"SBA" (space) message & send to 7575

آؤ تماشا دیکھیں… اسرائیل اور امریکہ کا… (3)

اسے محض جنگ بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ ایک جانب مشرقِ وسطیٰ کا نمبردار اور واحد نیوکلیئر طاقت حملہ آور تھی۔ جس کے پیچھے الف سے لے کر یے تک ساری مغربی طاقتیں بھی‘ جن میں دنیا کے بڑی فائر پاور رکھنے والے ملک بھی شامل رہے۔ صرف اسلحہ سپلائر کے طور پر نہیں بلکہ ایران کے جوابی حملوں کو اپنے جنگی طیاروں سے‘ مداخلت کار ہتھیاروں سے ایکٹو پارٹنر کے طور پر مشرقِ وسطیٰ کی فضاؤں میں اپنے ناجائز بچے کی پشت پرکھل کر کھڑے رہے۔ 57 ملکوں کی اُمہ محض تماشائی بنی رہی‘ بلکہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو نے یہ کہہ کر ان تماشائیوں کا تماشا لگا دیا کہ جو بظاہر کہہ رہے ہیں کہ ہم ایران کے ساتھ کھڑے ہیں‘ وہی ہمیں کہہ کر گئے ہیں کہ ایران پر حملے ضروری ہیں اور اُسے ایٹمی طاقت نہیں بننا چاہیے۔ مجھے حضرت صلاح الدین ایوبیؒ یاد آ گئے جن کے خلاف صلیبی فوجوں اور صلیبی طاقتوں کا عالمی اتحاد کھڑا تھا۔ مگر نہ تو حضرت صلاح الدین ایوبیؒ کو قبلۂ اول کی آزادی تک کے سفر سے کوئی روک سکا‘ نہ مغرب کے بادشاہوں‘ شہنشاہوں‘ شہزادوں‘ شہسواروں‘ جنگجوؤں اور مذہبی رہنماؤں کا اتحاد حضرت صلاح الدین ایوبیؒ کا کچھ بگاڑ سکا تھا۔ ایران‘ اسرائیل 12روزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل اور اس کے حامی ایران کو سر نگوں کر سکے؟ اس کا جواب ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو کے اجلاس کے دوران اِن لفظوں میں دیا: ''ایران بلاشبہ ایک بڑی طاقت ہے۔ ایران تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے۔ 12روزہ جنگ کے آخری دو دنوں میں ایران کے ہاتھوں اسرائیل کو بہت بری مار پڑی۔ اسرائیل کی بہت سے نئی عمارتیں تباہ ہوئیں اور اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑا‘‘۔
ایرانی سرزمین پر حملہ آور ہونے والے دونوں ممالک اسرائیل اور امریکہ‘ دونوں نیوکلیئر طاقتیں ہیں۔ ان دونوں کے مدمقابل ایران ایک نان نیوکلیئر ملک ہے‘ جس پر چار عشروں سے مختلف قسم کی اور مختلف سطح کی عالمی پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ آج آپ مغرب کے کسی تجزیہ کار بشمول سی این این‘سی این بی سی اور سینکڑوں دوسرے وی لاگز اور بلاگز کو اٹھاکر دیکھ لیں‘ سب اس نکتے پر متفق ہیں کہ ایران پر امریکہ‘ اسرائیل حملے نہ اس کے نیوکلیئر پروگرام کو ختم کر سکے اور نہ ہی ایرانی قوم کے حوصلوں کو توڑ سکے۔
سوال یہ ہے کہ ایران کے پاس کیا ہے جس نے اس کا حوصلہ نہیں ٹوٹنے دیا؟ اب ثابت ہو گیا کہ ایران کے پاس چار طاقتیں ہیں جو کسی اور ملک کے پاس شاید ہی اکٹھی جمع ہوں۔ ایران کی پہلی طاقت امریکہ بہادر سے دوری ہے۔ جدید دنیا کے نیو ورلڈ آرڈر کی تاریخ بتاتی ہے کہ جس قوم نے بھی ایک بار امریکی مونگ پھلی کا دانہ چکھ لیا وہ بھکاری بننے سے بچ نہیں سکتا۔ فیضؔکی زبان میں بھکاریوں کا صرف ایک ہی مقدر ہوتا ہے:
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
ایران کے گلے سے امریکی گدائی کا طوق پہلوی بادشاہت کے خاتمے کے ساتھ ہی اتر چکا ہے۔ اسی لیے جب صدر ٹرمپ نے ایران کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا تو ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے صدر ٹرمپ کو ٹرمپ کارڈ کی اوقات یاد دلا دی۔ ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ ٹرمپ ہے کون میں جس پر تبصرہ کروں؟ اگر امریکہ ایرانیوں پر حملہ آور ہوا تو اسے درد ناک جواب دیا جائے گا۔ میری بوڑھی ہڈیوں کی کوئی اہمیت نہیں نہ ایران کی اہمیت ہے‘ اہمیت صرف اور صرف اسلام کی سربلندی کی ہے۔ لہٰذا ہم ہر قیمت پر امریکہ کے حملے کا بدلہ چکائیں گے اور پھر ایران نے امریکہ سے بدلہ چکایا بھی‘ جسے چھپانے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ امریکی سپانسرڈ میڈیا نے قطر میں واقع العُدید ایئر بیس پر ایرانی حملے کو Choosen سنسر شپ لگا کر کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن سوشل میڈیا وڈیوز نے گودی میڈیا کے اس دعوے کا منہ کالا کر دیا جس میں کہا جارہا تھا کہ ایران نے اس ایئر بیس پر صرف چھ میزائل داغے ہیں‘ سینکڑوں میزائل اور ڈرونز سے حملہ نہیں کیا۔ اسی گودی میڈیا کا کمال یہ رہا کہ جو رپورٹرز اوراینکرز گودی رپورٹنگ‘ تہران اور قطر پر حملے کی کر رہے تھے وہ تل ابیب اور یروشلم میں کیمرہ لے کر کھڑے رہے۔ اسرائیل نے ایران سے جنگ کے دوران ہی ایرانی حملوں کے حوالے سے کسی قسم کی بلا اجازت رپورٹنگ‘ وی لاگز‘ بلاگز‘ وڈیو فوٹیج یا آڈیو ریکارڈنگ پبلک اور پوسٹ کرنے کو قابلِ تعزیر فوجداری جرم بنا دیا۔ اس کے باوجود سوشل میڈیا نے جو صحیح معنوں میں متبادل میڈیا ہے‘ متبادل اور متوازن رپورٹنگ کا حق ادا کر دیا۔ کوشش کے باوجود اس رپورٹنگ کو دنیا بھر میں پہنچنے سے نہ اسرائیل کنٹرول کر سکا اور نہ ہی ٹرمپ انتظامیہ۔
جنگ کے دوران کچھ لوگوں نے کھل کر پرو اسرائیلی لابسٹ کا کردار ادا کیا۔ اپنے ہاں ایران کی امریکہ سے دوری یا نجات کے خلاف پروپیگنڈا دو نکات پر مبنی تھا۔ پہلے نکتے کے مطابق کہا گیا کہ امریکہ ایران کو برباد کر کے رکھ دے گا۔ ساتھ ہی فتویٰ آیا کہ ایرانی قوم ساری دنیا میں تنہا ہو گئی ہے‘ اب اسے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ دوسر نکتہ تھا کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی فائر پاور‘ نیوکلیئر پاور اور سپر پاور ہے۔ اس کے مقابلے میں ایران جوابی حملہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لہٰذا دیسی ارسطو تجویز کرتے رہے کہ ایران کو فوری طور پر امریکہ کی شرائط کے نیچے عزت کا دہی پلس کُلچہ قبول کر لینا چاہیے۔
ایران بمقابلہ اسرائیل پلس امریکہ جنگ دنیا کی پہلی سائبر جنگ تھی۔ ایران پر قدرت کی سب بڑی مہربانی یہ تھی کہ نہ اس کے پاس امریکی امداد تھی‘ نہ ٹیکنالوجی اور نہ ہی کوئی ٹیکٹیکل سپورٹ۔ اسی لیے ایران نے امریکہ کے ہر دباؤ کے جواب میں Absolutely Not کہہ کر اپنی حقیقی خود مختاری اورقومی آزادی کا بول بالا کیا۔
ایران کی دوسری طاقت اس کی سنجیدہ قیادت ہے جس نے نہ بڑھکیں ماریں‘ نہ ٹک ٹاک بنائے۔ مگر اپنی جنگی طاقت کے حوالے سے دنیا کو سب سے بڑا سرپرائز دے ڈالا۔ ایران کی تیسری طاقت اس کی غیرمتزلزل اور آزادانہ خارجہ پالیسی ہے جس میں فلسطینیوں سمیت مشرقِ وسطیٰ کے محکوموں کے ساتھ کھلی یکجہتی اور مغربی ممالک سے برابری کا باعزت ورکنگ ریلیشن شپ۔
ایران کی چوتھی طاقت اس کے عوام کا اپنی لیڈر شپ پر مکمل اعتماد ہے۔ ایرانی جانتے ہیں کہ ان کی قیادت نے امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس‘ برازیل‘ بلجیم‘ سوئٹزرلینڈ‘ کینیڈا یا پولینڈ میں کوئی محلات قوم کا پیسہ لوٹ کر نہیں بنائے۔ اسی لیے ایران نے اللہ تعالیٰ پر ایقان اور قومی آزادی پر ایمان کی طاقت سے امریکہ اور اسرائیل جیسے تماشا گروں کو چلتا پھرتا عالمی تماشا بنا چھوڑا۔ حبیب جالب ؔ نے عشروں پہلے کہا تھا:
درِ غیر پر ہمیشہ تجھے سر جھکائے دیکھا
کوئی ایسا داغِ سجدہ مرے نام پر نہیں ہے
کسی سنگدل کے در پرمرا سر نہ جھک سکے گا
میرا سر نہیں رہے گا مجھے اس کا ڈر نہیں ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں