"SBA" (space) message & send to 7575

ہائبرڈ نہیں‘ ہائپر تھائیرائیڈ

چلیے شیر سے شروع کر لیتے ہیں۔ Lionاور Tigerکے مصنوئی میل سے جو ہائبرڈ جانور پیدا ہوا اُسے Liger کہتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ انگریزی کے دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔ لاؤزی اور لیزی۔ اس لیے کہ نہ تو یہ کسی جنگل میں جی سکتا ہے نہ ہی دوسرے جانداروں سے کھلے میدانوں میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور جرأت رکھتا ہے۔ بس اسے ڈنڈے سے ہانک کر خوراک دینے والا ماسٹر چاہیے۔ لائیگر کا واحدکام مفت کا کھانا پینا اور محفوظ پنجرے میں لیٹے رہنا ہے۔ کبھی کبھی اسے تماشائیوں کے سامنے مدہوشی سے اُٹھا کر کیٹ واک کی فنکاری کرائی جاتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ لائیگر کو ٹائیگر اور Lionکے مسالے ڈال کر ہائبرڈ جانور کے طور پر تخلیق تو کر لیا گیا لیکن اس کو کھلانے پلانے والوں کو اس سے خچر جتنا بھی فیض نہیں ملتا۔ ہاں یاد آیا! اب تو مارکیٹ میں ہائبرڈ کتے بھی آ گئے ہیں۔ اسلام آباد کے پانچ انٹری پوائنٹس پر کتوں کی افزائش کے سیزن میں مدقوق سے چہرے چھوٹے چھوٹے پلے‘ جن کے کان انٹینا کی طرح مستقل طور پر کھڑے رہتے ہیں‘ ہاتھ میں اُٹھائے بڑی گاڑیوں کے پیچھے دوڑتے نظر آتے ہیں۔ یہ مالدار گاہکوں سے کہتے ہیں: آپ اسے دودھ پلائیں یا پھر روٹی کھلائیں‘ یہ بڑا وفادار ہے۔ اکثر لوگ ایسا سَگ جب خرید کر گھر لے جاتے ہیں‘ اگلی صبح بچے کھیلتے ہوئے اس کے کانوں کو پکڑتے ہیں تو پتا چلتا ہے وہ کان جو انٹینا کی طرح کھڑے تھے وہ موم کی ناک کی طرح نیچے ڈھلک آئے ہیں۔ اس کا لائبر ہائبرڈ والا رنگ و روغن بھی ایک دو دنوں میں اتر جاتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلا کہ مختلف اجناس کے ہائبرڈ بیج بنانے پر قوم کے ٹیکس کے اربوں روپے اُڑائے گئے۔ لیکن پنجاب‘ جو ایشیا کی فوڈ باسکٹ ہے‘ وہ دھنیے سے لے کر گندم تک امپورٹ کرتا ہے۔ سستا ترین گنا کسانوں سے خریدکر پھر دیارِ اقتدار کے درباری اس سے چینی بنا کر مہنگی برآمد کرتے ہیں۔ بقیہ چینی مارکیٹ سے اٹھا لی جاتی ہے جس پر چینی خور شور مچاتے ہیں۔ شور کو جواز بنا کر مقامی چینی سے بہت گھٹیا یعنی ڈی گریڈ کی چینی ملک میں واپس درآمد ہوتی ہے۔ اس ہائبرڈ کھیل میں گنا پیدا کرنے والا کسان پیٹ پر پتھر باندھنے پر مجبور‘ جبکہ راج دربار والے کسان کی محنت سے مالا مال ہوتے رہتے ہیں۔ کام کوئی بھی برا نہیں‘ پیشے سب اچھے ہیں مگر بچہ سقّہ حکمران بنا دیے جائیں تو اسے ہائبرڈ نظام کہا جاتا ہے۔ بچہ سقّہ نے نہ کوئی الیکشن جیتا‘ نہ کسی یونیورسٹی سے اکنامکس کی ڈگری حاصل کی اور نہ ہی اسے راج نیتی کی ''ر‘‘ کا بھی مطلب آتا تھا۔ اس کے باوجود ہائبرڈ نظام نے بچہ سقّہ نام کی کرنسی‘ چمڑے سے بنانے کی اجازت دے ڈالی۔
ان دنوں جو لوگ پاکستا ن میں دستوری جمہوریت اور 1973ء کے متفقہ آئین‘ دونوں کو ہائبرڈ بنانے کیلئے پیڈ کانٹینٹ والے ڈھولچی استعمال کررہے ہیں‘ وہ ایسا شہنشاہی نظام چاہتے ہیں جہاں نہ احتساب ہو‘ نہ عوام کا عمل دخل‘ نہ ووٹ مانگنے کا جھنجھٹ۔ انہیں نو لاکھ آٹھ ہزار 667مربع کلو میٹر پر مشتمل (بمشمولAJK+GB) قائداعظم کے پاکستان کو طویل و عریض چراہ گاہ بنانے کا لائسنس چاہیے۔ جہاں سے کرنسی سات سمندر پار ٹرانسفر کرنے کا ہائبرڈ نظام ہو۔ وہ اس چراہ گاہ کو محض چرنے کیلئے استعمال کریں اور اس کی مظلوم کرنسی کو مضبوط امریکی ڈالر‘ پاؤنڈ سٹرلنگ‘ رِیال‘ یورو اور درہم میں تبدیل کرکے اپنی بلیک منی کی پارکنگ والے آبائی وطن پہنچاتے رہیں۔ وہ آبائی وطن جہاں ان کے پسندیدہ زکام کے ہسپتالوں سے لے کر ان کے حجام کے ہیئر کٹنگ سیلون تک پائے جاتے ہیں۔
جن جن ملکوں میں ہائبرڈ بادشاہ راج کرتے ہیں وہاں دستور نہیں ہوتا۔ جہاں کوئی عمرانی معاہدہ ریاست اور اُس کے شہریوں کے درمیان نہ ہو وہاں ایک شخص کو امرت دھارا بنا کر پینٹ کیا جاتا ہے۔ ایسا بادشاہ اپنی بادشاہی میں کرائے کے قاضی پسند کرتا ہے۔ ایسے نظام کو صرف اور صرف ہائپر تھائیرائیڈ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ بٹر فلائی شپ یعنی تتلی کی شکل کا ایک گلینڈ ہر انسان کی گردن کی میں پایا جاتا ہے جو جسمانی نشو ونما اور توازن قائم رکھتا ہے۔ اس تھائیرائیڈ کے کارندوں کو ہارمونز کہتے ہیں۔ ہارمونز نکمے ہوں تو جسمانی توانائی صفر ہو جاتی ہے۔ صحت کی جگہ موٹاپا لے لیتا ہے۔ سرد‘ گرم موسم برداشت نہیں ہوتے اور بال جھڑ جاتے ہیں۔ انجانے خوف سے دل کی دھڑکن تیز رہتی ہے۔ طبیعت نامعلوم وجوہات کی بنا پر Anxietyیعنی بے چینی کا شکار۔ اگر ہم اپنے ملکی حالات پر نظر ڈالیں تو یہاں سرے سے عدل سمیت کوئی نظام ہے ہی نہیں۔ سب کچھ ہائپر ہے۔ جس کی ایک مثال PLD2022 سپریم کورٹ صفحہ 116سے ملتی ہے۔ اس مقدمے میں سپریم کورٹ کے سابق قاضی کے ٹیکس ریٹرنز اور بیرونِ ملک اثاثے کاز آف ایکشن بنے۔ قاضی کے حق میں برادر ججوں نے جو فیصلہ لکھا ایسا فیصلہ عدالتی تاریخ میں شاید ہی کہیں اور سے مل سکے۔ ذائقے کی تبدیلی کیلئے فیصلے کی چند پُرلطف لائنیں پیشِ خدمت ہیں؛
Judicial freedom is fundamental to the concept of the rule of the law. Any attempt to muffle judicial independence or to stifle dissent shakes the foundation of a free and impartial judicial system, thus eroding public confidence on which the entire edifice of judicature stands. judge whose decisions are dictated not by the fidelity to the letter and spirit of the law but based on what he deems to be palatable to the Government would cause irretrievable damage to the public confidence in the judiciary, and consequently jeopardize its credibility and moral authority.
ترجمہ: جوڈیشل فریڈم قانون کی حکمرانی کے تصور کی بنیاد ہے۔ ایسی کوئی کوشش جو عدلیہ کی آزادی پہ حرف لائے یا اختلاف کا گلا گھونٹے اس سے غیر متنازع اور فری جوڈیشل سسٹم کی بنیاد ہِل جائے گی جس کے نتیجے میں نظامِ عدل پر عوام کا اعتماد قائم ہوتا ہے۔ اس لیے ججوں کے فیصلے صرف قانون کی جادوگری کا نام نہیں۔ حکومت سمیت طاقتور کے خلاف صحیح انصاف نہ ہو تو جوڈیشری پر عوام کے اعتماد کو ناقابلِ تلافی دھچکا لگے گا۔ اور اسکے نتیجے میں عدلیہ کی ساکھ اور اخلاقی اتھارٹی دونوں کا سودا ہو جائے گا۔
کون نہیں جانتا! پاکستانی عدلیہ انصاف کی رسائی پر مبنی بین الاقوامی رینکنگ میں 129ویں نمبر پر ہے۔ سادہ سوال یہ ہے کہ کیا عدلیہ دباؤ سے آزاد ہے‘ خودمختار اور میرٹ پر فیصلے ہو رہے ہیں؟ جوڈیشل میرٹ‘ خودمختاری اور عدلیہ کی آزادی کا تازہ ثبوت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خصوصی نشستوں کے فیصلے سے ملتا ہے۔ فروری 2024ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے اکیلے ساری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں لاکھوں ووٹ زیادہ لیے۔ 26ویں ترمیم والی عدلیہ کی تقسیم کے مطابق مولانا‘ اے این پی‘ پی پی پی‘ ایم کیو ایم اور الیکشن ہارنے والی دوسری جماعتوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی کوصرف ایک خصوصی نشست ملی۔ اسے کہتے ہیں ہائپر تھائیرائیڈ نظام کا حتمی انتخابی نتیجہ۔
بجھ گئی شمع حرم باب کلیسا نہ کھلا
کھل گئے زخم کے لب تیرا دریچہ نہ کھلا
ہم پری زادوں میں کھیلے شب افسوں میں پلے
ہم سے بھی تیرے طلسمات کا عقدہ نہ کھلا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں