"SBA" (space) message & send to 7575

نوٹیفیکیشن کے بجائے الاٹمنٹ لیٹر!

اس میں مائنس زیرو شک و شبہے کی بھی گنجائش نہیں کہ پاکستانی قوم جری ہے۔ عوام بہادر ہیں اور جہاں دھرتی ماں کا سوال آ جائے وہاں باقی سب کچھ پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں‘ اپنی ذات سے اوپر اُٹھ کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ جنہیں آپ ایلیٹ کلاس کہہ سکتے ہیں‘ وہ اس صلاحیت سے محروم ہیں۔ چنانچہ جب قوم امتحان میں ہوتی ہے‘ اپنا پروٹوکول‘ اپنی اَنا اور اپنی ترقیاں انہیں یاد رہتی ہیں۔ یہ طبقات عوام کے ساتھ کھڑا ہونا پسند نہیں کرتے۔ وہی عوام جن کو وہ دن رات یکجہت یعنی یک رُخ ہونے کیلئے بھاشن دیتے ہیں۔ دل چاہتا ہے یہ جملہ کہہ دوں کہ 77 سال سے بھاشن غریبوں کیلئے اور راشن بڑوں کیلئے۔ اصل میں یہ ہے پاکستان کی بنیادی معاشی پالیسی اور ریاست کے وسائل کی تقسیم کا ناقابلِ تنسیخ فارمولا۔ دور کی کوڑی لانے کی ضرورت نہیں۔ جب سے معاشی بحالی کی سرکاری کمیٹی بنی‘ نوٹنکی مزاج کہتے ہیں: مادرِ وطن پر وقت آیا تو ہم گھاس کھا لیں گے۔ ذرا گھاس کھانے کے دعویداروں کی کارکردگی تو دیکھیں۔ وفاق کے سارے محکموں کے بڑوں نے اپنے لیے بڑی بڑی نئی SUVگاڑیاں خرید لی ہیں۔ چمکتی دمکتی برینڈ نیو کاریں۔ ایسی کچھ خریداریوں کے بارے میں خبریں میڈیا میں چل چکی ہیں۔ لیکن کچھ اور کیلئے انفارمیشن تک رسائی شہرِ ممنوع سمجھ لیں۔ اور تو اور سینیٹ کے چیئرمینوں‘ اسمبلیوں کے سپیکروں نے اپنے لیے وہ پروٹوکول سرکاری خرچ پر چنا کہ الامان و الحفیظ۔ بس یوں سمجھ لیں! پاؤں قبر میں لٹکائے رکھنے کے بعد بھی پروٹوکول جاری رکھنے کیلئے قانون سازی کروا لی ہے۔ ایسی مثال آپ کوکسی شہنشاہ‘ بادشاہ‘ امیر‘ خلیفہ سمیت آج کے کسی راج دربار سے نہیں مل سکتی۔
دوسری جانب عوام ایسے لازوال حق پرست ہیں جنہیں کوئی جبر‘ کوئی دھاندلی اور کوئی دھونس‘ ووٹ میں اپنی مرضی کرنے سے نہیں روک سکتی۔ تازہ مثال سمبڑیال سے ملتی ہے۔ عوام نے کامیابی کا ہار پی ٹی آئی کے گلے میں ڈالا مگر نامزدگی کسے ملی‘ چھوڑ دیتے ہیں۔ اصل بات سمبڑیال اور پنجاب کو سلام کہہ کر شروع کرنا ہو گی۔ جہاں کے لوگوں کو پتا تھا کہ وہ جسے ووٹ دینے نکلے ہیں اُسے الیکشن کمیشن سے ڈھول کا انتخابی نشان ملا ہے۔ مگر عوام کا فیصلہ آیا تو ووٹروں نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کا دھڑن تختہ کرکے اس کے مقابلے میں ڈھول کو عزت دے دی۔ بس قیدی نمبر 804کی طرف سے پی ٹی آئی آفیشل پر نام اور انتخابی نشا ن آنا چاہیے۔ عمران نے 77 سال کا سب سے بڑا انقلاب ایشیا میں نہیں دنیا بھر میں پیدا کر کے دکھا دیا۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے‘ عمران خان کے امیدوار کو نہ باہر نکلنے کی اجازت‘ نہ جلسہ کرنے کا این او سی‘ ریلی کے راستے میں کنٹینر اور لاٹھیاں چلیں۔ رات بھر بینر کاٹنے والی لمبی درانتیاں اور لمبے راڈ‘ لوگ پھر بھی خود باہر نکلے۔ حالانکہ لوگ یہ جانتے تھے‘ دھاندلی تو جنرل الیکشن میں بھی ہوئی‘ ضمنی الیکشن میں 'دھاندلا‘ ہو گا۔ ایک چھوٹی سی ڈرائی پورٹ پر پوری ایگزیکٹو کا جبروت موجود ہے۔اس کے باوجود لوگ باہر نکلے۔ عمران خان کے ووٹرز کو پتا تھا وہ جسے ووٹ دینے لاکھوں کی تعداد میں نکلے ہیں اسے دھاندلی کر کے اسمبلی میں نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔ لوگوں کو یہ بھی پتا تھا کہ ووٹ وہ پی ٹی آئی کو ڈالیں گے مگر نتیجہ گنتی کرنے والے ہارے ہوئے لشکر کے حق میں نکالیں گے۔ خوفزدہ سرکاری ملازم‘ جو سرکار کے افسر نہیں نوکریوں کے غلام بن چکے ہیں۔ عمران خان کے کہنے پر ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگ صرف اس لیے الیکشن میں باہر نکلتے ہیں تاکہ وہ وطنِ عزیز اور خصوصاً پنجاب کے روایتی ماحول کو بار‘ بار مسترد کر سکیں۔ جہاں کئی دہائیوں سے لوگ اپنی مرضی کا نمائندہ اور قانون ساز نہیں چن پاتے۔ لوگ ووٹ کسی اور کو ڈالتے ہیں مگر گننے والے اُس کا نتیجہ کسی دوسرے کے حق میں ڈال دیتے ہیں‘ اس کے باوجود لوگ نکلے۔ ایک سوچ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء نے باقاعدہ سسٹم بنا کر نافذ کردی کہ جو عوام کا پیسہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اسی سوچ نے مڈل کلاس‘ طالب علم لیڈروں‘ ٹریڈ یونین لیڈروں‘ کسان نمائندوں اور لوئر مِڈل کلاس کی ترقی پسند آزاد خیال آبادی کو سیاست سے دیس نکالا دیا تھا۔ اسی سسٹم کے بینر تلے بار بار مارشل لاء اور سول بیوروکریسی کو حکمرانی کی سپیس ملی۔
قارئینِ و کالت نامہ! آئیے ذرا پچھلے انتخابات اور عمران خان کے انتخابات کے ووٹروں کا موازنہ کریں۔ 2013ء‘ 2018ء اور 2024ء کے انتخابات میں بالغ رائے دہی کا یہ تقابل آپ کو بتائے گا عمران خان کی کال پر لوگ کس لیے باہر نکلتے ہیں؟ صرف اس لیے باہر نکلتے ہیں کہ عمران خان غاصبانہ سوچ کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہوا‘ طوفانوں سے لڑا مگر مڈل کلاس کو سیاست میں واپس لانے میں سرخرو ہوا۔ گزشتہ روز جمعرات کی ملاقات میں بھی قیدی نمبر 804 شاد کام اور کامران دِکھائی دیا۔ سادہ وجہ یہ ہے کہ عمران خان درحقیقت سب طاقتوروں کو شکست دے کر کامیاب ہو چکا ہے۔ اسی کامیابی کی وجہ سے مڈل کلاس اپنے حقوق سرنڈر کرنے سے بار بار انکار کر رہی ہے۔ عوامی راج منوانے کیلئے مڈل کلاس کمر بستہ ہو چکی۔ یہاں میں ایک اور غلط فہمی بھی دور کر دینا چاہتا ہوں‘ گزرے وقتوں کا یہ مغالطہ بھول جائیں کہ یہ ایک سیاسی پارٹی پی ٹی آئی اور ایک سیاسی لیڈر عمران خان سے لڑائی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ جنگ درحقیقت پاکستانی مڈل کلاس سے لڑی جا رہی ہے۔ مڈل کلاس کی سوچ براہِ راست اپنے سے بھی لوئر کلاسز پہ اثر انداز ہورہی ہے۔ بڑے پیمانے پر۔ آپ پاکستان کے جس کونے میں چلے جائیں قوم تین سوال پوچھتی ہے۔ ملک کا سیاسی بیانیہ اور سوچ انہی تینوں سوالوں کا پیدا کردہ ہیں۔
پہلا سوال‘ عمران کب آئے گا؟ یہ پاکستان کی موجودہ سیاست کا آسان ترین لٹمس ٹیسٹ ہے۔ اب رائے عامہ کسی بھولے بسرے دانشور کی اسیر نہیں رہی۔ اس لیے کہ وہ دانش جو میٹر پر چلتی ہو اسے لوگ بدترین کرپشن سمجھتے ہیں۔ جس طرح پیسہ لے کر کسی کا کام کرنا کرپشن ہے۔ عین اسی طرح کسی مفاد کے زیر اثر کسی کی حمایت کرنا دنیا کے قوانین میں کرپشن قرار دی گئی۔ پوسٹ پاک انڈیا کانفیلکٹ سارا زور لگانے کے باوجود حکومتی بیانیہ پھر پٹ گیا۔ وجہ یہ ہے کہ لوگ عمران خان کو نہیں بھول رہے۔ ہر آدمی پوچھتا ملتا ہے کہ عمران خان کب باہر آئے گا۔ کھاکر لگانے والے کہتے ہیں عمران خان کو کبھی باہر نہ آنے دو۔ اس کے علاوہ نہ کوئی سیاست ہے نہ کوئی بیانیہ۔
دوسرا سوال‘ پاکستان میں یوتھ کا مستقبل کیا ہے؟: 70فیصد کے قریب نوجوان آبادی والے ملک میں سرکاری بھرتیاں اور نوکریاں دینے کا تازہ مارکیٹ ریٹ 15سے 25 لاکھ روپے فی نوکری نکلا ہے۔ یہ لنگر گپ نہیں بلکہ قومی اسمبلی کی کمیٹی میں وفاقی سیکریٹری نے ایک نیک نام وزیر کی جانب سے چار ہزار نوکریاں 15 لاکھ روپے فی بھرتی بیچنے کا انکشاف کیا ہے۔ آپ 15 لاکھ کو چار ہزار سے ضرب دے کر دیکھ لیں کتنا پیسہ بنتا ہے؟ جہاں میرٹ کا یہ قتلِ عام ہو وہاں یوتھ کا مستقل کیا ہو گا؟
تیسرا سوال‘ سرکاری ملازم ہمارے آقا اور رہبر ہو سکتے ہیں؟: اس سوال کا جواب 1973ء کا دستور دیتا ہے‘ سرکاری ملازم صرف اور صرف پبلک سرونٹس ہیں اس لیے وہ پبلک سروس سے ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ عزیر احمد نے خوب کہا:
وہ تخت نشیں ہے تو میاں میری بلا سے!
حاکم ہے تو کیوں دل پہ حکومت نہیں کرتا
دلوں کا حکمران خان ہے۔ ووٹ گننے والے کامیابی کے نوٹیفیکیشن کی توہین کے بجائے سیدھا الاٹمنٹ لیٹر نکال دیا کریں‘ اوپر لکھا جائے... مثبت نتیجہ۔ وہ مثبت جسے قوم نے ووٹ کے زور سے منفی بنا چھوڑا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں