظ ہوا ہے‘ اُس کی خاص بات یہ ہے کہ وہ فیصلہ دو کے مقابلے میں پانچ ججز نے جاری کیا۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کورٹ کو آئین سے متصادم قرار دیا۔ بنیادی شہری حقوق اور انسانی حقوق کے حوالے سے المیہ یہ ہوا کہ اسی عدالت کے ایک دیگر بینچ نے فوجی عدالتوں کو ٹرائل جاری رکھنے کا حکم دیا‘ جس کے نتیجے میں سینکڑوں شہریوں کو سزائیں سنا دی گئیں۔ حتمی فیصلہ تب بھی محفوظ تھا لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ شہریوں کے آئینی حقوق محفوظ نہ رہے۔ ہماری تاریخ کا المیہ ہے کہ ہر جابر کے خیال میں وہ عوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ حالانکہ نمائندگی کیلئے ضروری ہے کہ انتخابی میدان میں اُتر کر عوام میں جائیں اور عوام کی نظروں میں اپنی مقبولیت کا ٹیسٹ لیں۔ ہمارا قانون سرکاری ملازمت کے دو معیار مقرر کرتا ہے۔ پہلا‘ پبلک سروس میں Efficiency اور دوسرا اپنی ملازمت کا سو فیصد Discipline۔ نعرے بازی اور عوامی پذیرائی اس میں ہر گز شامل نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے محفوظ فیصلے سے پہلے شہریوں کے حقوق کو محفوظ بنانے کیلئے ایک بنیادی نکتہ اُٹھایا‘ جو آئین میں آج بھی ان لفظوں میں موجود ہے:
Article 175: Establishment and jursidiction of courts. (1) There shall be a Supreme Court of Pakistan, a High Court for each province [and a High Court for Islamabad Capital Territory] and such other courts as may be established by law.
یعنی عدالتیں صرف وہ کہلائیں گی جن کا ذکر آئین کے آرٹیکل 175(1) میں موجود ہے۔
پاکستان اور بھارت دو ایسے پڑوسی ہیں جیسے ایک بیل کے دو سینگ‘ ایک طرف سے کوئی حرکت ہوتی ہے تو دوسری جانب بھی ارتعاش ظاہر ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ اُس دن محفوظ کیا جس دن بھارت نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں سرزمینِ پاکستان پر حملہ کیا۔ سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے شارٹ آرڈر میں آئین کے آرٹیکل 175 کی دو متوازی اور بلکہ متصادم تشریحات کی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ فیصلہ تو محفوظ ہے مگر سویلینز کے آئینی حقوق غائب۔ سائل عدل گاہ کے باہر نوحہ کُناں ہیں:
زندگی دھوپ کا میدان بنی بیٹھی ہے؍ اپنا سایہ بھی گریزاں‘ ترا داماں بھی خفا
رات کا رُوپ بھی بیراز‘ چراغاں بھی خفا؍ صبحِ یاراں بھی خفا‘ شامِ حریفاں بھی خفا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں