جو بات بھی حکیم الامت نے کہی وہ اُمت کی نبض جان کر کہی۔ آگہی کے درویشِ شرق و غرب‘ حضرتِ علامہ اقبال ؒ نے 1907ء میں حکمت کا جو موتی بانگِ درا میں پرویا‘ وہ موتی آج بھی سچ کی پوری آب و تاب کے ساتھ دمک رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال فروری 2024ء کے عام انتخابات سے ملتی ہے‘ جن میں قیدی نمبر 804 کو عوام نے واضح اکثریت سے قوم کے درد کی دوا سمجھ کر چنا تھا۔ پھر جو ہوا وہ ہماری انتخابی تاریخ کا سیاہ ترین بابِ ثانی بن گیا۔ عوامی مینڈیٹ سے انحراف کا ایک سیاہ باب وہ تھا جس میں ہم نے ملک کا مشرقی بازو گنوا دیا۔ علامہ نے فرمایا:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
342 نشستوں والی قومی اسمبلی کے ایوان میں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان پارٹی نے حقیقتاً کتنی نشستیں جیتیں‘ یہ بات بچہ بچہ جانتا ہے۔ مسترد لوگوں کو جبراً مسلط کرنے کو جمہوریت کہا نہیں جا تا بلکہ یہ دھاندلی کو جمہوریت سے منوانے کی ضد ہے۔ ناپائیدار آشیانے کی اسی ضد میں ہارے ہوئے لشکرکے بینی فشری موجودہ نظام کو ہائبرڈ نظام بنانے کے خواہش مند ہیں۔ ان کے کچھ اتالیق تو دروغ گوئی کی حد سے بھی آگے گزر گئے‘ اصرار کرتے ہیں جسے جبراً تمہارے اوپر بیٹھا دیا گیا اس کا قبضہ مان لو۔ اتالیقوں کے گُرو کا کہنا ہے کہ دھاندلی کو الیکشن مان لینا دستور کی منشا اور دھونس کے فیصلے قوم کی منشا ہیں۔ گلے سڑے نظام کے بوسیدہ دلائل اور یہ دلائل دینے والے نئی نسل کیلئے صد فیصد Irrelevant ہیں۔ اسی لیے کروڑوں‘ اربوں کی مہنگی ڈِس انفارمیشن اور مِس انفارمیشن دونوں نظام کی پذیرائی یقینی نہیں بنا سکتے۔ ایک ممتاز مغربی لکھاری Christopher Clary نے حال ہی میں دلچسپ تحقیقی آرٹیکل لکھا ہے‘ جس کا تناظر پاکستان اور بھارت کے درمیان سات تا 10مئی تک کا‘ کرِسٹی کے الفاظ میں‘ Near War تجربہ ہے۔
طُرفہ تماشہ لیکن یہ ہے کہ ضدی کا خطاب فارم 47 حکمرانوں نے اپنے بینی فشروں کے ذریعے قیدی نمبر 804 کو دے رکھا ہے۔ شہباز کابینہ کے ایک رکن نے کہا کہ عمران خان ضدی ہے‘ وہ رہا نہیں ہونا چاہتا اور نہ ہی مل کر بیٹھنا چاہتا ہے ہمارے ساتھ۔ اس غیر نمائندہ نظام نے عوام کے اجتماعی شعور سے ضد لگا رکھی ہے‘ جس کی سادہ ترین دیہاتی اور مڈل کلاس مثال پاکستان کے ادارۂ شماریات سے ملتی ہے‘ جو ہر ہفتے ٹی وی پر آلو‘ پیاز‘ ٹماٹر‘ گندم‘ ادرک‘ دھنیا اور مرچ مسالے کے سستا ہونے کی خبریں لگاتا ہے۔ پھر فارم 47 سرکار اس پر ریلیف کی تقریریں کرتی ہے۔ کون نہیں جانتا! یہ سب غریب کسانوں کی اُگائی ہوئی فصلیں ہیں‘ جنہیں کسان اپنے خون پسینے سے سینچتے ہیں۔ عوام سے ضد لگانے والوں کی ضد کی حد یہ ہو گئی کہ وہ چینی‘ پٹرول‘ گیس‘ بجلی‘ ڈالر‘ یوریا‘ پاؤنڈ‘ لوہا‘ ریال‘ سیمنٹ اور جان بچانے والی دوائیں سستی نہیں ہونے دیتے۔ وجہ صاف ظاہر ہے‘ یہ سب چیزیں ان خاندانوں کی ملکیت میں ہیں جو اپنے آپ کو ''حکمران خاندان‘‘ کہتے ہیں۔ وہ بھی 25کروڑ لوگوں کے حقِ حکمرانی پر ڈاکا ڈال کر۔
گزشتہ دس دن کی دو ملاقاتوں کے بعد کل جمعرات کے روز عمران خان سے اڈیالا جیل میں پھر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ جس سے قیدِ تنہائی کے دو سال گزر جانے کے بعد بھی حقیقی تبدیلی پر اُن کا عزمِ مسلسل ظاہر ہوتا رہا۔ قیدی نمبر 804کی گفتگو کی کچھ باتیں آپ سے شیئر کرتا ہوں تا کہ آپ جان سکیں کہ قیدی نمبر 804 آخر سوچتا کیا ہے۔
پہلی بات: سیاسی اخلاقیات کی پستی کی انتہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی مدت چار‘ پانچ مہینے پہلے پوری ہو چکی مگر نئی تعیناتی نہیں ہو رہی۔ یہ ایک ایسا آئینی ادارہ ہے جس میں براجمان لوگ عوام منتخب نہیں کرتے بلکہ خواص کے نامزد ہوتے ہیں۔ ان کو سپریم کورٹ کے ججز کے برابر مالی‘ انتظامی‘ رہائشی‘ علاج اور سفریات سمیت دیگر مراعات ملتی ہیں۔ یہ ادارہ اس قوم کے کروڑہا روپے کے خرچے سے چلتا ہے جس کا واحد مقصد ووٹر کے دستوری حق کا تحفظ ہے۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 218(3)کے تحت الیکشن کمیشن فیئر‘ فری‘ ٹرانسپیرنٹ اور قانون کے ماتحت‘ کرپشن سے پاک منصفانہ الیکشن کروانے کا پابند ہے۔ قیدی نمبر 804 پوچھتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو مینڈیٹ چوری کا سہولت کار کس نے بنا ڈالا؟
دوسری بات: دنیا میں نو ممالک نے ایٹم بم بنایا اور پھر اسے سنبھال کر رکھا۔ نئے سرے سے اپنی قوم کو سائنس‘ فلسفہ اور ادب کی کتابیں تھما کر قابل ترین شہریوں کو نئے مشن سونپ دیے۔ ہمارے علاوہ آٹھ ممالک ایٹم بم بنا کر بھول گئے۔ ان آٹھوں ملکوں میں یومِ ایٹم کی چھٹی کبھی نہیں منائی گئی۔ ان آٹھ ایٹمی ملکوں نے صرف کام سے کام رکھا اور آنے والی نسلوں کی ترقی کیلئے نئی راہیں کھولیں۔ آٹھ ممالک اپنے ایٹمی پروگرام سے توانائی اور خوراک کے وسائل حل کر چکے۔ بجلی سے زراعت تک۔ کیا عوام کی تقدیر میں اندھیرے اور خالی نعرے بازی رہ گئی۔ علامہ اقبالؒ کے بقول:
کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں؍تو پیرِ مے خانہ سن کے کہنے لگا منہ پھٹ ہے خوار ہوگا
تیسری بات: قیدی نمبر 804 کو کسانوں کی خواری‘ ان کی فصلوں کی دربدری سخت پریشان رکھتی ہے۔ تازہ رپورٹڈ فیکٹ شیٹ کے مطابق پچھلے ایک سال میں گندم کی پیداوار میں 8.9 فیصد‘ مکئی 15.4فیصد‘ چاول 1.4فیصد‘ گنا 3.9فیصد اور کپاس کی پیداوار میں 30.7فیصد کمی واقع ہوئی۔ لارج سکیل انڈسٹری کی مینوفیکچرنگ بھی منفی میں رہی۔ اسی لیے جمعرات کی ملاقات میں قیدی نمبر 804 نے موجودہ حالات میں سوچ کا نیا زاویہ یوں لیا۔ قومی یکجہتی چائے پر مل بیٹھنے سے وارِد نہیں ہوتی۔ قوم کے اجتماعی مسائل‘ رُول آف لاء کی عدم موجودگی‘ بنیادی دستوری حقوق کی پامالی اور بعض حلقوں کی لامحدود خواہشِ اقتدار کی وجہ سے قوم یکسو نہیں۔ اختلافی آواز قوم کا دستوری حق ہے۔ یہ بات قیدی نمبر 804نے اپنے لفظوں میں کہی جسے میں علامہ صاحب کے الفاظ میں دہرا دیتا ہوں:
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری‘ نفس مرا شعلہ بار ہو گا
پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد قارئینِ وکالت نامہ نے بار بار پوچھا کہ آپ جنگ کے مخالف کیوں ہیں؟ لیجئے! رسید حاضر ہے۔ جو بم ایک لاکھ یو ایس ڈالر کے خرچ پر بنتا ہے اسے گرانے کیلئے دس کروڑ ڈالر کا ہوائی جہاز اُڑان بھرتا ہے۔ اس فلائٹ کی قیمت چالیس ہزار ڈالر فی گھنٹہ پڑتی ہے۔ اتنے بھاری خرچ کا تکلف محض ان لوگوں پر بم گرانے کیلئے کیا جاتا ہے جن کی آمدنی دس ڈالر روزانہ بھی نہیں ہوتی۔ بے شک حقِ دفاع ریاستوں کو دشمن ملکوں کے خلاف حاصل ہے اور شہریوں کو مسلط حکمرانوں کے خلاف بھی۔ شعور کا سفر مستقل مزاجی سے جاری ہے مگر شعور کا موجودہ موسم تازہ آندھیوں سے بھی زیادہ تیز رفتار ہے۔ اشرف عدیل نے سچ کہا:
دستِ غاصب میں جو شمشیر ہے اس کا دستہ
اب کے جمہور کے خوابوں کے لہو سے تر ہے
عدل کے شہر پہ یلغار کے اس موسم میں
جو کشیدہ ہے وہ اک مردِ جری کا سر ہے