''دنیا نے غلامی کے طریقے بدل لیے ہیں۔ زنجیریں اب لوہے کی نہیں رہیں بلکہ تنخواہوں‘ کرایوں اور قرض کی ہیں۔ وہ تمہیں اتنا کچھ ضرور دیتے ہیں کہ تم بھوکے نہ مرو مگر اتنا کبھی نہیں دیں گے کہ تم آزاد ہو کر جینا شروع کرو۔ تم ہر صبح اُٹھتے ہو‘ دفتر جاتے ہو۔ تنخواہ کے وعدے پر دن بھر اپنا وقت‘ اپنی توانائی‘ اپنے خواب‘ اپنی جوانی‘ قسطوں میں گروی رکھ دیتے ہو۔ اور شام کو؟؟ تم بس اتنا پاتے ہو کہ اگلی صبح دوبارہ اُسی کام پر واپس جا سکو۔ جان لو! یہ زندگی نہیں‘ یہ محض باقی رہنا ہے۔ بقا آزادی نہیں ہوتی‘‘۔
اوپر لکھے ہوئے الفاظ جرمن امریکی شاعر‘ ناولسٹ‘ شارٹ سٹوری رائٹر‘ پبلشر Henry Charles Bukowski کے ہیں۔ ہینری چارلس کی تحریروں نے سوشل‘ کلچرل اور معاشی ماحول پر اتنا اثر ڈالا کہ اس کے آبائی شہر لاس اینجلس نے اسے اپنی ترقی کا ماٹو بنا لیا۔ آزادی کیا ہے اور اس کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟ یہ سادہ سوال نجانے کیوں ہماری ریاست کے منیجرز سمجھنے سے مسلسل انکاری ہیں۔ آج کی دنیا کے مختلف خطوں میں جتنی بھی آزادیاں ہیں اُن کی بنیاد تحریری دستور میں باقاعدہ سے لکھی ہوئی ہیں۔ کوئی عدالت یا ریاست کا اہلکار ان دستوری اور بنیادی انسانی حقوق کو معطل کرنے یا ختم کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ دنیاکی بڑی سپر پاور USA کی مثال لے لیتے ہیں جہاں سال 1787ء اور 1788ء میں واقع ہونے والے انتہائی تلخ اور اعصاب شکن بحث مباحثے کے بعد ''دی یونائیٹڈ سٹیٹس بِل آف رائٹس‘‘ کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے آئین کا حصہ بنایا گیا۔
بِل آف رائٹس پر دلچسپ بحث ہوتی رہی۔ کچھ سٹیک ہولڈرز USA بنانے کے سرے سے حامی ہی نہیں تھے۔ یہ سوچ رکھنے والوں کو امریکی تاریخ اینٹی فیڈرلسٹ کہتی ہے۔ فیڈریشن گریز امریکیوں کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ وفاقی ریاست بننے کے بعد شخصی آزادیوں کی گارنٹی ختم ہو جائے گی۔ اُن کے نزدیک آزادیوں کی اس فہرست میں فریڈم آف سپیچ‘ دی رائٹ ٹو پبلش‘ مذہب پر عمل کرنے کی آزادی‘ شخصی تحفظ کی گارنٹی کے طور پر اسلحہ رکھنے کی آزادی‘ رائٹ ٹو اسیمبل یعنی حقِ اجتماع واحتجاج‘ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے قدرتی‘ پیدائشی اور قانونی حقوق کو فیڈرل اِزم کے زور آور اہلکار کھا جائیں گے۔ اسی تناظر میں مختلف امریکی ریاستوں کے نمائندے اور عام لوگ ان آزادیوں کے جبری سرنڈر کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ بھاری تعداد میں مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لوگوں کے احتجاج کا یہ سلسلہ 1776ء کے ورجینیا ڈیکلریشن آف رائٹس کی شکل میں احتجاجیوں کی فتح پر منتج ہوا۔ اسی طرح کی دوسری بڑی مثال ہمارے اور انڈیا جیسی سب جمہوریتوں کی ماں یونائیٹڈ کنگڈم آف انگلینڈ اینڈ ویلز سے بھی ملتی ہے۔ یہ مثال امریکہ سے تقریباً 600 سال پہلے برطانیہ میں سامنے آئی۔ شہریوں کے بنیادی‘ انسانی‘ شخصی‘ سیاسی اور مذہبی حقوق کے تحفظ کا پہلا برطانوی چارٹر لکھا گیا‘ جسے اب ساری دنیا میں قانون وانصاف اور راج نیتی میں جگہ دی جا رہی ہے اور وہ ہے: میگنا کارٹا۔ لاطینی زبان میں اسے گریٹ چارٹر کہتے ہیں۔ یہ گریٹ چارٹر برطانوی شہریوں کے لیے کنگ جان آف انگلینڈ نے پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کیا تھا بلکہ اس کے لیے شدید احتجاج اور تاریخ ساز عوامی مزاحمت ہوئی۔ کنگ جان آف انگلینڈ نے ان مزاحمتیوں کو کچلنے کے نئے نئے طریقے دریافت کئے۔ مگر آخرکار پبلک جیت گئی اور بادشاہ ہار گیا؛ چنانچہ 15 جون سال 1215ء کے روز برطانیہ میں عوامی حقوق کی پاسداری کے لیے میگنا کارٹا کا پہلا ڈرافٹ آرچ بشپ آف کینٹربری‘ Cardinal Stephen Langton نے تحریر کیا۔ اسی میگنا کارٹا کو بنیاد بنا کر برطانیہ سمیت دنیا کے تمام مغربی ملکوں میں سوچ‘ اظہار‘ پریس‘ پبلک احتجاج اور ہر حکومتی ادارے پر سوال اٹھانے کی اجازت ہے۔
اس وقت USA میں ایران پر امریکی حملے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تین سطح پر مزاحمت جاری ہے۔ پہلا پبلک احتجاج‘ دوسرا سوشل میڈیا اور تیسرا آزاد مین سٹریم میڈیا‘ جس کی چند مثالوں میں سے ایک مثال عالمی شہرت یافتہ اینکر Jon Stewart سے لے لیتے ہیں۔ جَون نے پوسٹ ایران‘ اسرائیل‘ امریکہ وار شو میں امریکی صدر ٹرمپ کے امیج کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ جَون نے کہا: ہمارے ڈیل میکر چیف صاحب آپ تو ایران کو یورینیم کی افزودگی سے روکنے کے لیے ڈیل کر رہے تھے۔ آپ یہ بتائیں آپ کو ایران پر بمباری کیوں کرنا پڑی؟ کیا یہ بمباری کامیاب ہوئی۔ جَون نے پچھلے ہفتے ایران کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہوئے کہا: زیادہ سے زیادہ آنے والے موسمِ سرما تک ایران ایٹم بم بنانے تک پہنچ جائے گا۔ صدر ٹرمپ آپ نے نیتن یاہو پر یقین کیا جس نے 2012ء میں کہا‘ پھر 2015ء میں یہی تقریر دہرائی کہ ایران جوہری بموں کے پورے ہتھیار بنانے سے صرف چند ہفتوں کی دوری پر ہے۔ پھر نیتن یاہو نے 2018ء کی پریس کانفریس میں ایران کی خفیہ جوہری فائلیں سلائیڈ پر دیکھا کر کہا: یہ رہا وار ہیڈ اور یہ رہا ایران کا ایٹم بم۔ پھر جَون نے کمال کا یہ جملہ کہا: اگر مڈل ایسٹ کو ایٹم بم سے خطرہ ہے اور مڈل ایسٹ میں ایٹم بم کسی ملک کے پاس نہیں ہونا چاہیے تو پھر چلیں جاکر اسرائیل کا ایٹم بم ختم کرا دیں‘ مڈل ایسٹ میں امن آ جائے گا۔ اسی تناظر میں سابق امریکی کانگریس مین Matt Gaetzنے امریکی صدر سے کہا کہ آپ نے غزہ پر حملے نہیں روکے امن کیسے آئے گا؟ ایران کے پاس بم ہے یا نہیں‘ اسے چھوڑ دیں‘ اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار ہے‘ آپ نے اُس خطرے کو نظر اندازکیا اور ایران جس کے پاس ابھی ایٹمی ہتھیار نہیں ہے اُس پر بمباری کر دی۔
امریکہ میں ہر طبقے اور ہر خیال کے لوگ امریکی صدر کے خلاف ایران پر بمباری کی وجہ سے بولنے کا طوفان برپا کر دیا۔ اسی لیے کبھی صدر ٹرمپ‘ کبھی مارکو روبیو‘ کبھی پینٹاگان کا سربراہ‘ کبھی یو ایس آرمی کے اعلیٰ عہدیدار اس حملے کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے امریکہ کے نوجوانوں کی بھاری اکثریت کے ووٹ No more War کے نعرے پر لیے تھے۔ ٹرمپ انتظامیہ اب اُنہی یوتھ ووٹرز کے خلاف کریک ڈائون کر رہی ہے۔ چین‘ برطانیہ‘ روس‘ اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کے کسی بڑے ادارے نے ایران پر امریکی حملے کی نہ حمایت کی نہ اُس میں شرکت کی۔ آپ اندازہ لگائیے کسی خودمختار ملک پر بغیر اشتعال کے حملہ کرنا انٹرنیشنل لاء میں جنگی جرم ہے مگر ہمارے دیسی ارسطو جو پچھلے سال ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر بننے کو عالمی امن کے لیے خطرہ اور اسے جنگی جنون کا مریض کہہ رہے تھے‘ انہوں نے جنگی جرائم کے الزام کو چاٹ کر صدر ٹرمپ کے لیے امن کا نوبیل پرائز مانگا ہے۔ جو ش نے خوب کہا تھا:
کوئی بازی کوئی لت‘ کوئی حماقت‘ کوئی خبط
کچھ نہ کچھ تو چاہیے‘ بابا‘ دَوائے روزگار
نبضِ تن چلتی ہے‘ لیکن نبضِ دل چلتی نہیں
اس بھیانک موت سے‘ اے نوعِ انساں‘ ہوش یار!!