"SBA" (space) message & send to 7575

آئو… تماشا دیکھیں! …(2)

جو تحریر پرچیوں کے بغیر لکھی جائے اس میں جملے اور خیال اِلقا ہوتے ہیں۔ آؤ... تماشا دیکھیں! کی پہلی قسط میں دو جملے وارِد ہوئے۔ ایک یہ کہ ایران کی شجاع قوم نے فیصلہ کر لیا ہے Face Thunder, No Surrender۔ اسی دوران امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے ایران کو امریکی گولا و بارود اور اسرائیلی فوج کے سامنے سرنڈر کرنے کا حکمِ شاہی جاری کیا۔ حکمِ شاہی اس لیے کہ پچھلے ہفتے جس دن صدر ٹرمپ امریکہ میں آرمی پریڈ کی سلامی لے رہے تھے‘ عین اسی روز ریاستہائے متحدہ کے طول و عرض میں ہزاروں شہری No King, No Kingکے نعرے لگا رہے تھے۔ تازہ تاریخ میں کسی امریکی صدر کے پہلے سالِ صدارت میں اس کی پالیسیوں کے خلاف اتنے بڑے مظاہرے شاید ہی دیکھنے کو ملیں۔ بات چلی تھی سرنڈر سے‘ بہت سے وکیل اور دوسرے اہم دوستوں نے پوچھاکہ یہ سرنڈر والی آپ کی اطلاع تھی یا وجدان؟ عرض کیا: تجزیے کے لیے حالات مقامی ہوں‘ علاقائی‘ بین الاقوامی یا ذاتی‘ حقیقت کی عینک پہن کر دیکھیں تو تجزیہ درست نکلے گا۔ تجزیے کے ذکر سے تجزیہ کار یاد آگئے۔ آپ کو بھی اچھی طرح سے یاد ہے۔ ایرانی سرزمین پر امریکی‘ برطانوی اور فرانسیسی اسلحے سے اسرائیل کے حملے کے بعد پہلے 18گھنٹوں میں تماشا گروں کے ڈھولچیوں نے ایک ہی پیڈ کانٹینٹ کو مسلسل پروموٹ کیا۔ جس کا منترا تھا‘ ایران سرنڈر کر دے تو بچ جائے گا۔ اگر مغرب کے سامنے ڈٹ جائے گا تو کٹ جائے گا اور حصوں میں بٹ جائے گا۔
اس سے پہلے کہ میں سرنڈر والی امریکی دھمکی اور دُور دیس کے ملکوں پر امریکہ بہادر کی فوجوں کے حملوں اور بمباریوں کی تاریخ آپ کے سامنے رکھوں‘ یہ جان لینا ضروری ہے کہ ایران ایک پورا براعظم ہے۔ ایرانی عوام شجاعت اور شہادت کی طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ امریکہ کی سرنڈر والی دھمکی کے بعد 35 سال سے زیرِ عتاب کمیونسٹ پارٹی بھی منظر عام پر آئی۔ یہ ہے ایران کی ٹُوڈے (Tudeh) پارٹی‘ جو کلاسیکل پرو سوویت یونین مانی جاتی ہے۔ ایران کے عام لوگ اسے لیفٹ وِنگ پارٹی کے نام سے جانتے ہیں۔ ٹُوڈے پارٹی کی بنیاد 1941ء میں سلیمان مرزا اسکندری نے رکھی۔ اس پارٹی پر مغرب کی یلغار تب شروع ہوئی جب اس کے ایک لیڈر وزیراعظم محمد مصدق نے اینگلو پرشین آئل کمپنی اور اس کے اثاثوں کو 1946ء سے قومی ملکیت میں لینا شروع کیا۔ امریکہ اور برطانیہ نے ایران میں پہلی رجیم چینج کے لیے محمد مصدق کے خلاف ایرانی فوج کے جرنیلوں کو استعمال کیا اور منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ 1953ء میں مصدق کو ظلم کا نشانہ بنا کر مرحلہ وار موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
ایران میں پہلوی خاندان کے خلاف انقلاب کے بعد 1982ء میں ٹُوڈے پارٹی پر پابندی لگ گئی۔ چنانچہ اس پارٹی کے لاتعداد سیاسی کارکنوں کو قید اور پھانسیوں کی سزا ملی۔ اسرائیلی حملے کے بعد اس پارٹی کی سینٹرل کمیٹی نے بیرونی استعمار کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے کا دلیرانہ اعلان کیا۔ ٹُوڈے پارٹی کی کمیٹی کا جو فیصلہ سامنے آیا اس کے مطابق یہ پارٹی موجودہ رجیم کے خلاف جمہوری جدوجہد اور بنیادی حقوق کی بحالی کی تحریک جاری رکھے گی‘ لیکن اس تحریک کے لیے ٹُوڈے پارٹی ایران کے عوام کے علاوہ کسی بیرونی غاصب طاقت کی طرف ہرگز نہیں دیکھے گی۔ یہ ایران کے لوگوں اور ناقدین دونوں کے لیے ٹُوڈے پارٹی کا ایک بہت خوش کن مؤقف مانا گیا۔
یادش بخیر! پاکستان میں اس رجیم چینج کا ری پلے امریکی سائفر اور لندن پلان کے ذریعے نو اپریل 2022ء کو دہرایا گیا۔ دوسری جانب ایران میں رجیم چینج کے لیے ایرانی قوم پر امریکہ اور برطانیہ کی حمایت اور معاونت سے جنگ مسلط ہے۔ پاکستان میں یہ کام محض ایک کاغذی سائفر سے ہو گیا تھا۔ بس اتنا ہی بتانا مقصود ہے کہ ٹائیگر اور پیپر ٹائیگرز میں فرق تاریخ ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ اس وقت بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایوانِ اقتدار میں پیپر ٹائیگرز اِنسٹال کیے گئے ہیں۔ عمران خان نے جب کہا کہ وہ کٹھ پتیلوں کے بجائے اس طاقت سے بات کریں گے جس کے پاس قوتِ فیصلہ سازی ہے تو اس پر خوب شور مچایا گیا۔ شور مچانے والوں کو یہ دیکھ کر سانپ سونگھ گیا کہ پی ڈی ایم حکومت کے دو بڑے کاغذی ٹائیگرز کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فوٹو سیشن دینا بھی پسند نہ کیا۔
پچھلے کالم کا دوسرا جملہ جو بڑے پیمانے پہ پڑھنے والوں کی توجہ کا باعث بنا‘ وہ تھی: اسرائیل کی طرف سے گریٹر اسرائیل کے خواب کے پریشاں ہونے کی پیش گوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں اسرائیل Battles یعنی چھوٹے معرکے کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔ لیکن ایران جیسی طاقت جسے مغرب و مشرق سب نے میزائل ٹیکنالوجی کے میدان میں کم تر سمجھ رکھا تھا‘ اس نے ان سب کو اپنی تاریخ کا سب سے بڑا سرپرائز دے چھوڑا۔ اس لیے جنگ ابھی جاری ہے۔ جس میں کئی معرکے مزید ہو سکتے ہیں مگر اسرائیل تین پیمانوں سے اس جنگ میں دندان شکن شکست کھا چکا۔
اسرائیلی شکست کا پہلا میدان: اسرائیل مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا میں اپنی طرف سے ایسا محفوظ ''جگا‘‘ تھا جسے کوئی چھو نہیں سکا۔ اب گریٹر اسرائیل 'کریٹر اسرائیل‘ بن گیا۔ یعنی اسرائیل کے تمام دفاعی اور حکومتی ادارے ایران کے بیلسٹک میزائل‘ سپر سانک میزائل اور ہائپر سانک میزائل کے کریٹر یعنی کھڈوں سے چُور چُور ہیں۔ اس طرح اسرائیل کی علاقائی نمبرداری کا بھرم دھڑام سے نیچے آ گیا۔
اسرائیلی شکست کا دوسرا میدان: ایرانی قوم کے مقابلے میں اسرائیل عوام اور اس کے ''ادھاریے شہری‘‘ ذلت آمیز طریقے سے شکست خوردہ ہیں۔ ایران کے لوگ پاکستانیوں کی طرح اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اپنی چھتوں پر کھڑے ہوکر مر گ بَر امریکہ کے نعرے لگاتے ہیں۔ شہروں میں برسرِ عام ریلیاں نکال رہے ہیں۔ ان ایرانی دلیروں کے مقابلے میں سائرن بجتے ہی پورا اسرائیل چوہوں کے جھنڈ کی طرح شیلٹر کی طرف بھاگتا ہے۔ تازہ رپورٹس کے مطابق جتنے اسرائیلی قبرص کے ذریعے اب بھاگے ہیں اتنے پچھلے 76 برس میں اسرائیل سے نہیں بھاگے۔ ویسے بھی اسرائیل فرضی نام‘ اصل میں یہ فلسطین ہے جس میں مشرقِ وسطیٰ کے جرأت مند عوام بستے ہیں۔ فلسطینیوں کی زمینوں پر جبراً قبضے کے ذریعے ساری دنیا کے تلنگے اور لفنگے اسرائیلی پاسپورٹ پر مغرب کی شہریت چھوڑے بغیر آباد کار بن گئے۔
اسرائیلی شکست کاتیسرا میدان: ماسوائے اقوامِ متحدہ سلامتی کونسل اور امریکہ کے‘ عالمی برادری میں اسرائیل کو حملہ آور اور جارح کہا جا رہا ہے‘ ایسا پہلی بار ہوا۔ 1979ء میں آپریشن بابل کے ذریعے اسرائیل نے عراق کی ایٹمی تنصیبات تباہ کیں۔ اسرائیل کے پاس ایران سے لڑنے کا نہ حوصلہ تھا نہ تجربہ۔ اسی لیے نیتن یاہو روزانہ کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران پر حملہ کرنے کے بہانے تراش رہا ہے۔
اب آئیے ایران پر امریکی حملوں کی تاریخ کی طرف۔ 1987ء میں ایران پر پہلی بار امریکہ حملہ آور ہوا۔ خلیجی جنگ میں امریکہ اور برطانیہ دونوں نے مل کرعراق اور اُس کے ساتھ ایران کی تنصیبات پر 2003ء سے 2015ء تک مسلسل حملے کیے۔ دنیا بھر میں امریکی بمباری کی تاریخ پر چین نے ایک فہرست جاری کی ہے۔(جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں