عمران خان نے ایک بار پھر سے خود مزاحمت لیڈ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ باقی تفصیل کی طرف بعد میں آتے ہیں پہلے دیکھ لیں اقوامِ عالم کی تاریخ۔ ابھی کل کی بات ہے افریقہ کے گلوبل آئیکون لیڈر نیلسن منڈیلا نے جیل میں رہتے ہوئے فاشسٹ حکمرانوں کے خلاف پُرامن تحریک Amandla کے نام سے چلائی اور قیدِ تنہائی سے اُس کی قیادت کی۔ متحدہ ہندوستان میں بیرسٹر کرم داس موہن چند گاندھی نے بھی فرنگی راج کے خلاف جیل میں بیٹھ کر آل انڈیا کانگریس کی احتجاجی تحریک کی قیادت کی۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ خان عبدالولی خان کی جیل کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب (ن) لیگ کے قائد نے فرینڈلی جیل کے دوران پارٹی کی لیڈرشپ کے لیے دو‘ دو صد لوگوں سے ملاقات کیں۔ وہ جب بھی جیل گئے اُنہیں گھر کا کھانا‘ ایمبولینس‘ مرضی کے ڈاکٹرز اور مرضی کی ''ڈیل‘‘ سے نوازا گیا۔ گزشتہ ہفتے سے عمران کے تازہ فیصلے کے حوالے سے سرکاری میڈیا میں کچھ ایسے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں جن کے بارے میں آپ سب کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔
عمران خان کے حوالے سے پہلا سوال: عمران خان نے جیل میں تقریباً دو سال قیدِ تنہائی کاٹنے کے بعد یہ فیصلہ کیوں کیا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کی مزاحمتی تحریک کو اڈیالا جیل سے خود ذاتی طور پر لیڈ کریں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کو ملک میں آئے دن بنیادی انسانی حقوق‘ شہری آزادیوں اور دستوری جمہوریت پر ہونے والے حملے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے جو عہدیدار اس وقت موجود ہیں وہ عارضی نامزدگیوں پر کام کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے تین دفعہ کوشش کی‘ انٹرا پارٹی الیکشن کو الیکشن کمیشن ویلیڈیٹ کرے لیکن تینوں بار الیکشن کمیشن نے ثالث کے بجائے سیاسی جماعت کا کردار ادا کرنا پسند کیا۔ پھر اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے نظریۂ تبدیلی‘ قوم کی حقیقی آزادی‘ رُول آف لاء اور اداروں کو دستوری فریم ورک کے اندر رکھنے کے لیے ایک چوتھائی صدی سے لوگ عمران خان کی طرف ہی دیکھتے آئے ہیں۔ اب قومی شعور ان بنیادی نکات کے ساتھ ساتھ احترامِ آدمیت اور ریاستِ مدینہ کی طرز پر ویلفیئر اسلامک سٹیٹ پر پختہ ہو چکا ہے۔ اس قدر پختہ کہ لوگ عمران خان کے علاوہ کسی اور عہدیدار کی طرف نہیں دیکھتے‘ لہٰذا عمران خان کے تازہ دو فیصلے پاکستان کے موجودہ حالات میں دلیرانہ ہی نہیں بلکہ دانشمندانہ بھی ہیں۔ یہاں دو پہلو اور بھی قابلِ توجہ ہیں۔ اوّلین پہلو کے مطابق عمران خان پی ٹی آئی کے بعض لوگوں کی اس حرکت سے سخت ناراض ہوئے جو فرینڈلی ٹی وی ٹاک شوز کرتے ہیں۔ اُن میں یہ دعویٰ بھی ہوتا ہے‘ ہم مقتدرہ کے ساتھ مذاکرات چلا رہے ہیں۔ کپتان کے مطابق اس طرح کی گفتگو پی ٹی آئی کی کور سپورٹ کو کنفیوز کرتی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کی طرف عمران خان نے اپنے ورکرز اور قوم کو اُمید کی ایک نئی جوت جگائی ہے۔ وہ عمران خان کا غیر متزلزل اور سیدھا سادہ نعرہ‘ ہٹ جائو یا ڈٹ جائو۔ اس کے ساتھ ہی عمران خان نے PTI کے لیے اپنے پیغام میں کہا کہ جو وہ وکلا فیملی اور ملاقات کے لیے آنے والی PTI لیڈرشپ کے ذریعے بھیجتے ہیں‘ مجھے وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے والے لوگوں کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنا پڑے گا۔ بہتر یہ ہے‘ وہ ہٹ جائیں اگر وہ ڈٹ نہیں سکتے۔
عمران خان کے حوالے سے دوسرا سوال: قیدی نمبر 804 کے دو تازہ فیصلوں کے حوالے سے سوالِ ثانی یوں ہے۔ ان زمینی حالات میں عمران خان کو مزاحمت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب سیاسی ڈکشن کی راکٹ سائنس کے بجائے رپورٹ شدہ حقائق میں سے دینا بہتر ہو گا۔ مثال کے طور پر اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے‘ پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد PTI سوشل میڈیا نے سیاسی جماعتوں پر لمبی لیڈ کے ساتھ بھارتی حملے کے خلاف قومی بیانیے کو پاپولر اور مؤثر بنانے میں ساتھ دیا۔ ہوا یوں کہ ابھی PTI آفیشل ٹویٹر ہینڈل پر ٹویٹ کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کرانے کا فیصلہ لیا گیا۔ صرف اس ایک انتہائی متنازع‘ دو بمقابلہ پانچ فیصلے پر بس نہیں ہوئی بلکہ تھانہ رمنا اسلام آباد کے باہر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے والوں کو 10‘ 11 اور 15 سال کی قید بامشقت سنا دی گئی۔ آپ ذرا جوڈیشل ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں‘ سال 2023ء سے سال 2025ء تک اصلی دہشت گردی کی وحشت گری کرنے والے ملزموں کے خلاف کتنے فیصلے آئے ہیں اور پی ٹی آئی کے کتنے لوگوں کو پہلے گوجرنوالہ اور اب اسلام آباد میں دہشت گردی میں لمبی قید کی بے رحمانہ سزائیں سنائی گئیں۔ اس سے پہلے تین مرتبہ ملٹری کورٹس سے بھی PTI کے سینکڑوں ورکرز کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ ATC اسلام آباد کے مذکورہ بالا فیصلے کے نتیجے میں انتہائی پسماندہ علاقے چترال سے PTI کے ایم این اے کودہشت گردی کی سزا سنائی گئی۔ عمران خان کو بیٹوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔ اُن کی اہلیہ‘ بہنیں ملاقات کے لیے پاپڑ بیلتی ہیں۔ فیصل آباد سرگودھا‘ پنڈی‘ لاہور اور شہرِ اقتدار میں دہشت گردی کی عدالتیں PTI کے مقدمے جیٹ سپیڈ سے چلا رہی ہیں۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ عمران خان پاکستان میں مزاحمت کا سب سے بڑا استعارہ ہیں۔ ایسے میں جب فاشزم نت نئے بچے کوچہ وبازار میں جنم دے رہاہے مزاحمت کے علاوہ اور راستہ بچتا کیا ہے۔ ڈیل تو وہ لے گا نہیں‘ ڈھیل پہ وہ راضی نہیں اور انصاف مل نہیں رہا۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے خلاف ہار مان لینے والے امیدوار کے نام سے سپیکر قومی اسمبلی نے ماورائے آئین ریفرنس دائر کیا۔
عمران خان کا دوسرا فیصلہ یہ ہے کہ احتجاج کا طریقہ کار اور تاریخ وہ خود دیں گے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں عوام قیامت تک نہ جاگ سکتی ہے‘ نہ اُٹھ سکتی‘ پبلک کے جذبات کی چنگاری کبھی شعلۂ جوالہ نہیں بن سکتی ‘وہ ساون کے اندھے ہیں۔ ناکردہ کار اور بوسیدہ ہرکارے کیا جانیں قوم کیا سوچ رہی ہے۔ ان کے الیکشن اور ان کی مقبولیت پنجاب کے تھانوں کی طاقت کی بنیاد پر منحصر ہے یا ٹک ٹا ک ٹیم کی پرفارمنس پر۔
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے مزاحمت کو کوئی آمر نہیں روک سکا۔ فرعون سے شدّاد تک اور فرنگی سے اُس کے غلام زادوں تک۔ عمران خان کا فیصلہ زبانِ حال سے کہہ رہا ہے
ادھر بلائوں پہ جو مسکرا سکے وہ آئے
جو تاج و تخت پہ ٹھوکر لگا سکے وہ آئے
جو اپنے آپ سے آنکھیں لڑا سکے وہ آئے
ردائے زر کا نہیں جو کفن کا شیدا ہو
ادھر وہ آئے جو دار ورسن کا شیدا ہو